• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستانی فلمی صنعت کے حوالے سے جب23 مارچ کا جائزہ لیتے ہیں، تو چند قابل ذکر فلمیں، اس تاریخ پر ریلیز ہونے والی ملتی ہیں۔ جمعہ 23 مارچ 1956ء کو ریلیز ہونے والی اپنے دور کی بلاک بسٹر پنجابی فلم ’’ماہی منڈا‘‘ وہ پہلی فلم ہے، جو یومِ پاکستان کے موقع پر لاہور اور پنجاب سرکٹ میں ریلیز ہوئی۔ ملک ٹاکیز کی اس فلم کے پروڈیوسر باری ملک، منظرنامہ و ہدایت کار ایم جے رانا، مصنف شیخ اقبال، مکالمے احمد راہی، موسیقار جی اے چشتی، عکاسی مسعودالرحمٰن، نسیم حسین شاہ اور تدوین کار امان مرزا تھے۔ یہ لاہور کے قدیم سینما اوڈین میں مسلسل 22ہفتے زیر نمائش رہی۔ مسرت نذیر، سدھیر، زینت، نذر، ظریف، اجمل، غلام محمد، گیتا نظامی، مایا دیوی، الیاس کاشمیری کے علاوہ معروف اداکارہ نیلو نے بہ طور ایکسٹرا کے اس فلم کی کاسٹ میں موجود تھیں۔ 

اس فلم کی کام یابی نے باری ملک کی قسمت بدل دی۔ اس پنجابی فلم کا میوزک بھی بے حد سپرہٹ ہوا۔ آج طویل عرصہ گزرنے کے باوجود اس فلم کے نغماتکل کی طرح آج بھی مقبول ہیں۔ اس سپرہٹ یادگار فلم سترہ سال بعد جمعہ 23 مارچ 1973ء کو پُورے پاکستان میں ہدایت کار کے خورشید کی نغماتی گھریلو ڈرامائی گولڈن جوبلی فلم ’’گھرانہ‘‘ کراچی کے پلازہ اور لاہور کے میٹروپول سینما میں پیش کی گئی۔ اپسرا پکچرز کی اس فلم کے پروڈیوسر نورالدین کسیٹ، کے خورشید، مصنف بشیر نیاز، موسیقار ایم اشرف، نغمہ نگار کلیم عثمانی، عکاسی ایم حسین، اور تدوین کار سردار بیگ تھے۔ اس فلم میں اداکار محمد علی نے اپنے فلمی کیریئر کا یادگار کردار کیا، جو ایک بڑے بھائی کا تھا۔ فلم کے دیگر اداکاروں میں شبنم، شاہد، صوفیہ بانو، عندلیب، مسعود اختر، عطیہ شرف، تمنا، رنگیلا، ساقی، فضل حق، تسکین، امان صوفی، جلیل افغانی کے نام شامل ہیں۔ شبنم کے ساتھ اداکار شاہد کی بہ طور ہیرو پہلی فلم تھی۔ اس فلم میں دونوں کی جوڑی کو فلم بینوں نے بے حد پسند کیا۔ گھرانہ کے نغمات بے حد مقبول ہوئے، خاص طور پر گلوکارہ نیّرہ نور کا گایا ہوا یہ سدابہار نغمہ؎

’’تیرا سایہ جہاں بھی ہو سجناں‘‘

اور احمد رشدی کا گایا ہوا یہ خوب صورت گیت۔۔ ’’پیار پیار پیار کرنے کو تو سب کرتے ہیں‘‘ اس فلم کے دیگر نغمات میں ؎ گورے گورے گال پہ کالا کالا تل ہے؎ زندگی کتنی حسین ہے اور دنیا ہے کتنی جواں؎ کانٹا لاگو رے سانوریا؎ ایک آنے کی چڑیا اور دو آنے کا مور؎۔۔

1973ء میں یوم پاکستان کے دن فلم بینوں کی بڑی تعداد کراچی کے پلازہ سینما میں لمبی لمبی قطاریں لگائیں۔ اس فلم کا پہلا شو دیکھنے کے لیے جم غفیر کی صورت میں موجود تھے۔ اپنے مرکزی سینما میں یہ فلم بڑی کام یابی سے 22 ہفتے تک چلتی رہی۔

