• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

احتساب عدالت، ایڈیٹر انچیف جنگ جیو کے ریمانڈ میں 14 روز کی توسیع

احتساب عدالت، ایڈیٹر انچیف جنگ جیو کے ریمانڈ میں 14 روز کی توسیع


لاہور (نمائندہ جنگ) احتساب عدالت لاہور نے جنگ گروپ کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن کے جسمانی ریمانڈ میں 14 روز کی توسیع کرتے ہوئے 7 اپریل کو دوبارہ عدالت پیش کرنے کا حکم دے دیا۔

جج کے سوالات پر پراسیکیوٹر نیب لاجواب ہوگیا، نیب پراسیکیوٹر عدالت کو اگرچہ اس غیر قانونی حراست پر مطمئن نہ کر سکے اور نہ ہی جواب دے سکے کہ اراضی پر ملکیت کتنے افراد کی ہے ۔

نیب کا موقف تھا کہ اس اراضی کا ایک ہی مالک ہےجس پر امجد پرویز ایڈووکیٹ نے بتایا کہ چئیرمین نیب نے موکل کا جواب دیکھے بغیرگرفتاری کے احکامات دیئے جو آئین اور قانون کی خلاف ورزی ہے، اس کے علاوہ اراضی کے 7 مالک ہیں ، جس پر عدالت نے کہا کہ اس سے توسرے توکیس ہی بدل گیا۔

جنگ جیو کے ایڈیٹر انچیف کے خلاف نیب کی درخواست پر ایڈمن جج جواد الحسن نے گزشتہ روز کیس کی سماعت کی ۔ 

دورا ن سماعت نیب پراسیکیوٹر نے وہی پراناالزام عائد کیا کہ میر شکیل الرحمٰن کو جو زمین فراہم کی گئی وہ غیر قانونی طور پر ٹرانسفر کی گئی، ایل ڈی اے نے سابق وزیرِ اعلیٰ پنجاب نواز شریف کے حکم پر یہ زمین دی۔

نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ اس وقت ایل ڈی اے سے یہ غلطی ہوئی کہ اس نے بیک وقت زمین میر شکیل الرحمٰن کے نام کرنے کا حکم دیا، ایل ڈی اے کے کچھ قواعد و ضوابط ہیں جن کا خیال نہیں رکھا گیالہٰذا ابھی تفتیش کرنی ہے، مزید 15 روزہ جسمانی ریمانڈ دیا جائے۔

عدالت نے نیب پراسیکیوٹرکو ٹوکتے ہوئے کہا کہ آپ ادھر ادھر کی باتیں کریں نہ سیاسی بیان دیں ،قانون کے مطابق دلائل دیں ۔

عدالت نے نیب تفیشی افسر سے سوال کیا کہ پٹواری نے ایل ایل ڈی اے کو قبضہ کب دیا، پہلے ایل ڈی اے کو قبضہ ملے گا تب ہی ایل ڈی اے آگے زمین منتقل کر ے گا۔ 

عدالت نے جب نیب سے کہا کہ اس کا ریکارڈ دکھائیں کہ کب قبضہ ملا تواس پر نیب پراسیکیوٹر ریکارڈ فراہم نہ کر سکا ۔

اس موقع پرعدالت نے سختی سے کہا کہ ادھر ادھر کی باتیں مت کریں پٹواری تو 5، 5پانچ کروڑ کے بنگلے کے مالک ہیں ،اور کروڑ کروڑ روپے لیکر فرد جاری کرتے ہیں۔ 

اس موقع پر نیب پراسیکیوٹر عدالت کو یہ جواب بھی نہ دے سکے کہ اس اراضی کے کتنے مالک ہیں ،وہ اصرار کرتے رہے کہ ایک ہی مالک شکیل الرحمٰن ہیں۔ 

جس پر شکیل الرحمٰن کے وکیل امجد پرویز نے کہا کہ نیب پراسیکیوٹر زمین کی ملکیت ایک فرد کو ظاہر کر رہے ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے، اس اراضی کے7 مختلف افرادمالک ہیں اگر یہ درست نہ ہوا تو میں عدالت سے باہر چلا جاؤں گا۔

جس پر عدالت نے پراسیکیوٹر سے استفسار کیا اور کہا کہ پھر تو کیس کی نوعیت ہی تبدیل ہو جاتی ہے نیب پراسیکیوٹر اس پر بھی کوئی جواب نہ دے سکے۔ 

عدالت نے نیب پراسیکیوٹر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ایک شریف آدمی نے پرائیویٹ افراد سے زمین خریدی جس کی ادائیگی کے لئے اس نے رقم بھی دے دی تو اس میں کیا غیر قانونی کام ہے ۔جس پر نیب کے پراسیکیوٹر خاموش رہے۔ 

جیو جنگ کے ایڈیٹر انچیف شکیل الرحمٰن کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ نیب کی تاریخ میں اپنی 20 سالہ کیسز ہسٹری میں پہلی بار ایسا کیس سامنے آیا ہے کہ چئیرمین نیب نے ذاتی طور پر شکیل الرحمٰن کو گرفتار کرنے کا حکم دیا۔ 

