• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے میرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
غالب نے یہ شعر غالباً کوئی دو سو برس پہلے کہا ہوگا اور اس عرصہ میں لاکھوں کروڑوں لوگوں پر صادق آیا ہوگا مگر یہ جس قدر وزیراعظم راجہ پرویز اشرف پر فٹ بیٹھا ہے شاید ہی کسی اور پر بیٹھا ہو۔ اسے موصوف کی خوش بختی کہئے کہ حالات و واقعات کی ترتیب کہ ایک سنہر ی صبح اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیر اعظم قرار پائے اور بخت کی مزید یاوری یہ کہ عدالت عظمیٰ سے بھی سرخرو ٹھہرے۔ یکایک اس اعلیٰ منصب پر فائز ہونے کے بعد راجہ صاحب کی حالت اس شخص جیسی تھی جسے کرنا تو بہت کچھ ہو مگر وقت کم ہو۔ چنانچہ اقتدار کے نو مہینوں میں موصوف نے اتنا کچھ کرلیا، جو نارمل حالات میں کوئی وزیر اعظم پنج سالہ مدت میں بھی نہ کر پاتا۔ افسروں کے تبادلے تقرریاں،پلاٹوں کی الاٹمنٹس،فنڈز کی فراخدلانہ تقسیم،لاکھوں کی بھرتیاں اور مستقلیاں اور ۔وفور شوق کا یہ عالم کہ چھٹی کے دن بھی دفتر کھلوالئے کہ کہیں کوئی کیس پینڈنگ نہ رہ جائے۔ یہاں تک تو سب ٹھیک ہے۔ ملک کے چیف ایگزیکٹو کی حیثیت میں وہ یہ سب کچھ کرنے کا اختیار رکھتے تھے۔ہاں کہیں اوور پلے ہوا ہو گا تو عدالتیں موجود ہیں ،عدل ہوجائے گا۔ مگر قوم کو ان سے ایک شکایت ضرور ہے کہ اندرون خانہ جو چاہے کرتے بین المملکتی معاملات میں احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہئے تھا۔ اقتدار کے آخری ہفتے میں بھلا انہیں انڈیا جانے کی کیا ایمرجنسی تھی؟ چالیس عدد خواتین و حضرات کو سرکاری طیارے ایئرفورس ون میں بھرا اور بن بلائے جے پور جا پہنچے۔ مسافروں میں آدھے سے زیادہ ان کے خاندان کے لوگ تھے۔ ایک لمحہ کیلئے مان لیتے ہیں کہ بن بلائے جانے میں بھی کوئی حرج نہیں مگر وہاں سے تو مخالفانہ بیانات اور دھمکیاں موصول ہو رہی تھیں۔ شیوسینا کی طرف سے چتاؤنی آئی کہ ہمارے جس فوجی کا سر کٹا لاشہ بھجوایا تھا اس کا سر ہمراہ لے کر آئیں ورنہ زحمت کی کوئی ضرورت نہیں۔ اجمیر شریف کی درگاہ کے متولی زین العابدین علی نے شیوسینا سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر مطالبہ کیا کہ بھارتی فوجی کی نعش کی بے حرمتی پر حکومت ہند اور سورگباشی کے اہل خانہ سے معافی مانگیں، ورنہ درگاہ میں خوش آمدید نہیں کہا جائے گا اور موصوف واقعی راجہ صاحب کا استقبال کرنے والوں میں شامل نہیں تھے۔
ہمارے فارن آفس نے بھی راجہ صاحب کے وزٹ پروگرام کی مخالفت کی تھی اور انہیں بتایا تھا کہ وزیراعظم کا غیرملکی دورہ کوئی مذاق نہیں ہوتا۔پورے ملک کی آبرو کا سوال ہوتا ہے۔ اس کا ایک پروٹول ہے اور ڈیکورم ہے۔ دہلی سے بلاوا تو ایک طرف، وہ تو خوشدلی سے ریسیو کرنے کو بھی تیار نہیں۔ مگر بیچاروں کو راجہ صاحب کی ضد کے آگے ہتھیار ڈالنا پڑے تھے اور بڑی مشکل سے حکومت ہند کو اس پر آمادہ کیا تھا کہ وزیر خارجہ سلمان خورشید موصوف کو جے پور کے تاریخی ہوٹل رام باغ پیلس میں دوپہر کا کھانا دے دیں گے اور بھارتی وزیر خارجہ نے جس بے دلی کے ساتھ یہ ”ناخوشگوار فریضہ“ انجام دیا، اس سے موقع پر موجود پاکستانی سفارت کاروں کے سر ندامت سے جھک گئے تھے۔ زبردستی کی مسکراہٹ کے ساتھ سلمان خورشید چہرے کی ناگواری کو چھپانے کی ناکام کوشش کر رہے تھے۔ ان کے کھڑے ہونے کا انداز اور باڈی لینگویج بہت کچھ کہہ رہی تھی اور اپنے راجہ صاحب کچھ سمجھے بغیر ان کے ہاتھ کو بار بار جھٹک کر خواہ مخواہ کی بے تکلفی کا مظاہرہ کررہے تھے بھارتی وزیر خارجہ کے ”خیرمقدمی“ الفاظ بھی معنی خیز بلکہ کسی حد تک توہین آمیز تھے فرمایا ”کھلے بازوؤں کے ساتھ مہمانوں کا سواگت ہمارا کلچر ہے، پاکستانی وزیراعظم کو دوپہر کا کھانا کھلا کر انڈیا خوش ہے اور ایسا کر کے ہم اپنی مہمان نوازی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ لنچ کے دوران باضابطہ بات چیت نہیں ہوئی کیونکہ پاکستان کے وزیراعظم کا یہ نجی دورہ تھا دو طرفہ مذاکرات بعد میں کسی مناسب وقت پر ہوں گے“۔ یہ سب سننے کے بعد افسانوی رام باغ پیلس راجہ صاحب کو جانے کیسا لگا ہوگا اور کھانا ان کے حلق سے نیچے کیسے اترا ہوگا؟ مگر راوی سب چین ہی چین لکھتا ہے اور دیکھنے والوں نے دیکھا کہ باایں ہمہ راجہ صاحب کی باچھیں کھلی ہوئی تھیں۔رہی اجمیر یاترا اور خواجہ غریب نواز حضرت معین الدین چشتی کی درگاہ کی حاضری، تو راجہ صاحب کو معلوم ہونا چاہئے کہ سرزمین ہند میں محو استراحت اولیاء اللہ کی شفقت و عنایت اس خطہ کے باسیوں کے ساتھ بہرطور شامل حال رہتی ہے کیونکہ ہم جو آج کلمہ گو ہیں، اللہ کے انہیں برگزیدہ بندوں کی بدولت ہیں۔ صرف ایک ہفتہ ہی کی تو بات تھی سرکاری ذمہ داری سے فارغ ہو کر کسی وقت بھی نجی دورے پر انڈیا جا سکتے تھے کیونکہ سابق وزیراعظم کے ناتے سرخ سفارتی پاسپورٹ کے اہل، بیگم صاحبہ اور آپ زندگی بھر کیلئے ہو چکے۔ سو خواجہ غریب نواز کی درگاہ کی حاضری کسی وقت بھی بڑی آسانی سے ہو سکتی تھی۔ البتہ ایک تکلیف ضرور ہوتی کہ خرچہ پلّے سے کرنا پڑتا، مفت کی اسپیشل فلائٹ کی عیاشی نہ رہتی مگر چند ٹکوں کی بچت نے پاکستان کے امیج کو جو نقصان پہنچایا اس کا ازالہ شاید روپوں پیسوں کی کوئی مقدار بھی نہیں کر سکتی۔ تاجدار مدینہ کے اٹھارہ کروڑ غلاموں کی یوں سبکی کر کے درگاہ کی حاضری صاحب درگاہ کو نہ جانے کیسی لگی ہوگی؟
چرچل نے ایک دفعہ کہا تھا کہ اہل سیاست کو یکسر غیرجذباتی ہونا چاہئے۔ فوجیوں سے بھی زیادہ کیونکہ ان کا کینوس بہت وسیع اور کثیرالجہت ہوتا ہے۔ وزیراعظم منموہن سنگھ کو ہم پاکستان یاترا کی دعوت متعدد بار دے چکے، جسے وہ بڑی خوبصورتی سے ٹالتے آ رہے ہیں، کہ آنا چاہتا ہوں مگر ابھی وقت مناسب نہیں اور ان کے دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ وزیراعظم کا دورہ اس وقت ہوگا جب تیاری مکمل ہو اور پاکستان کی طرف سے پیش قدمی ہو کیونکہ ہم بے مقصد وزٹ کے حق میں نہیں۔ واضح رہے کہ موصوف کا وطن مالوف ضلع چکوال کا نواحی گاؤں ”گاہ“ ہے اور ہم انہیں جذباتی کرنے کی ہر ممکن کوشش کر چکے،کبھی ان کے اسکول کی بات، کبھی گھر کی، کبھی ہمسایوں کی، تو کبھی ہم جماعتوں کی۔ ایک کلاس فیلو تو دہلی جا کر ”موہنے“ کو مل بھی آیا۔ ہم نے پرائمری اسکول میں درج ان کی تاریخ پیدائش کی عکسی نقل بھی انہیں پیش کی۔ جس کے مطابق ان کی سالگرہ 26ستمبر کو پڑتی ہے چند برس پیشتر موصوف جنرل اسمبلی سے خطاب کے بعد نیویارک سے وطن لوٹ رہے تھے کہ مذکورہ تاریخ راستے میں پڑ گئی۔ جہاز کے عملہ نے سالگرہ کے کیک کا اہتمام کر لیا مگر غیرجذباتی وزیراعظم ہند نے یہ کہہ کر معذرت کر لی تھی کہ جنم دن کا تو ماؤں کو پتہ ہوتا ہے اور میری ماں تو بچپن میں ہی مر گئی تھی۔ اسے کہتے ہیں ڈپلومیسی اور ہوم ورک۔ اس حوالے سے ہم کہاں کھڑے ہیں اور ہماری قیادت کا طرز عمل کیا ہے؟ اسے نرم سے نرم الفاظ میں بھی افسوسناک ہی کہا جا سکتا ہے۔
تازہ ترین