یوم پاکستان کے موقع پر گھرانہ کے چھ سال بعد جمعہ 23 مارچ 1979ء کے تاریخ ساز موقع پر پاکستانی سینما پر نیف ڈیک کی کثیر سرمایہ سے تیار کی گئی شان دار فلم ’’خاک اور خون‘‘ آل پاکستان سینما ہائوسز پر ایک ساتھ ریلیز کی گئی۔ عظیم ناول نگار نسیم حجازی کے ناول ’’خاک اور خون‘‘ پر مبنی اس فلم کی کہانی کا پس منظر وہی تھا، جو یوم پاکستان میں قرارداد منظور ہونے پر برصغیر کے مسلمانوں کی جدوجہد آزادی کا تھا۔ یہ لہو کی وہ داستان ہے، جو لاکھوں گمنام شہداء کے خون سے لکھی گئی ہے، جسے سینما کے اسکرین پر ہدایت کار مسعود پرویز نے خاک اور خون کے نام سے پیش کیا۔ مصنف نسیم حجازی، مکالمہ نویس ڈبلیو زیڈ احمد، نغمہ نگار قتیل شفائی و احمد فراز، عکاسی مسعودالرحمٰن کی تھی۔

اس یادگار فلم میں زیادہ تر فن کار ٹی وی سے تعق رکھتے تھے، جن میں نوین تاجک، آغا فراز، سلیم ناصر، عابد علی، محبوب عالم، شجاعت ہاشمی، فوزیہ درانی، بدیع الزمان، عاصم بخاری، سجاد کشور، جمیل فخری، ظلّ سبحانی، ریحان اظہر کے نام شامل تھے۔ اس فلم میں کلام اقبال کو مہدی حسن کی آواز میں موسیقار نثار بزمی نے نہایت وجدت آمیز طرز میں ریکارڈ کروایا، جس کے بول یہ ہیں؎۔

آسماں ہوگا سحر کے نور سے آئینہ پوش

اس کے علاوہ احمد فراز کا لکھا ہوا ایک گیت، جسے اخلاق احمد اور جمال اکبر نے اپنی آوازوں میں ریکارڈ کروایا، جس کے بول یوں تھے۔؎ نیا سفر ہے خون کا جنون کا مگر چلے چلو مسافروں؎ کا، شامل کیا گیا۔ خاک اور خون کے ساتھ کراچی کے مرکزی سینما گوڈین پر پنجابی سینما کی اب تک کی سب سے بڑی بلاک بسٹر پنجابی فلم ’’مولاجٹ‘‘ بھی 23 مارچ کو ریلیز ہوئی، جب کہ یہ شہرۂ آفاق ورلڈ فیم پنجابی فلم پنجاب اور لاہور سرکٹ میں9 فروری 1979ء کو ریلیز ہوچکی تھی۔ لاہور میں اس کا مرکزی سینما شبستان تھا۔ مسلسل 3 سال اپنے مرکزی سینما شبستان لاہور میں چل کر اس فلم نے ایک نیا ریکارڈ بنایا۔ پاکستان کی فلمی صنعت زبوں حالی اور زوال پذیری کا شکار تھی۔ ان حالات میں فلم ساز سرور بھٹی نے ’’مولا جٹ‘‘ جیسی بلاک بسٹر فلم بنا کر فلمی صنعت کو نئی زندگی دی۔ 

