• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لیڈرشپ کا امتحان مشکل وقت میں ہی ہوتا ہے اور بعض اوقات مقبول لیڈرز مشکل لیکن درست فیصلے لیتے ہیں۔ صرف وقت بتائے گا کہ اہم شہروں میں محدود لاک ڈائون نہ کرنے کا وزیراعظم عمران خان کا فیصلہ درست تھا یا اس سے قوم کیلئے مزید مشکلات پیداہ وئیں۔ 

1918 میں سپیشن فلو کی وبا پھوٹنے کے بعد اس وائرس کو خظرناک تصور کیا جارہا ہے، وہ دو سال تک جاری رہا تھا اور اس کے نتیجے میں پانچ کروڑ افراد جاں بحق ہوگئے تھے، اس کے علاج کیلئے بھی کوئی دوا نہیں تھی اور لاک ڈائون یا تنہائی میں جانا ہی بہترین طریقہ تصور کیاجارہا تھا۔ لہذا لاک ڈائون ہی دنیا بھر میں موثر ترین طریقہ ہے۔

وزیراعظم عمران خان اگرچہ نتائج سے باخبر ہیں اور انھوں نے تنبہہ کی ہے کہ وائرس پھیل سکتا ہے لیکن انھوں نے کسی فیصلے کا اعلان نہیں کیا سوائے ایک اپیل کہ لوگ احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔ اس وقت پاکستان میں ’خطرناک زون‘ میں نہیں ہے لیکن حتٰی کہ اگر حکومت لاک ڈائون کا فیصلہ کر بھی لیتی ہے تو بھی وائرس کی وبا پھوٹنے سے صورتحال مزید خطرناک ہوسکتی ہے۔ 

وزیراعظم عمران خان ایک مقبول لیڈر ہونے کے ناطے اہم فیصلے لے سکتے ہیں اور ان سے یہ ہی امید ہے کہ وہ حکومت کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات پر ایک اچھی تیار کردہ تقریر کریں۔ یہ مایوس کن تھا اور ایسا لگا کہ ہم نے چین سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ 

چین کے شہر ووہان میں وائرس کی وبا پھوٹنے اور پاکستان میں 26 فروری کو کورونا کا پہلا کیس سامنے کے بعد یہ ان کی پہلی تقریر تھی۔ لیکن بدھ کو تقریر میں کوئی اہم بات نہیں تھی۔ لہذا ریاست نے قوم کو اپنے ہی رحم وکرم پر چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ لوگوں کو خود فیصلہ کرنے دیجیئے۔ یہ حیران کن تھا کیونکہ جب انھوں نے خود قوم کو خبردار کیا تھا کہ ،’’یہ وائرس پھیلے گا،‘‘ تو اس کے بعد حکومت کو اقدامات کرنے چاہئے تھے۔ اس کی بجائے انھوں نے صرف لوگوں سے اپیل کی کہ وہ اپنا خیال رکھیں۔ 

میں حیران ہوں کہ کیا کہ جزوی یا مکمل لاک ڈائون نہ کرنے کے نتائج کیا ہوں گے اور بعد میں فیصلہ کیا جائے گا۔ چین نے لاک ڈائون کیا اور اچھے نتائج حاصل کیے جبکہ کچھ دیگر ممالک نے فیصلے میں تاخیر کی اور اب قیمت ادا کررہے ہیں اور ان کے رہنمائوں کو وائرس سے سیکڑوں افراد مررنے پر تنقید کا سامنا ہے۔ 

اب صرف امید ہے کہ صدر عارف علوی جو چین سے آج واپس آئیں گے وہ چینی قیادت سے کچھ اہم پیغام لے کر آئیں گے کہ کیسے صورتحال سے نمٹنا ہے کیونکہ چینی حکومت کورونا وائرس سے لڑنے کیلئے کٹس، ماسکس اور ہسپتال بنانے کیلئے سپورٹ فراہم کرکے پہلے ہی مدد کا اعلان کرچکی ہے۔ 

