• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میری اس شخص سے شناسائی پیرس میں ہوئی۔ میں جب یونیسکو میں پاکستان کا سفیر تھا تو وہ ہندوستان کا سفیر تھا۔ لمبی داڑھی اور سنگل ہڈی والے سردار جی مجھے ایک استقبالیے میں ملے۔ نہ جانے کیوں اُسے دیکھتے ہی میرا جی اُسے ’’جپھا مارنے‘‘ کو چاہا۔ زور سے جپھی ڈالی تو مجھے یوں لگا جیسے اس کی ہڈیاں ’’تڑتڑانے‘‘ لگی ہیں۔ اس نے مسکرا کر کہا پیرس میں ایسے جپھے کو جی ترس گیا تھا، آپ نے وہ پیاس بجھا دی۔ پھر اُس سے دوستی ہو گئی۔ اس کے بزرگ تقسیمِ ہند کے وقت پاکپتن سے ہندوستان منتقل ہوئے تھے۔ وہ بابا فریدؒ کے عقیدت مند تھے چنانچہ سردار جی مجھے اکثر بابا فریدؒ کے اشعار سنایا کرتے تھے۔ ننکانہ صاحب سردار جی کی عقیدت کا مقام تھا اس لئے میں جب بھی پاکستان آنے لگتا وہ ننکانہ صاحب بھجوانے کے لئے کچھ رقم لفافے میں ڈال کر میرے حوالے کر دیتے۔ سردار جی سکھوں کے مقدس مقامات کی یاترا کے لئے کئی دفعہ پاکستان آئے تھے اور ہر وزٹ پر خوب سیر و سیاحت کرتے تھے۔ ایک روز ہم شام کو یونیسکو کی میٹنگ سے فارغ ہو کر نکلے تو طے پایا کہ سرکاری کاروں کو فارغ کر دیتے ہیں اور پیدل چلتے ہیں۔ ہم سڑک کے چوڑے فٹ پاتھ پہ باتیں کرتے جا رہے تھے اور سردار جی مجھے پاکستان یاترا کے تجربات سنا رہے تھے۔ اچانک سردار جی نے مجھ سے ایک سوال پوچھ لیا جس کا میرے پاس کوئی ’’ریڈی میڈ‘‘ جواب نہیں تھا لیکن اچانک جو سمجھ میں آیا کہہ دیا۔ وہ کہنے لگے کہ میں پاکستان کئی بار گیا ہوں، مجھے ہمیشہ پاکستان میں ہندوستان کی نسبت غربت کم نظر آئی ہے لیکن ڈاکٹر صاحب میرا ایک دلچسپ مشاہدہ ہے جسے میں سمجھنے سے قاصر رہا ہوں۔ بات یہ ہے کہ غربت دونوں ملکوں میں ہے لیکن نفرت ہندوستان میں زیادہ ہے۔ میں ہندوستان میں کئی اضلاع کا ڈپٹی کمشنر اور دوسری انتظامی پوسٹوں پر رہا ہوں۔ میں پاکستان جاتا ہوں تو مجھے ہندوستانیوں کی نسبت پاکستانیوں کے چہروں پر کہیں زیادہ سکون اور اطمینان نظر آتا ہے۔ مفلوک الحال، غم زدہ، پریشان، غربت کے مارے ہوئے چہرے دونوں ممالک میں ہیں لیکن مقابلتاً پاکستانی چہرے ہندوستان سے زیادہ مطمئن اور خوش لگتے ہیں، اس کی کیا وجہ ہے؟ میں جواباً عرض کیا کہ سردار جی مجھے زیادہ پتا نہیں، نہ ہی میں نے اس پہلو پر غور کیا ہے لیکن میرا اندازہ ہے کہ اس کی بڑی وجہ پاکستانیوں کا خدمتی جذبہ ہے۔ پاکستان ان چند ممالک میں سے ہے جہاں محروم طبقوں اور مستحق خاندانوں کی سب سے زیادہ مدد کی جاتی ہے اور وہ تنظیمیں یا خیراتی ادارے جو عوامی خدمت میں مصروف ہیں ان کو سب سے زیادہ چندے دیے جاتے ہیں۔ بحیثیت مسلمان میرا ایمان ہے کہ جو قوم انسانی خدمت کے لئے ایثار کرتی ہو، اور قومی خدمت کے منصوبوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہو اس پر یقیناً اللہ پاک کی جانب سے سکون اور اطمینان کا انعام نازل ہوتا ہے۔ ہندوستان میں بھی مخیر حضرات کی کمی نہیں لیکن اگر آپ مقابلتاً آبادی کے لحاظ سے تناسب نکالیں تو پاکستان اس میدان میں بہت آگے ہے۔ میرا ٹوٹا پھوٹا جواب سن کر سردار جی گہری سوچ میں پڑ گئے۔ اللہ پاک کی واحدانیت پر ان کا بھی ایمان ہے۔ ہو سکتا ہے میری بات ان کے دل کو لگی ہو اگرچہ ہمارے روشن خیال پاکستانی اس کا تمسخر اڑائیں گے۔