اس فلم کے ہدایت کار یونس ملک، مصنف ناصر ادیب، موسیقار ماسٹر عنایت حسین، نغمہ نگار نسیم فضل، عکاسی مسعود بٹ، تدوین کار ضمیر قمر تھے۔ باہو فلمز کارپوریشن کی اس فلم میں سلطان راہی نے مولا جٹ کا کردار ادا کیا جو 1977ء میں ریلیز ہونے والی ’’وحشی جٹ‘‘ کا تسلسل تھا۔ مصطفیٰ قریشی نے نوری نت کا لازوال کردار کچھ اس انداز میں کا کہ یہ کردار ان کی آج بھی پہچان ہے۔ مولا جٹ کا کردار امن و سلامتی کا علم بردار تھا، جس نے عورت کی چادر اور چار دیواری کے تقدس کو برقرار رکھنے اور انصاف کو قائم کرنے کے لیے شیطانی قوتوں کے خلاف اپنا مدفون خونی ہتھیار گنڈاسا ایک بار پھر زمین سے نکالا اور ایک مظلوم لڑکی کی پکار پر ایک ظالم کا سر جھکایا۔ زمین پر فساد پھیلانے والوں کے خلاف اُس نے گنڈاسا اُٹھایا۔ انصاف معاشرے میں قائم ہو جائے، ظالم کا خاتمہ ہو جائے تو کوئی مولا جٹ ہتھیار نہیں اُٹھائے گا۔ یہی مولا جٹ کا دعویٰ تھا، یہی اس کردار کی پہچان تھی، لیکن اس کے سامنے بدی اور باطل کی ایک فساد طاقت نوری نت سامنے آتی ہے۔ مولا جٹ کی کہانی سے اگر اس کردار کو نکال دیا جائے، تو اس کی کہانی مکمل نہیں ہوگی۔ 

نوری نت اُس بلا کا نام ہے، جو اپنے رَبّ سے خود دُشمن مانگتا ہے۔ اس کردار کو مصطفیٰ قریشی نے اپنی فطری کردار نگاری سے زندہ جاوید کر دیا۔ فلم میں ہیروئن کا کردار اداکارہ آسیہ نے کیا۔ مکھو جَٹیّ کا یہ کردار بس بے حد کام یاب رہا۔ اداکارہ چکوری نے دارونتی کے کردار کو اپنی خوب صورت کردار نگاری کو ایک ایسا پاورفل ایکشن دیا کہ یہ کردار ان کے فلمی کیریئر کا سب سے بڑا اور اہم کردار ثابت ہوا۔ چکوری کے خاوند اداکار کیفی نے فلم میں مودا گاڈی کا کردار کیا۔ سینئر اداکارہ سیما نے مولاجٹ کی بھابھی تانی کے کردار کو اپنی عمدہ اداکاری سے خوب نبھایا۔ اداکارہ عالیہ نے ایک مظلوم بے سہارا لڑکی کا کردار کیا جو کہانی کی بنیاد بنا۔ اس مظلوم لڑکی کے سر کو نوری نت کے بھائی ماکھا جٹ نے ننگا کر کے گائوں گائوں گھمایا، تو مولا جٹ نے اس کے سر پر چادر ڈالی۔ 

ماکھا جٹ کے کردار کو فلم میں اداکار ادیب نے ادا کیا۔ یہ اس فلم کے چند بنیادی اور اہم کردار تھے۔ اس فلم کے مکالمے اس قدر معنی خیز اور اثرانگیز تھے کہ عوام میں بے حد مقبول ہوئے خاص طورپر سلطان راہی کا ادا کیا ہوا یہ مکالمہ ’’مولے نوں مولا نہ مارے تے مولا نئیں مر سکدا‘‘ اور مصطفیٰ قریشی کا تکیہ کلام ’’نواں آیا اے سوہنیا‘‘ کو عوامی پذیرائی حاصل ہوئی۔ فلم کے ایک منظر میں مصطفیٰ قریشی کا ادا کیا ہوا یہ ڈائیلاگ ’’اوئے اَج دے بعد جدوں وی تیری بیساکھی زمین تے وجّے گی تے او دے وِچّوں ٹھک ٹھک ٹھک دی واج نئیں نوری نت نت نت دی واج آئے گی‘‘ نے مقبولیت کے ریکارڈ قائم کیے۔ اس فلم کے مکالموں نے نہ صرف عوام میں مقبولیت حاصل کی بلکہ حکومتی ایوانوں اور پاکستان کی نامورسیاسی شخصیات میں بھی بے حد مقبول ہوئے۔ 

