• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سب سے پہلے تو ایک 80سالہ پاکستانی کا سلام۔ ان تمام نوجوانوں کے نام جو اس پیغمبری وقت میں بےوردی یا باوردی اپنے فرائض مستعدی سے انجام دے رہے ہیں۔

سلام ان تمام ڈاکٹروں۔ نرسوں۔ وارڈ بوائز۔ اسپتالوں کے سارے عملے کو جو دن رات انتہائی تندہی اور خلوص سے زندگیاں بچانے کی جدوجہد کر رہا ہے اور جو اس نادیدہ دشمن کے خلاف جنگ میں اپنی جان نثار کر گئے ان کے پیاروں کو مودبانہ خراج عقیدت۔ ان مائوں کو سلام۔ جنہوں نے ایسے جرأتمند بیٹے اور بیٹیاں پیدا کیں۔ آسمان بھی جھک جھک کر ان عظیم مائوں کو تعظیم پیش کر رہا ہے۔

میں اپنی تمام ریاضتوں اور رت جگوں کو اپنے ان ہم وطن پولیس افسروں۔ اہلکاروں اور رینجرز کے نام کرنا چاہتا ہوں۔ جو اس وقت واہگہ سے لیکر گوادر تک ہر لمحہ نگراں ہیں۔ ملک کے کونے کونے میں لوگوں کو اپنے گھروں تک محدود کرنے کیلئے شب و روز کوششیں کر رہے ہیں۔

برّی، بحری اور فضائی افواج کے ان تمام افسروں، اہلکاروں کو پورے ادب اور عقیدت سے سلام جو بیرکوں سے نکل کر خوفناک عفریت سے لڑنے کیلئے شہری انتظامیہ کی مدد کیلئے پاکستان میں بکھر گئے۔

آفریں ہے ان سب کمشنروں، ڈپٹی کمشنروں، اسسٹنٹ کمشنروں، مختار کاروں، ٹپے داروں، نائب قاصدین، مختلف گریڈز کے افسروں پر۔ جو اپنے دن رات لاک ڈائون کے قواعد و ضوابط پر عملدرآمد کروانے میں ایک کر رہے ہیں۔

ان میڈیا ورکرز کو بھی سلام۔ جو دن رات خطرہ مول لے کر ہمیں باخبر رکھ رہے ہیں۔

میں نے اپنی 60سالہ صحافت میں بہت سے سخت اور کڑے وقت دیکھے ہیں۔ ابتلائیں۔ سیاسی بحران۔ پہیہ جام ہڑتالیں۔ احتجاجی مظاہرے۔ بھٹو حکومت کے خلاف پی این اے کی مزاحمت۔ کرفیو کے دن۔ مکمل مارشل لا۔ جزوی مارشل لا۔ کراچی میں لسانی فسادات کے دوران کرفیو۔ مگر یہ موجودہ ویران دن۔ سنسان بازار۔ مقفل شاپنگ مال۔ ایک دوسرے سے خوف نہیں دیکھا۔ سب کا دشمن ایک ہی ہے۔ اچھا ہے کہ سب لسانی۔ سیاسی۔ فرقہ وارانہ اختلافات بھول چکے ہیں۔ صوبائی عصبیتیں فراموش کر چکے ہیں۔ غالبؔ یاد آتے ہیں:

بارہا دیکھی ہیں ان کی رنجشیں

پر کچھ اب کے سرگرانی اور ہے

قاطع اعمار ہے اکثر نجوم

وہ بلائے آسمانی اور ہے

پوری دنیا کے امیر و غریب۔ حاکم و محکوم۔ خواندہ ناخواندہ۔ کالے۔ گورے۔ ادنیٰ اعلیٰ کمرۂ امتحان میں بٹھا دیے گئے ہیں۔ کوئی سفارش نہ رشوت۔ ڈالر۔ درہم۔ رویے سب بے وقعت۔ اہمیت صرف صلاحیت کی ہے۔ ذہنی استعداد کی۔ وزیراعظم۔ وزرائے اعلیٰ۔ وفاقی صوبائی وزیر۔ علمائے دین۔ سائنسدان۔ ماہرین تعلیم۔ منیجنگ ڈائریکٹرز۔ سی ای اوز۔ وائس چانسلرز۔ پرنسپلز۔ ٹرینرز سب کی آزمائش ہے۔ کوئی شعبدہ بازی نہیں چل رہی۔ لفاظی بےکار ہے۔ ساری چالیں الٹی پڑ رہی ہیں۔

