• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم تو بہت پہلے لکھ چکے تھے:

اب تو محفل سے بھی ہوتا نہیں کچھ غم کا علاج

پہلے تنہائی بھی دکھ بانٹ لیا کرتی تھی

آج کل تنہائی دکھ بانٹ رہی ہے۔ 1962میں کہا گیا یہ شعر پنجاب یونیورسٹی کے ایک بہت ہی متین و ذہین وائس چانسلر پروفیسر حمید احمد خان کو بہت اچھا لگتا تھا۔ جب ملاقات ہوتی تھی اس کی فرمائش کرتے تھے۔

آپ یہ سطور 26مارچ کو پڑھ رہے ہوں گے۔ بہت ہی تکلیف دہ یادیں اس تاریخ سے وابستہ ہیں۔ کراچی میں بنگلا دیشی ڈپٹی ہائی کمیشن کا دعوت نامہ بھی آیا ہوا ہے۔ یہ ان کی 14اگست ہے۔ 49واں یومِ آزادی۔ یعنی ہمیں اپنے مشرقی پاکستانی بھائیوں سے الگ ہوئے 49سال ہو رہے ہیں۔ اب علیحدگی کا 50واں سال شروع ہو رہا ہے۔ کتنی نسلیں وہاں بھی، یہاں بھی آگئی ہیں جنہیں اس جدائی کی کوئی خلش نہیں ستاتی۔ ہم میں سے بہت سے تو یہ خیال کرتے ہیں کہ 14اگست 1947کو پاکستان اتنا ہی تھا جتنا اب ہے۔ بعض تو اس وقت کا پاکستان کا نقشہ بھی یہی دکھاتے ہیں۔ کشمیر تو ہم حاصل نہ کر سکے۔ اپنا بڑا بازو بھی ناراض کرکے الگ کروا بیٹھے۔

اکیسویں صدی کی اس عالمگیر وبا کے دنوں میں جب ہمیں اکیلے ہونے اور اپنے آپ سے گفتگو کرنے، اپنے ماہ و سال کے سامنے حاضر ہونے کا موقع مل رہا ہے تو بہت سے حسین دن رات بھی یاد آتے ہیں اور اندوہ میں لپٹے ہوئے مہینے اور ہفتے بھی۔ ولادی میر لینن کہہ رہے ہیں:

There are decades where nothing happens and there are weeks where decades happen.

بہت سے عشرے ایسے ہوتے ہیں جب کچھ نہیں ہوتا۔ بہت سے ہفتے ایسے جب عشرے واقع ہو جاتے ہیں۔ جنوری 2020سے ایسے ہفتے ہی گزر رہے ہیں۔

مجھے ڈھاکے کی سڑکیں، گلیاں یاد آرہی ہیں۔ موتی جھیل، دھان منڈی، پلٹن میدان، محمد پور، انٹر کانٹی نینٹل، شاہ باغ، پریس کلب، وہ طالبعلم جو پاکستان کو خوشحال، طاقتور بنانے کیلئے اکثر سڑکوں پر آجاتے تھے۔ وہ رہنما، سادہ دل، سفید پوش، ان میں کوئی وزیر تھا نہ سردار۔ آگے پیچھے مسلح پہرے دار نہ پھڑپھراتے لباس۔ سلہٹ کا مولوی بازار، تنگنیل کے کھیت، کھلنا کی پیپر ملز، پکچر پیلس، وقت کی سرنگ مجھے 1969میں لے گئی ہے۔ 1970کے فیصلہ کن انتخابات سے پہلے کا ہنگاموں بھرا سال۔ میں تنگنیل میں ہوں۔ ڈھاکے سے سرور بارہ بنکوی کی شیورلیٹ میں پہنچا ہوں۔ ایک چارپائی پر بیٹھے مولانا عبدالحمید خان بھاشانی کہہ رہے ہیں ’’ہر بچہ اسلام کی فطرت پر پیدا ہوتا ہے، والد نصرانی یا یہودی بناتا ہے۔ اس میں بچوں کا کوئی قصور نہیں۔ سیاسی جماعتیں ان سے کام لیتی ہیں۔ حقیقت ہے کہ اس کے نوجوان محب وطن ہیں۔ ہم نے خود دیکھا۔ سلہٹ میں بنگال میں کہ لڑکے تیس چالیس میل پیدل چلتے اور چلّاتے تھے، لے کے رہیں گے پاکستان۔ پاکستان بنانے میں انہوں نے کتنی مشقت کی۔ اب ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے‘‘۔ خان عطاء الرحمٰن وزیراعلیٰ بھی رہ چکے ہیں۔ افطار کا وقت نزدیک آرہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ افطار سے پہلے قرآن پاک کی تلاوت لازماً کرتے ہیں۔ اس لیے انہیں اس کا وقت ملنا چاہئے۔ وہ کہہ رہے ہیں ’’ملک کے دونوں حصوں کیلئے دو آئین بنائے جائیں۔ اس کے علاوہ کسی طریقے سے بھی حاصل کی ہوئی یکجہتی مصنوعی اور غیرموثر ہوگی اور یہ زیادہ دیر برقرار نہ رہ سکے گی‘‘۔ گھر چھوٹا سا ہے۔ نوکر چاکر بھی نظر نہیں آرہے ہیں۔ بلند قامت فضل القادر چوہدری، آواز میں بادلوں کی گرج، قہقہوں میں بجلی کی کڑک، قومی اسمبلی کے اسپیکر، کئی بار قائم مقام صدر کہہ رہے ہیں ’’میرے زمانے میں اپوزیشن کے تمام لیڈروں کو اسمبلی ہال میں ہر طرح سے کھل کر بولنے کی اجازت تھی۔ مجھے اپنی خدمات میں سب سے زیادہ فخر اس بات پر ہے کہ میں جب بھی غیر ملکی دورے پر گیا تو ہر جگہ کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کے موقف کی وضاحت کی۔ جو بالکل نئے اور موثر انداز سے تھی‘‘۔