سابق صدر آصف علی زرداری نے اپنی صدارت سے ریٹائرمنٹ ہونے کے بعد ایک انٹرویو میں اس فلم کا مقبول ڈائیلاگ مولے نوں مولا نہ مارے تے مولا نئیں مرسکدا ادا کیا تھا۔ یہ اپنے دور کی مہنگی ترین فلم تھی، جس کی لاگت پر 14 لاکھ خرچ ہوئے تھے، جب کہ اُس دور میں ایک عام پنجابی فلم پانچ چھ لاکھ میں بن جایا کرتی تھی۔ اس فلم میں نوری نت کا کردار کرنے کے لیے پہلے مصطفیٰ قریشی رضامند نہ ہوئے، تو فلم ساز سرور بھٹی نے اپنے دوست حاجی محبت علی کے ذریعے انہیں پیغام دیا، جس کے وہ نوری نت کے کردار کے لیے رضامند ہوگئے۔ اس کردار نے انہیں ایک لازوال اداکار بنا دیا۔ اس فلم کا یادگار سین جس میں مصطفیٰ قریشی اداکار کیفی کی ٹانگ توڑتا ہے، تو کیفی نے اس سین کو کرنے سے انکار کر دیا۔ 

ہدایت کار یونس ملک ان دنوں اپنی دیگر فلموں میں بھی بے حد مصروف تھے۔ ہدایت کار دائود بٹ کو انہوں نے فلم کے اس منظر کی شوٹنگ کرنے کو کہا۔ ہدایت کار دائود بٹ نے کیفی کے ڈپلی کیٹ کو لے کر اس سین کو فلمایا۔ اس فلم کے دو اینڈ بنائے گئے تھے۔ فلم کے وائنڈ اَپ پر جب نوری نت اپنی ٹانگ خود کاٹ کر مولا جٹ کو دیتا ہے، تو اس سین میں سلطان راہی کو چند تحفظات کا مسئلہ پیش آیا اور وہ سرور بھٹی سے کہنے لگے کہ میں تو اس پوری فلم میں مولا جٹ نہیں رولا جٹ لگ رہا ہوں۔ سلطان راہی کا اصرار تھا کہ وہ نوری نت کی ٹانگ خود کاٹے گا تو ہی لوگ اسے ہیرو کہیں گے۔ سلطان راہی کے مؤقف کی حمایت ہدایت کار یونس ملک نے بھی کی، جب کہ فلم ساز سرور بھٹی اس کے لیے تیار نہ ہوئے اور وہ منظر انہوں نے اپنی مرضی سے فلمایا۔ 

یونس ملک نے سلطان راہی سے ٹانگ کٹوا کر ایک اور وائنڈ اَپ بنانے کا اعلان کرتے ہوئے سرور بھٹی سے کہا کہ جب یہ فلم سینما پر چلے گی تو آپ مجھے تلاش کریں گے اور مجھے کہیں گے کہ آپ کا مؤقف دُرست تھا۔ مجھے فلم کا وہ سین دے دو، جس میں نوری نت کی ٹانگ مولا جٹ توڑتا ہے۔ یہ بات یونس ملک نے مصطفیٰ قریشی اور ناصر ادیب کی موجودگی میں سرور بھٹی کو چیلنج کرتے ہوئے کہی تھی، لیکن جب سرور بھٹی کا بنایا ہوا اینڈ سینما میں چلا تو پورا سینما ہال تالیوں سے گونج اُٹھا اور لوگوں نے اُس اینڈ کو اپنی نشستوں سے اُٹھ کر کھڑے ہو کر بھرپور انداز میں پسندیدگی کا اظہار کیا۔

’’مولا جٹ‘‘ کو ایک بار پھر نئی ٹیکنالوجی کے ساتھ ری میک کیا گیا ہے اور 2020ء میں عیدالفطر کے روز جیو فلمز کے توسط سے پورے ملک کے ڈیجیٹل سنی پلیکس اسکرینز پر پیش کیے جانے کا اعلان کیا گیا ہے۔اس فلم میں فواد خان، حمزہ علی عباسی اور ماہرہ خان مرکزی کردار ادا کررہے ہیں۔اسے بھی کثیر سرمائے سے بنایا گیا ہے۔

تازہ ترین
تازہ ترین