پاکستان کا ابتدائی ردعمل بہترین تھا جب انھوں ووہان سے پاکستانی طلبہ کو واپس نہ لانے کا فیصلہ کیا لیکن غالباً دیگر کیسز میں اسی طرح کا فیصلہ نہ لے سکے یعنی ایران اور دیگر ممالک سے آنے والوں کیلئے۔ جیسی صورتحال آج ہے، ایسا لگتا ہے کہ سندھ سبقت لے گیا ہے کہ اور چینی ماڈل کی پیروی کررہا ہے جبکہ وفاق ’دیکھو اور انتظار کرو‘ کی پالیسی پر عمل پیرا ہے، وزیراعظم کی کمزور تقریر سے ایسا ہی لگ رہا ہے۔ 

لاک ڈائون کے خلاف وزیراعظم کا دفاع کہ اس سے لوگ بھوک سے مر جائیں گے اس سے واضح ہوتا ہے کہ ریاست ذمہ داری لینا ہی نہیں چاہتی جبکہ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے بظاہر اپنا ہوم ورک کرلیا ہے اور کئی فلاحی تنظیموں سے رابطہ کیا ہے جو روزانہ ’ڈیلی ویجرز‘ کی دیکھ بھال کریں گی۔ کراچی کالاک ڈائون کافی مشکل فیصلہ تھا کیونکہ یہ پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے اور اگر وفاقی حکومت یا وزیراعظم نے خود وزیراعلیٰ سندھ کے ساتھ تعاون کیا ہوتا تو اس کے نتائج کافی بہتر نکلتے۔

 اگر خدانخواستہ اگر وائرس ایسے پھیلتا جیسے دوسرے ممالک میں پھیل رہا ہے تو ہمارے پاس لاک ڈائون کے سوا کوئی چارہ نہ ہوتا۔ لیکن اس کے نتیجے میں کئی اموات ہوجاتیں۔ یہ صحیح وقت تھا کیوں کہ معاملات ابھی بھی قابو میں ہیں لیکن ہم ابھی بھی ایران اور کچھ دوسرے ممالک سے سیکڑوں افراد کے آنے کی توقع کررہے ہیں اور امکان یہ ہے کہ اگر ضروری اقدامات نہ کیے گئے تو ʼوائرسʼ تیز رفتاری سے پھیل سکتا ہے۔ 

بڑے پیمانے پر لوگ اب بھی مناسب احتیاطی اقدامات نہیں اٹھا رہے ہیں۔ ہمارے جیسے ملک میں سخت فیصلے لوگوں کو اس پر عمل پیرا ہونے پر مجبور کرسکتے ہیں۔ انھیں چند بڑے شہروں کےʼلاک ڈاؤنʼ کا اعلان کرنا چاہئے تھا، بین الاقوامی پروازوں کو عارضی طور پر دو ہفتوں کے لئے معطل کردیا جاتا، دو یا تین دن کے لیے انٹرسٹی بس اور ریلوے خدمات معطل کردی جاتی تھیں، جیسے ملک کے تمام بڑے شاپنگ مالز کو بند کرنے کا حکم دیا تھا۔ 

حکومت سندھ نے ایسے ہی اقدامات کیے ہیں، اس سے لوگوں کو زیادہ اعتماد ملے گا۔ اگرچہ سکھر جیسے شہروں میں بھی سندھ حکومت ʼلاک ڈاؤنʼ کرسکتی ہے یا دوسرے شہروں میں بھی ایسا کیا جاسکتا ہے لیکن ، انھوں نے کچھ نپے تُلے اقدامات اٹھائے اور خوف وہراس نہیں پھیلایا۔ کراچی سب سے بڑا شہر ہے اور سب سے زیادہ آبادی ہونے کے باعث یہاں وائرس پھیلنے کا خطرہ بھی زیادہ ہے۔

ہاں، اس میں اربوں روپے لاگت آسکتی ہے کیونکہ کاروبار ٹھپ ہوجائے گا لیکن، اس فیصلے میں تاخیر کے نتیجے میں جان اور کاروبار دونوں کا دگنا نقصان ہوسکتا تھا۔

تازہ ترین