• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
4 اپریل 1979ء پاکستان کے منتخب وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کا دن ہے۔ 3-4 کامنقسم یہ فیصلہ ملک دورِ آمریت کا انتہائی شرمناک باب ہے۔ ایک آمر نے شخصی اقتدار اور بیرونی قوتوں کے آلۂ کار کے طور پر قائد عوام کو عبرت ناک مثال بنانے کے لئے کال کوٹھری میں مسلسل اذیتیں دیں اور اس کی تضحیک کی گئی۔لیکن یہ بے شمار جوروستم ان کے عزم اور ہمت کو نہ توڑ سکے انہوں نے ایک ظالم حکمراں سے اصولوں پر سمجھوتہ نہ کیا۔ ضیاء آمریت کے خلاف سینہ سپر ہو کر مصائب و آلام برداشت کئے۔ تشدد بھی ان کے عزم راسخ کو شکست نہ دے سکا۔ جناب بھٹو نے بے مثال بہادری سے اپنے اس قول کو سچ ثابت کر دیا کہ پاکستان اور عوام کی خاطر اگر قربانی دینے کی ضرورت ہوئی تو میں اپنی جان قربان کر دوں گا اور ایک راست باز انسان کی طرح اپنے قول کی صداقت سے سچائی کی نہ بجھنے والی شمع روشن کرگئے۔پاکستان کے وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو کے اس قتل کے خلاف دنیا بھر میں شدید ردعمل ہوا، اسے ہر معروف و غیر معروف عالمی شخصیات اور عالمی اخبارات نے اس کی بھرپور مذمت کی۔ یہ ایک عالمگیر احتجاج تھا ۔ جناب بھٹو پاکستان اور عالمی تاریخ میں ایک ایسا نقش ثبت کر گئے کہ آج بھی دنیا بھر میں پاکستانی ان کو یاد کرتے اور خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔آمر نے یہ بہیمانہ سلوک اس قومی لیڈر کے ساتھ کیا جن کی خدمات کی دنیا معترف ہے۔ جناب بھٹو نے 1971ء میں تباہ شدہ پاکستان کی باگ ڈور سنبھال کر ملک کی یک جہتی اور سالمیت کو برقرار رکھنے کا جو کارنامہ انجام دیا وہ پاکستان کی المناک تاریخ کا ایک بے نظیر باب ہے۔ سقوطِ ڈھاکہ کے بعد جو طاقتیں پاکستان کے وجود سے منحرف ہو گئی تھیں اور اس کے حصے بخرے کرنے کی توقع لگائے بیٹھی تھیں جناب بھٹو نے ان کے تمام اندازوں کو غلط ثابت کر دیا۔ انہوں نے ایسی حکمت عملی اختیار کی کہ پاکستان کے عوام نے اس عدم تحفظ کے احساس سے نجات حاصل کر لی۔ یہ حقیقت اپنی جگہ اہم ہے کہ 1973ء تک پاکستانی اس الجھن کا شکار رہے کہ اب کا کیا ہوگا؟ اس احساس مایوسی کی وجہ سے بیرون ملک میں یہی تاثر نمایاں تھا کہ خدانخواستہ بنگلہ دیش کا قیام اصل میں پاکستان کے ایک ملک کے طور پر خاتمہ کا پیش خیمہ ہے۔ اس وقت جو صورت حال تھی اور مختلف نعروں سے ملک کی یک جہتی پر جو یلغار کی جا رہی تھی اس سے غیر ملکی مبصرین کے اندازے انہی شکوک و شبہات کے آئینہ دار تھے کہ پاکستان شدید مشکلات کا شکار ہو جائے گا۔ بیرون ملک علیحدگی کی تحریکیں بھی پاکستان کے بدخواہوں کے بُرے عزائم رکھنے والی قوتوں کی حوصلہ فراہم کر رہی تھیں۔لیکن یہ تمام تر کریڈٹ جناب بھٹو کو جاتا ہے کہ انہوں نے شب و روز کی محنت سے نہ صرف ایسی خطرناک صورت حال پر قابو پانےکے لئے ضروری اقدامات کئے بلکہ ان کی کوششوں سے بیرون ملک پاکستان کی ساکھ بحال ہوئی اور اس کا وقار بلند ہوا، ملک میں خوشگوار تبدیلی آئی اور جناب بھٹو کو ایک ذہین رہنما کے طور پر تسلیم کر لیا گیا اور جناب بھٹو عالمی سیاست کا اہم موضوع بن گئے۔ اندرون ملک اصلاحات اور بیرون ملک پاکستان کے مفاد میں بہترین اقدامات کی وجہ سے انہوں نے تیسری دنیا کے ممالک کے رہنمائوں میں ایک ممتاز و منفرد مقام حاصل کر لیا۔ اس ضمن میں نیویارک کے ممتاز روزنامے کے ایک مضمون کا حوالہ پیش خدمت ہے۔ اس اخبا رنے اپنی 8دسمبر 1973ء کی اشاعت میں وزیراعظم بھٹو کی صلاحیتوں اور کارناموں کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا۔ ’’پاکستانی جنگ کے بعد اب اس کے زخم سے صحت یاب ہوتے دکھائی دیتے ہیں اور قوم نے اب اپنے کافی کم تر عالمی کردار کو بڑی حقیقت پسندی سے دیکھنا شروع کر دیا ہے۔ وزیراعظم بھٹو نے جنہیں اب ہر جگہ ایک انتہائی زیرک سیاستدان مانا جاتا ہے ایک آئین اور دیگر جمہوری ادارے تشکیل دیئے ہیں۔
