• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’جمہوریت کیلئے آزاد میڈیا لازم ہے‘‘ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے گزشتہ روز ملک کے سینئر صحافیوں سے ملاقات میں کہے گئے یہ الفاظ ایک ایسی سچائی کا اظہار ہیں جس پر جمہوری نظریے اور فکر کی پوری تاریخ اور دنیا کی تمام حقیقی جمہوریتیں گواہ ہیں تاہم اس نشست کا اصل مقصد چونکہ کورونا وائرس سے نمٹنے کیلئے حکومت کے اقدامات سے میڈیا کے نمائندوں کو آگاہ کرنا تھا لہٰذا گفتگو کا بیشتر حصہ عالمی وبا سے متعلق موضوعات پر مشتمل رہا۔ تفتان بارڈر پر ہونے والی مبینہ بےاحتیاطیوں کی شکایات پر وزیراعظم کا موقف تھا کہ ’’تفتان میں زائرین کو رکھنے میں کوئی بدانتظامی نہیں ہوئی تاہم وہاں صحیح سیٹ اَپ نہیں تھا‘‘۔ گڈز ٹرانسپورٹ پر عائد کی گئی پابندی ختم کرنے کے فیصلے سے بھی وزیراعظم نے میڈیا کے نمائندوں کو آگاہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ گڈز ٹرانسپورٹ کے معاملے میں صوبوں کا یکساں موقف ہے کہ سامان کی نقل و حمل کیلئے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان سمیت ملک بھر میں گڈز ٹرانسپورٹ کی مکمل اجازت ہو گی۔ کوئی شبہ نہیں کہ یہ ایک درست فیصلہ ہے۔ گڈز ٹرانسپورٹ پر پابندی کا نتیجہ ملک میں اشیائے صرف کی قلت کے سوا کسی اور شکل میں نہیں نکل سکتا تھا۔ ایسے غلط فیصلوں سے حکومتوں کو قبل از وقت روکنے میں میڈیا کی آزادی کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ لاک ڈاؤن کے ضمن میں صوبوں اور مرکز کے موقف میں فرق کا معاملہ بھی‘ جس پر حکومت کو اپوزیشن اور ذرائع ابلاغ کی طرف سے بڑی نکتہ چینی کا سامنا کرنا پڑا، وزیراعظم کے اظہارِ خیال میں شامل تھا۔ اس ضمن میں انہوں نے ایک بار پھر یہ وضاحت کی کہ لاک ڈاؤن کی صورت میں انہیں ملک کے انتہائی غریب طبقے کی فکر تھی۔ ہمدردی کا یہ جذبہ یقیناً لائقِ ستائش ہے تاہم اس بارے میں مختلف نقطہ نظر رکھنے والی شخصیات اور میڈیا کا کہنا تھا کہ لوگوں کی جان بچانے کی خاطر لاک ڈاؤن ضروری ہے جبکہ اس دوران لوگوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے خصوصی اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ گھروں پر راشن پہنچانے کے لیے نوجوانوں پر مشتمل رضاکار فورس بنانے کا حکومتی اقدام اسی سمت میں پیشرفت کے مترادف ہے۔ گیس کے نرخوں میں اضافہ نہ کرنے کا مطالبہ بھی میڈیا میں مسلسل کیا جا رہا تھا اور حکومت نے عوام کی مشکلات کے پیش نظر اسے تسلیم کرکے بالکل درست قدم اٹھایا ہے۔ حکومت اگر خامیوں کی نشاندہی پر ایسا ہی مثبت ردعمل ظاہر کرنے کو اپنا مستقل شعار بنالے تو اس کی ساکھ اور وقار میں کمی نہیں بےپناہ اضافہ ہوگا۔ یہی طرزِ عمل عالمی وبا کے مہلک چیلنج سے نمٹنے کی خاطر قوم کو متحد کر سکتا ہے۔ ذرائع ابلاغ کو آزادی حاصل ہو تو وہ معاملات کی اصلاح و بہتری میں ایسا ہی مؤثر کردار ادا کرتے ہیں۔ وزیراعظم نے خود آزاد میڈیا اور جمہوریت کو لازم و ملزوم قرار دے کر ایک اہم حقیقت کو اجاگر کیا ہے۔ صحافیوں سے ملاقات میں انہوں نے میڈیا کو کھلی دعوت دی ہے کہ ’’میرا کوئی وزیر پیسے بنا رہا ہے تو میڈیا اسے سامنے لائے‘‘۔ تاہم ایسے کئی معاملات تحقیقات کے مرحلے میں پہلے ہی موجود ہیں۔ انہیں شفاف طریقے سے منطقی انجام تک پہنچانے میں احتسابی اداروں کے ساتھ بھرپور تعاون کرکے وزیر اعظم اپنی اس دعوت کی صداقت ثابت کر سکتے ہیں۔ وزیراعظم کا یہ شکوہ کہ ’’ہمارے ہاں تعمیری تنقید کے بجائے بدنیتی پر مبنی تنقید ہوتی ہے‘‘ آئین مملکت کے مطابق اظہارِ رائے کی مکمل آزادی دیے جانے سے خود بخود ختم ہو سکتا ہے کیونکہ آئین میں بےبنیاد الزامات لگانے والوں کے خلاف کارروائی کا راستہ بھی کھلا رکھا گیا ہے جبکہ میڈیا کی آزادی محض اپوزیشن کو نہیں حکومت کو بھی اپنا موقف عوام تک پہنچانے کے تمام مواقع مساوی طور پر فراہم کرتی ہے جس کی بنا پر بدنیتی پر مبنی تنقید کرنے والوں کو حقائق سامنے لاکر کسی دشواری کے بغیر بےنقاب کیا جاسکتا ہے لہٰذا میڈیا کی مکمل آزادی کے ذریعے جمہوریت کو مستحکم کرنے میں تاخیر نہیں کی جانی چاہیے۔

تازہ ترین