میں نے سردار صاحب سے کہا کہ پاکستانی قوم عجب نڈر، زندہ دل اور خدمت کے جذبے سے سرشار قوم ہے۔ بات اکثریت کی ہو رہی ہے۔ سردار صاحب میں نے 1965کی ہندوستان پاکستان جنگ کے دوران بے شمار ایمان افروز مناظر دیکھے۔ بےخوفی کا یہ عالم تھا کہ لاہور کی سڑکیں، بازار، دفاتر، دکانیں حتیٰ کہ اندرونِ شہر کی چھتیں دشمن کے فضائی حملوں سے بےخوف بدستور بھرپور زندگی سے تھرتھراتی نظر آتی تھیں۔ اسپتالوں میں خون کی ضرورت پڑتی تو ڈونرز کی قطاریں لگ جاتیں۔ لوگ پکی پکائی دیگیں ویگنوں میں رکھ کر بارڈر کی جانب بےخوف جاتے اور فوج کو انہیں روکنا پڑتا۔ سردار صاحب میری بات سنتے رہے۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ سوچ سے ابھرے اور کہنے لگے میں امرتسر سے ہوں۔ میں نے 1965کی جنگ کے دوران وہاں ایسے مناظر نہیں دیکھے یا بہت کم تھے جو میری نگاہوں سے اوجھل رہے حالانکہ میں یونیورسٹی کا طالب علم تھا۔

آپ پوچھیں گے میں نے یہ رام کہانی کیوں چھیڑی۔ مجھے بیٹھے بیٹھے اتنی پرانی باتیں کیوں یاد آگئیں۔ سیدھی سی بات ہے کہ کورونا کی شکل میں پاکستان کو پھر ایک بار بہت بڑا چیلنج درپیش رہا۔ حکومت کی ناقص کارکردگی ہمارے سامنے ہے۔ اگر سرحدوں اور ہوائی اڈوں پر صحیح انتظامات کئے جاتے تو شاید ہم خاصی حد تک محفوظ رہتے۔ ادھورے انتظامات کی تفصیل میں جانے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ جو ہونا تھا وہ ہو چکا اور اب متاثرین ملک بھر میں پھیل چکے۔ اٹلی کی مثال سے پتا چلتا ہے کہ یہ وبا تیزی سے اور غیر مرئی (Invisible)انداز میں پھیلتی اور وسیع دائرے میں لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ وزیراعظم کا خطاب پھس پھسا اور غیر متاثر کن تھا۔ لگتا ہے ان کی میڈیم ٹیم نالائق ہے ورنہ ریہرسل کروانی چاہئے تھی۔ بہرحال اس صورتحال نے قوم کو امتحان میں مبتلا کر دیا ہے اور ہماری قوم ایسے امتحانوں میں سرخرو ہونے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے۔ بڑے بڑے منصوبے اپنی جگہ لیکن میری آپ سے گزارش ہے کہ انفرادی سطح پر اپنے اردگرد اور خاص طور پر غریب اور بے وسیلہ محلوں اور غربت زدہ علاقوں پر نظر رکھیں۔ معاشی بحران کے سبب دیہاڑی لگانے والے، روزانہ مزدوری کرنے والے، پرائیویٹ کمپنیوں میں نچلے درجے کے ملازمین اور پردیسی محنت کش بےکار ہو جائیں گے۔ ان کے گھروں میں راشن پہنچانے اور تھوڑی بہت مالی امداد کا سلسلہ شروع کر دیں۔ کوئی بیمار پڑ جائے تو اسے اسپتال پہنچانے اور خاندان کا چولہا جلتا رکھنے کی ذمہ داری لے لیں۔ انسانی خدمت کارخیر ہے اور اس کے عوض اللہ پاک آپ کو قلبی مسرت، رزق میں برکت اور دوسرے انعامات سے نوازیں گے۔ ’’اخوت‘‘ نے اس حوالے سے پروگرام شروع کیا ہے۔ کچھ اور تنظیمیں بھی متحرک ہوں گی جو آپ کی ’’امداد‘‘ کی مستحق ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ پاکستانی قوم سرخرو ہو گی۔

تازہ ترین