موسیقی رُوح کی غذا ہے۔ گیت غزل سُننا کانوں کو بھلا لگتا ہے ، یُوں تو ہر ایک کی پسند موسیقی کے حوالے سے مختلف ہوتی ہے ، مگر قومی اور ملی گیت ایسے شان دار ہوتے ہیں، جو خاص وعام میں مقبول ہوتے ہیں۔ پاکستان کے ملی گیتوں کی اپنی بہار ہے۔تقریباً تمام بڑے گلوکاروں نے ملی گیت گائے ہیں۔ مہدی حسن کا ’’ یہ وطن تمہارا ہے‘‘، استاد امانت علی کا ’’ اے وطن پاک وطن‘‘ ، استاد نصرت فتح علی خان کا ’’ پاکستان پاکستان، شوکت علی کا گیت’’ اپنا پرچم ایک اپنا قائد ایک ہے‘‘۔ ناہید اختر کا ’’ ہمارا پرچم‘‘ عالمگیر کا ’’ خیال رکھنا‘‘، محمد علی شہکی کا ’’ میں بھی پاکستان ہوں تُو بھی پاکستان ہے‘‘۔ یا پھر ملکہ ترنم کے گائے ہوئے بے مثال ملی گیت خاص طور پر جو65کی جنگ میں انہوں نے گائے زباں زدعام ہیں۔ مالا بیگم کی آواز میں ’’ اے راہ حق کے شہیدو‘‘ تحسین جاوید کا ’’ ہم زندہ قوم ہیں‘‘، نیرہ نور کی خُوب صورت آواز میں گایا گیت’’ وطن کی مٹی گواہ رہنا‘‘ سمیت کئی ملی گیت ایسے ہیں، جو دل میں اترتےمحسوس ہوتے ہیں۔ تمام ملی گیتوں کی مقبولیت اپنی جگہ، لیکن آج سے کئی برس قبل1987میں ریلیز ہونے والے ملی گیت’’ دل دل پاکستان‘‘ نے ایسی بے مثال و بے نظیر شہرت اور کام یابی حاصل کی، جس کو الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ اگرچہ جیوے جیوے پاکستان، سوہنی دھرتی اللہ رکھے، یا پھر یہ دیس ہمارا ہے، جیسے مقبول عام گیت سبھی کو یاد ہیں، مگر دِل دِل پاکستان یقیناً بچے بچے کو یاد ہے۔
اس گیت کی مقبولیت میں اس کے بول اور موسیقی کی دُھن کا کردار اپنی جگہ، لیکن جس طرح اس گیت کو ٹیلی ویژن پر اس دور کے حساب سے جن جدید خطوط پر استوار کرکے پروڈیوس کیاگیا، اس نے ایک دم عوام کی توجہ اپنی طرف مبذول کرالی۔ روحیل حیات، شہزادحسن کی چمک دمک نے توسب کو متاثر کیا، لیکن جنید جمشید جنہیں دوست پیار سے ’’ j‘‘ کہتے تھے، انہوں نے اپنی خُوب صورت دلگداز آواز اور وجاہت سے دلوں کو تسخیر کرلیا۔ جب بھی جشنِ ازادی، یومِ دفاع اور 23 مارچ کا دن آتا ہے،دِل دِل پاکستان، ہر طرف سنائی دیتا ہے اور ہمیں جُنید جمشید کی یاد دلاتا ہے۔ ایسے فن کار روز روز پیدا نہیں ہوتے۔
3ستمبر1964میں پیدا ہونے والے جُنید جمشید پیشے کے لحاظ سے انجیئنر تھے اور موسیقی ان کا شوق تھا، وہ گٹار بہت عمدہ بجاتے تھے۔ دِل دِل پاکستان کی ریکارڈ توڑ مقبولیت اور وائٹل سائنز کے جنون نے جُنید جمشید کومکمل طور پر انجینئرنگ کو خیر باد کہنے اور موسیقی کو کلی طور پر اپنانے پر مجبور کردیا تھا۔vital signsکے بعد تو جیسے وطن عزیز میں میوزیکل بینڈ بنانے کا رواج پڑگیا،مگر یہ بھی خُوب ہے کہvital signsجیسی شہرت کسی دوسرے بینڈ کو نہ ملی۔ اگرچہ یہ گروپ کچھ عرصے بعد ٹوٹ گیا، مگر اس کے سحر سے لوگ نہ نکل پائے۔