مسٹر بھٹو وسیع عوامی تائید کے ساتھ مصروف عمل ہیں اور اب پاکستان نے ہندوستان کے ساتھ گفتگو کی میز پر تقریباً دو سال پرانی اعصابی جنگ جیت لی ہے۔ وہ بالآخر اپنے جنگی قیدی واپس لے رہا ہے جن پر ہندوستان اڑا ہوا تھا۔ پاکستان نے اپنے دو عظیم طاقتور اتحادیوں چین اور امریکہ کے ساتھ نہ صرف تعلقات قائم کئے بلکہ انہیں مستحکم بنا لیا اور وہ پھر انہی امداد دینے والوں کا منظورِ نظر بن گیا ۔ پاکستان برصغیر میں سب سے زیادہ صحت مند اور امیدافزا ملک دکھائی دیتا ہے اور پاکستانیوں کو جنگ کے بعد احساس خودترسی اور دل شکستگی سے نکالنے کا سہرا اول و آخر وزیراعظم کو جاتا ہے۔ مسٹر بھٹو نے مسلسل سرگرمی اور شخصیت کے زور سے تنہا ایسا کر دکھایا۔ ہندوستان کے ساتھ مذاکرات کے بعد پاکستان ایک ایسے سمجھوتہ کے لئے نکلا ہے جس سے قریب قریب ایسے دکھائی دیتا ہے جیسے پاکستان نے ہندوپاک جنگ جیتی ہو۔‘‘
1974ء میں لاہور میں اسلامی سربراہ کانفرنس کے انعقاد سے جناب بھٹو نے اسلامی ممالک کے درمیان نئے مثبت اتحاد و اشتراک کے لئے عظیم کارنامہ سرانجام دیا۔ اس سے اسلامی اتحاد کے نئے دور کا آغاز ہوا۔ خود یہ کانفرنس پاکستان کے وجود کے بارے میں دشمن قوتوں کے پھیلائے ہوئے پروپیگنڈہ کو باطل کرنے کا موجب ثابت ہوئی کیونکہ جو طاقتیں پاکستان کے خلاف پیش گوئی کر رہی تھیں عالم اسلام نے پاکستان پر اپنے اعتماد ویقین کا اظہار کرکے ان کے عزائم کو شرمندہ عمل نہ ہونے کا اعلان کر دیا تھا چنانچہ بھٹو کی یہ مساعی بیرونی دنیا میں ان کی ذات و تدبر سے تعبیر کی گئی۔
امریکہ کے روزنامہ اخبار کرسچین سائنس مانیٹر نے نے 12اکتوبر 1974ء کی اشاعت میں پاکستان کی صورت حال کا تجزیہ کرتے ہوئے جناب بھٹو کو یہ خراج تحسین پیش کیا کہ مسٹر بھٹو وہ شخص ہیں جنہوں نے پاکستان کو 1971ء کے بعد دلدل سے باہر نکالا۔ وہ90ہزار جنگی قیدیوں کو واپس لائے، جنگی جرائم کے مقدمات کو ختم کرایا اور 5ہزار مربع میل کا مقبوضہ علاقہ واپس لیا۔ وزیراعظم بھٹو کی قیادت میں پاکستان، ایران اور تھائی لینڈ کے درمیان جنوبی ایشیا کو سب سے صحت مند اور خوشحال قوم میں ڈھل چکا ہے۔ صرف تین برسوں میں مسٹر بھٹو نے اپنے عوام میں قومی غیرت کو بحال کر دیا ہے جو اسے ہر چیز پر مقدم گردانتے ہیں۔ پاکستانی اب خود پر اعتماد محسوس کرنے لگے ہیں اور جیسا کہ لاہور کی اسلامی سربراہی کانفرنس نے واضح کیا کہ وہ مسلم مشرق وسطی ایک نئے تشخص سے روشناس ہوئے ہیں۔جناب بھٹو کا سب سے بڑا کارنامہ یہی ہے کہ انہوں نے پاکستان کی بقا اور وحدت پر آنچ نہیں آنے دی اور پاکستان کو عالم اسلام کا ایک اہم ترین ملک بنا دیا۔
4اپریل پاکستان کی تاریخ کا ناقابل فراموش دن ہے قائداعوام کی شہادت کو 37برس بیت گئے ہیں او ران کے ساتھ ناانصافی کا تدارک تاہنوز تشنہ طلب ہے، وقت کے فرعون نے انہیں صفحہ ہستی سے مٹانا چاہا لیکن وہ تاریخ اور عوام کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو کی عظیم قربانی میں قوم و ملک کے لئے یہی پیغام ہے کہ اندرون و بیرون ملک تمام ہموطن ان کے مشن، پاکستان کی بقا، جمہوریت اور ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی کے لئے اپنے آپ کو وقف کر دیں۔
تازہ ترین