• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نیب گردی کی یہ کہانی لگ بھگ 16برس پرانی ہے۔ جب قومی احتساب بیورو کی طرف سے میر شکیل الرحمٰن کو گرفتار کیا گیا اور میں نے اس پر کالم لکھا تو نیب زدہ فیملی کے زخم پھر سے تازہ ہو گئے اور پشاور سے تعلق رکھنے والے نوجوان حماد خان نے رابطہ کرکے بتایا کہ کس طرح نیب نے 2005ء میں ان کے ضعیف والد جو ریٹائرڈ سرکاری افسر تھے، کوہراساں کیا اور وہ عزتِ نفس مجروح کیے جانے پر چل بسے۔ 

عالم زیب خان نے زندگی کا بیشتر حصہ زرعی ترقیاتی بینک میں گزارا۔ اے ڈی بی پی میں بطور منیجر ملازمت کا آغاز کرنے والے عالم زیب خان ترقی کرتے ہوئے ڈائریکٹر کے عہدے تک جا پہنچے۔ نواز شریف کے دوسرے دورِ حکومت میں جب گولڈن ہینڈ شیک اسکیم آئی تو عالم زیب خان نے 31اکتوبر 1997ء کو ریٹائرمنٹ لے لی۔

 4اکتوبر 2005ء کو انہیں نیب کی طرف سے ایک نوٹس ملا کہ وہ نیب پشاور ہیڈ کوارٹر میں انسپکٹر سیف اللہ کے سامنے پیش ہوں۔ جب وہ نیب کے دفتر گئے تو انہیں بتایا گیا کہ ان کے خلاف آمدن سے زائد اثاثہ جات بنانے کی شکایت پر انکوائری چل رہی ہے۔

 پھر انہیں 16صفحات پر مشتمل ایک سوالنامہ تھما دیا گیا جس میں 1957ء سے 2005ء تک آمدن و اخراجات اور اثاثہ جات کی تفصیل پوچھی گئی تھی۔ عالم زیب خان نے نیب کو جمع کروائے گئے تحریری جواب (جس کی کاپی دستیاب ہے) میں یہ موقف اختیار کیا کہ ان کے خلاف درخواست بدنیتی پر مبنی ہے جو ان کے مرحوم بیٹے کے سسر اور سالے کی طرف سے دی گئی ہے۔ 

عالم زیب نے بتایا کہ ان کے مرحوم بیٹے کے سسر جو ریٹائرڈ بریگیڈیئر ہیں اور ان کا بیٹا بھی فوجی افسر ہے،نے خاندانی اختلافات کی بنیاد پر پہلے بھی بہت پریشان کیا اور اب بھی ان کے خلاف جمع کروائی گئی شکایت کا مقصد انہیں ہراساں کرنا ہے۔

عالم زیب نے لکھا کہ ان کی عمر تقریباً 70برس ہے، وہ بلڈ پریشر اور عارضہ قلب میں مبتلا ہیں، ان کی بیوی کی بینائی تقریباً ختم ہو چکی ہے، اس عمر میں 48برس پرانا حساب کتاب جمع کروانا ممکن نہیں لہٰذا یہ انکوائری ختم کی جائے۔ 

نیب نے ان کے اس موقف کو تسلیم نہ کیا اور عالم زیب کو ہراساں کرنے کا سلسلہ جاری رکھا یہاں تک کہ ایک روز عالم زیب خان وفات پا گئے اور یوں زندگی کی قید سے رہائی نصیب ہونے پر نیب گردی سے چھٹکارا ملا۔

اسی طرح بریگیڈیئر (ر) اسد منیر جن کی ابتلا و آزمائش کی کہانی عمر چیمہ بیان کر چکے ہیں، بھی نیب گردی کا شکار ہوئے۔ ان کی المناک موت کو ایک سال پورا ہو چکا ہے لیکن مرنے کے بعد بھی ہمارا نظامِ عدل انہیں انصاف فراہم نہیں کر سکا۔ بریگیڈیئر (ر) اسد منیر سے شناسائی رکھنے والے لوگ گواہی دیتے ہیں کہ ایک رہائشی اپارٹمنٹ اور 2005ء ماڈل کی ایک کار کے علاوہ ان کے پاس اندرون یا بیرونِ ملک کوئی اثاثہ جات نہیں تھے۔ 