چوخانی چادر اور سفید کرتے میں شیخ مجیب الرحمٰن کہہ رہے ہیں ’’ہم ارتکازِ دولت کو روکنا چاہتے ہیں۔ اس لیے سوشلسٹ اقتصادی نظام لانا چاہتے ہیں۔ انصاف کا حصول اور اس کیلئے لڑنا غیر اسلامی نہیں سراسر اسلامی ہے۔ جن لوگوں نے پاکستان کیلئے کوئی قربانی نہیں دی تھی۔ وہ اس ملک کے انتظام پر چھا گئے ہیں‘‘۔

76سالہ نور الامین کہہ رہے ہیں ’’خارجہ پالیسی آزاد اور غیر جانبدار ہونی چاہئے۔ ہم صرف جموں و کشمیر کے عوام کے حقِ خود ارادی کیلئے نہیں بلکہ ہمارا جونا گڑھ، منارادر اور مانگر ول کو بھی بھارت سے واپس لینے کا عزم ہے‘‘۔ نور الامین اور محمود علی نے بنگلا دیش کے قیام کو تسلیم نہیں کیا تھا۔ وہ پاکستان میں ہی رہے۔ اسی مٹی کی آغوش میں ہیں۔ محمود علی صاحب بتا رہے ہیں ’’سلہٹ میں ریفرنڈم کا ہنگام دیدنی تھا۔ بارشوں کا موسم تھا۔ 8جولائی 1947سے آغاز ہوا۔ سلہٹ کے لوگ غریب تھے۔ مگر ان کے دل پاکستان کی محبت سے سرشار تھے اس لیے سلہٹ پاکستان میں شامل ہوگیا۔‘‘ ایک مکان کے بالائی حصّے میں کرائے پر رہنے والے اپنی بے باکی کیلئے مشہور مولوی فرید احمد کا مطالبہ ہے مسلح افواج میں مشرقی پاکستان کا حصّہ بڑھایا جائے۔ صرف دگنا ہی نہیں بلکہ بھرتی کے تمام دروازے ان پر کھول دیے جائیں۔ مغربی پاکستان کے لوگوں کو یہ غلط فہمی دل سے نکال دینی چاہئے کہ قانون ساز اسمبلی میں مشرقی پاکستان کی اکثریت مغربی پاکستان پر غلبہ پالے گی۔

چھوٹے سے مکان میں ٹین کی چھت کے نیچے پروفیسر غلام اعظم کہہ رہے ہیں۔ پاکستان اس لیے بنا تھا کہ یہاں اسلامی اور جمہوری روایتوں کا تحفظ کیا جائے گا لیکن حکمرانوں نے ان کا خیال نہیں رکھا۔ نتیجہ یہ کہ دونوں صوبوں میں بغض پیدا ہو گیا۔ اس کا حل یہی ہے کہ آئیڈیالوجی کو اسلام کی طرف مبذول کیا جائے اور جمہوری طریق کار نافذ کیا جائے۔

مشرقی پاکستان الگ ہوتے ہوئے اپنے ساتھ جمہوریت، سادگی، حق گوئی اور جاگیرداری کے خلاف مضبوط محاذ بھی لے گیا۔ مشرقی پاکستان سے بچھڑنے کے بعد کی نصف صدی کتنی ہلاکتوں، بحرانوں، شہادتوں، مارشل لائوں سے معمور ہے۔ 26مارچ ادھر خوشیاں تو لاتا ہے لیکن کہیں کہیں آنسو اور سسکیاں تو ہوتے ہوں گے۔ بنگلا دیش کی نئی نسل کو سلام جس نے احتجاجی مظاہرے کرکے مودی کا دورہ منسوخ کروا دیا۔

تازہ ترین