زمیں میر و سلطاں سے بیزار ہے

پرانی سیاست گری خوار ہے

ڈاکٹرز۔ پولیس۔ ضلعی انتظامیہ۔ فوج سب کام کرتے۔ عوام کو نظم و ضبط سکھاتے دکھائی دے رہے ہیں۔ وہ ایم این ایز۔ ایم پی ایز۔ سینیٹرز۔ جمہوریت کے عشق میں ہم جنہیں اپنا آپ پانچ سال کیلئے سپرد کر دیتے ہیں۔ وہ کہاں ہیں۔ انہوں نے مجھ سے تو ای میل۔ ایس ایم ایس۔ واٹس ایپ کسی پر رابطہ نہیں کیا۔ میں ان کا ووٹر ہوں۔ میرے پورے کوائف ان کے پاس ہیں۔ کسی کونسلر نے، چیئرمین نے۔ میئر نے میرا دُکھ نہیں بانٹا ہے۔ کتنی تنظیمیں۔ اسپتال مجھے پیغامات بھیج رہے ہیں۔ ہمارا جمہوری ڈھانچہ کیوں غیر فعال ہو گیا ہے۔ سیاسی پارٹیوں نے اپنے عہدیداروں، کارکنوں کو کوئی ہدایات نہیں دی ہیں۔

میں خوش ہوں کہ اس وقت انتظامیہ کا اختیار تسلیم کیا جا رہا ہے۔ انتظامیہ پر اعتبار قائم ہو رہا ہے۔ سرکاری مشینری حرکت میں ہے۔ حالات خطرناک ہیں۔ یہ وبا کسی سے بھی کسی کو لگ سکتی ہے۔ ہم تو اپنے اپنے گھروں میں بند ہو گئے ہیں۔ لیکن لاک ڈائون کے قواعد و ضوابط جن کے ذریعے عملدرآمد کروایا جا رہا ہے۔ وہ ہماری تعظیم کے حقدار ہیں۔ لیکن کیا کہا جا سکتا ہے کہ سیاسی حکومت کا اختیار تسلیم ہو رہا ہے۔ اس پر اعتبار قائم ہو رہا ہے۔

اس وقت امتحان انتظامی صلاحیتوں کا ہے۔ آپ ایک گھر کے سربراہ ہیں۔ آپ اس مشکل گھڑی میں 24گھنٹے اپنے گھر میں رہتے ہوئے سب کو مطمئن رکھنے کا اہتمام کیسے کر رہے ہیں۔ یہ بہت ہی غیر یقینی حالات ہیں۔ نجانے کب تک چلیں۔ راشن کب تک کا چاہئے۔ اہل خانہ کی نفسیاتی الجھنوں کو ہی سلجھانا ہے۔ پہلے 24گھنٹوں میں ان کا آپس میں برتائو بہت کم مدّت کیلئے ہوتا تھا۔ اب یہ مختلف طبیعتوں والے دن رات ایک دوسرے کے ساتھ ہیں۔

کمپنیوں اداروں کے سربراہوں کی بھی آزمائش ہے۔ مالی مشکلات ہیں۔ پیداوار بند ہے۔ برآمدات رکی ہوئی ہیں۔ رقوم کی آمد۔ منتقلی معمول کے مطابق نہیں ہے۔

اتنی بڑی آفت اور اتنے بڑے پیمانے پر تالا بندی کیلئے تو کوئی بھی تیار نہیں تھا۔ کسی کو بھی تربیت نہیں ملی تھی۔ یہ تو مقام شکر ہے کہ اتنی بڑی آفت۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دَور میں آئی ہے۔ ہم گھروں میں تنہا ہیں۔ فیس بک۔ وٹس ایپ۔ ٹویٹر۔ انسٹا گرام۔ موبائل فون۔ عزیز و اقارب۔ دوست احباب سے ہر لمحہ جڑے ہوئے ہیں۔ پہلے کرفیوز۔ وبائوں کا تصور کیجئے۔ اس وقت یہ گھر بندی کتنا تنہا کر دیتی ہوگی۔ تنہائی کی اذیت کتنی خوفناک ہوتی ہوگی۔

یہ اتوار تو میں ڈاکٹروں۔ طبی عملے۔ پولیس۔ ضلعی انتظامیہ کو خراج تحسین کے خوشگوار فریضے تک محدود رکھتا ہوں۔ میرا اندازہ ہے کہ یہ کیفیت چند ہفتے اور چلے گی۔ پھر ہم بات کریں گے۔ معیشت کی تباہی جولائی میں نئے مالی سال میں کتنے چیلنج لیکر آئے گی۔ لیڈر شپ کا بحران ہے۔ اپریل مئی جون کی کڑی آزمائش میں کتنے لیڈر سرخرو ہو سکیں گے۔ سید مراد علی شاہ کیا اسی طرح دوسرے صوبائی وزرائے اعلیٰ کیلئے مثالی کردار بنے رہیں گے۔ سائنس اور مذہب میں جو کشمکش شروع ہوگئی ہے، یہ کہاں تک جائے گی۔ یہ سب آئندہ!

تازہ ترین