جب وہ سی ڈی اے کے ممبر تھے تو سی ڈی اے بحالی پالیسی کے مطابق ایک پلاٹ بحال کیا گیا اور اسی حوالے سے ان کے خلاف کارروائی ہو رہی تھی۔ کسی عزت دار شخص کے لیے کرپشن کا الزام ہی رسوائی اور جگ ہنسائی سے کم نہیں ہوتا مگر جب نیب کے غیر تربیت یافتہ افسر سوال جواب کے دوران سامنے بیٹھے شخص کی تذلیل و تحقیر کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تو مضبوط اعصاب کے مالک افراد بھی ہتک آمیز سلوک برداشت نہیں کر پاتے۔ بریگیڈیئر (ر) اسد منیر کو بھی اسی قسم کی اذیت کا سامنا کرنا پڑا۔ 

جب ایک موقع پر انہوں نے واضح کرنے کی کوشش کی کہ مذکورہ پلاٹ میرٹ پر بحالی پالیسی کے عین مطابق بحال کیا گیا تو طنز کا تیر چلاتے ہوئے جواب دیا گیا کہ یہاں تو ہر شخص ہی یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ بےگناہ ہے۔ وہ نیب کی طرف سے موصول ہونے والے نوٹس چھپا کر رکھتے اور کسی کو بھنک نہ پڑنے دیتے کہ وہ کس اذیت اور کرب سے گزر رہے ہیں۔ 

ان کا نام ای سی ایل پر ڈال دیا گیا تو انہوں نے یہ بات بھی اپنے اہلخانہ کو معلوم نہ ہونے دی۔ ایک بار پستول کنپٹی پر رکھ کر خود کشی کرنے کی کوشش کی مگر ناکام ہو گئے اور ان کی اہلیہ نے مداخلت کرکے انہیں تسلی دی مگر بریگیڈیئر (ر) اسد منیر اندر سے ٹوٹ چکے تھے۔ 

صبح ان کی بیوی کی آنکھ کھلی تو وہ ایک کمرے سے دوسرے کمرے جاکر انہیں ڈھونڈنے لگیں، آوازیں دیتی ہوئی جب ان کے اسٹڈی روم میں داخل ہوئیں تو بریگیڈیئر (ر) اسد منیر رسی پر جھول رہے تھے۔ 

ان کے کمرے سے دو نوٹ موصول ہوئے، ایک ان کی بیوی کے نام اور دوسرا چیف جسٹس سپریم کورٹ کے نام۔ انہوں نے چیف جسٹس کو مخاطب کرتے ہوئے اس توقع کا اظہار کیا کہ کم از کم انہیں مرنے کے بعد ضرور انصاف ملے گا اور ان کی موت سے نیب گردی کا یہ سلسلہ ضرور رُکے گا۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ نے اس معاملے کا نوٹس لیا، نیب سے جواب طلب کیا گیا لیکن ایک سال گزرنے کے باوجود بریگیڈیئر (ر) اسد منیر اور ان کے اہلخانہ کو انصاف نہیں ملا۔

یہ تو محض دو دردناک قصے ہیں ورنہ یہاں کتنی ہی المناک کہانیاں زنجیرِ عدل ہلائے جانے کی منتظر ہیں۔ جانے یہ فرعونیت کب ختم ہو گی؟ نیب کے وہ افسر جو کسی کے اشارے پر، محض اپنی اَنا کی تسکین یا پھر انتقام کی خاطر کسی شخص کی عزت خاک میں ملا دیتے ہیں اور الزامات عدالتوں سے ثابت نہیں ہو پاتے، حق تو یہ ہے کہ انہیں بھی اسی اذیت کا سامنا کرنا پڑے لیکن یہ ممکن نہیں تو انہیں نوکری سے نکال دیا جائے یا کم از کم ان کی تنزلی ہو تاکہ فرعونیت کا یہ سلسلہ ختم ہو۔

تازہ ترین