چئیرمین نیب نے اپنے بنائے ہوئے قوانین کی دھجیاں بکھیر دیں ،حالانکہ میر شکیل تمام ریکارڈ نیب کو فراہم کر چکے تھے، انھیں جب بھی بلایا گیا وہ پیش ہوئے۔

میر شکیل الرحمٰن کے وکیل نے کہا کہ نیب نے قانون سے آگے جا کر کارروائی کی، تفتیش کے دوران گرفتاری کا حکم کیسے دیا جا سکتا ہے؟ یہ واحد کیس ہے جس میں چیئرمین نیب کو اتنی جلدی تھی۔

امجد پرویز ایڈووکیٹ نے مزید کہا کہ میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری بادی النظر میں غیر قانونی تھی، برصغیر کی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ انکوائری پر گرفتار کر لیا جائے۔

نیب کی میر شکیل الرحمٰن کے مزید 15 روزہ جسمانی ریمانڈ کی درخواست پر میر شکیل الرحمٰن کے وکیل امجد پرویز ایڈووکیٹ نے عدالت سے استدعا کی کہ میر شکیل الرحمٰن کے مزید جسمانی ریمانڈ کی ضرورت نہیں، ایسا کونسا قتل کا کیس ہے جس میں آلۂ قتل برآمد کرنا ہے، جسمانی ریمانڈ میں توسیع نہ دی جائے۔ 

امجد پرویز نے عدالت کو بتایا کہ وارنٹ گرفتاری کے لئے اسلام آباد سے لاہور بندہ بھجوایا گیا،اس کا مطلب ہے کہ چئیرمین نیب نےگرفتاری کے لئے ذہن بنایا ہوا تھا ،اور جواب دیکھے بغیر ہی گرفتاری عمل میں لائی گئی۔

اس موقع پر معزز جج نے کہا فریقین کو کافی کچھ سن لیا ،اب اسکا تحریرتی آرڈر لکھوانےکے لئے انہیں وقت چاہیئے اور چیمبر جا کر کیس کو پڑھ کر فیصلہ سنائیں گے۔ 

وقفے کے بعد معزز جج واپس آئے توانہوں نے فیصلہ سنادیا ۔ جس کے مطابق میر شکیل الرحمٰن کے جسمانی ریمانڈ میں 14 روز کی توسیع کرتے ہوئے انھیں نیب کے حوالے کر دیا اور دوبارہ سماعت 7 اپریل کو ہو گی ۔ 

ترجمان جنگ گروپ کے مطابق یہ پراپرٹی 34 برس قبل خریدی گئی تھی جس کے تمام شواہد نیب کو فراہم کردیے گئے تھے جن میں ٹیکسز اور ڈیوٹیز کے قانونی تقاضے پورے کرنے کی دستاویز بھی شامل ہیں۔

ترجمان جنگ گروپ کے مطابق میر شکیل الرحمٰن نے یہ پراپرٹی پرائیوٹ افراد سے خریدی تھی، میر شکیل الرحمٰن اس کیس کے سلسلے میں دو بار خود نیب لاہور کے دفتر میں پیش ہوئے، دوسری پیشی پر میر شکیل الرحمٰن کو جواب دینے کے باوجود گرفتار کر لیا گیا، نیب نجی پراپرٹی معاملے میں ایک شخص کو کیسےگرفتار کر سکتا ہے؟ میر شکیل الرحمٰن کوجھوٹے، من گھڑت کیس میں گرفتارکیاگیا، قانونی طریقے سے سب بےنقاب کریں گے۔

جنگ گروپ کیخلاف تمام الزامات چاہے وہ 34 سال پرانے ہوں یا تازہ، سب عدالت کے سامنے چاہے وہ برطانیہ کی ہو یا پاکستان کی، جھوٹے ثابت ہوچکے ہیں۔جنگ گروپ پر بیرونِ ممالک سے فنڈز لینے، سیاسی سرپرستوں سے فنڈز لینے، غداری، توہین مذہب اور ٹیکس وغیرہ سے متعلق تمام الزامات جھوٹے ثابت ہوچکے ہیں۔

جنگ گروپ کے اخبارات، چینلز کو بند کیا گیا، رپورٹرز، ایڈیٹرز اور اینکرز کو مارا گیا، قتل کیا گیا، پابندی عائد کی گئی، بائیکاٹ کیا گیا لیکن ہم آج بھی عزم کے ساتھ کھڑے ہیں اور سچ کی تلاش کی ہماری کوشش جاری رہے گی۔

نیب کو شکایت کرنے والا شخص جعلی ڈگری بنانے والی کمپنی کیلئے کام کرتا ہے اور اس کمپنی کی ایک میڈیا کمپنی بھی ہے جوکہ بین الاقوامی طور پر بارہا بے نقاب ہوچکی ہیں۔

جنگ گروپ اس شکایت کنندہ کیخلاف ہتک عزت کا دعویٰ جیت چکا ہے اور یہ شخص متعدد دیگر فوجداری اور ہتک عزت کے کیسز میں قانونی چارہ جوئی بھگت رہا ہے۔ انشاء اللہ ہم ان تمام کیسز میں بھی سرخرو ہوں گے۔

تازہ ترین