جُنید جمشید کا سفر موسیقی بہت مختصر تھا، بالکل ان کی زندگی کی طرح۔ اُن کے گائے گیت اعتبار ، یہ شام پھر نہیں آئے گی، تم مل گئے، گورے رنگ کا زمانہ، سانولی سلونی سے محبوبہ، تمہارا اور میرا نام،نہ تو آئے گی ، اوصنم آ، دوپل کا جیون، اور جانے کتنے ایسے گیت ہیں، جو سُروں میں ڈھلے کانوں میں رس گھولتے ہیں۔
کہتے ہیں شعیب منصور اور جُنید گہرے دوست رہے ، جنید کے فنی کیرئیر کو بنانے میں سب سے بڑا ہاتھ شعیب منصور کا تھا ۔ جنید کے لیے دل چُھونے والے گیت لکھنا اور پھر انہیں عمدہ انداز میں پروڈیوس کرنا، در حقیقت جنید کو شعیب منصور نے اسٹار بنایا۔ ہمیں ’’ دھند لے راستے‘‘ یاد آرہا ہے۔ یہ ایک خصوصی ڈراما تھے، جسے حسینہ معین نے لکھا اور پیش کش شعیب منصور کی تھی ۔ یہ ڈراماvital signsپرتھا اور اس کے ہیرو جنید جمشید تھے۔ اس ڈرامے نے جنید کی شہرت میں مزید اضافہ کیا ۔ شعیب اور جنید کی برسوں کی رفاقت کواس وقت ٹھیس لگی، جب جنید نے اپنا ذہن ودل تبدیل کیا اور موسیقی کو چھوڑ کردوسری راہ اختیار کی ۔ شعیب منصور نے ’’ فلم خدا کے لیے ‘‘ بنائی تو مرکزی کردار کے لیے جنید کو پیش کش کی جو انہوں نے یہ کہہ کر ٹھکرادی کہ وہ اب شوبزنس کو مکمل خیرباد کہہ چکے ہیں۔موسیقی، جنید کی زندگی کا ایک حصہ ہے۔ دوسرا حصہ بہ طور نعت خواں،مبلغ اور عالم دین کا ہے۔ جنید کے خیالات تبدیل ہوئے تو اس کے حیلے اور وضع قطع میں بھی واضح تبدیلی آگئی۔ رمضان المبارک کی خصوصی نشریات میں وہ شریک ہوتے اور مذہبی پروگرام کرتے تھے۔ نعتیں پڑھتے، ان کی شناخت مکمل طور پر تبدیل ہوگئی تھی ۔جُنید کا شعبہ بدل گیا، مگر ان کے مداحوں میں کمی نہیں آئی، وہ سنگر نہیں بلکہ ایک نعت خواں اور دین کی تبلیغ کرنے والے ایک مذہبی شخص تھے۔ 7ستمبر2016کی وہ شام کون بھول سکتا ہے، جب قومی ائیر لائن کی پروازpk-661جو چترال سے اسلام آباد آرہی تھی ، لینڈنگ سے چند منٹ قبل حادثے کا شکار ہوگئی اور اس کے ساتھ ہی جنید کا سفر حیات بھی تمام ہوا۔ وہ چترال تبلیغ کے سلسلے میں گئے تھے، واپسی پر موت نے مہلت نہ دی اور ہوائی جہاز کے شعلوں نے سب کچھ نگل لیا۔ پاکستان کا قومی نغمہ ’’دِل دِل پاکستان‘‘ جب تک گونجتا رہے گا، ہم جُنید جمشید کو یاد کرتے رہیں گے۔