• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہماری آدھی قوم کورونا وائرس کو سنجیدگی سے لے ہی نہیں رہی۔ مڈل کلاس اور اس سے نچلا طبقہ اسے افسانہ سمجھ رہا ہے جبکہ ترقی یافتہ دنیا اور ہماری ایلیٹ کلاس اسے ایک خطرناک وبائی مرض جان کر اس سے بچنے کی تدابیر اور حفاظتی اقدامات کر رہی ہے۔ تجربہ بتاتا ہے کہ کورونا وائرس 6فٹ کے اندر براہِ راست اثر انداز ہوتا ہے۔ اٹلی میں مریضوں کی تعداد بڑھ گئی تو انہوں نے طے کیا کہ 65سال سے اوپر کے مریض کا علاج ہی نہیں کرتے۔ جرمنی میں ایک لاکھ افراد کیلئے 22وینٹی لیٹرز ہیں، مگر پاکستان میں ایک لاکھ افراد کیلئے صرف 15ہیں۔ 14دن تک بظاہر صحتمند نظر آنے والا شخص کورونا کے جراثیم ہر طرف پھیلاتا رہتا ہے، اس کے بعد اس کی بیماری ظاہر ہوتی ہے۔ سائنسدانوں کو خدشہ ہے کہ یہ وائرس ہوا سے بھی پھیل رہا ہے۔ اللہ کا شکر ہے ہم کورونا وائرس کے پھیلائو میں دنیا سے 25دن پیچھے ہیں، ہم اب بھی حفاظتی اقدامات کر سکتے ہیں۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ہمار ے ہاں کورونا کے مریضوں کی تعداد کم ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ہم ٹیسٹ ہی کم کر رہے ہیں، پاکستان میں 2ہزار وینٹی لیٹرز موجود ہیں مگر ان کو چلانے والے افراد ہی نہیں ہیں۔ ڈاکٹروں کا کہنا یہ ہے کہ یہ مسئلہ 6ماہ میں حل ہوگا۔ ان میں سے اگلے 12ہفتے سب سے اہم ہیں۔ جبکہ یہ دو ہفتے فیصلہ کریں گے کہ ہمارا مستقبل کیا ہوگا؟ اس لئے ابھی سے جو کرنا ہے کرلیں۔ پاکستان میں جہاں پوری قوم کو یہ سب کھیل تماشا لگ رہا ہے، کچھ چیخ رہے ہیں کہ یہ سب بند کیوں کیا گیا ہے تو کچھ شہر بند ہونے کی خوشی میں دعوتیں کر رہے ہیں۔ اصل خطرہ یہ ہے مرض جب بگڑتا ہے تو سوائے وینٹی لیٹر کے کوئی چارہ نہیں رہتا۔ وینٹی لیٹر نہ ملنے کا مطلب موت ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق پورے ملک میں کل ملا کر ڈھائی ہزار سے زیادہ وینٹی لیٹر نہیں ہیں۔ پنجاب میں سرکاری اور غیرسرکاری ملا کر کل 17سو وینٹی لیٹرز ہیں، بلوچستان میں کل 49، کے پی میں 150، سندھ 215ہیں۔ کراچی جیسے بڑے شہر میں جہاں ہزاروں پرائیویٹ اسپتال ہیں، ان اسپتالوں کے پاس وینٹی لیٹرز کی کل تعداد 175ہے۔ اب اگر یہ وبا پھیلتی ہے، جو کہ پھیل رہی ہے، تادم تحریر مریضوں کی تعداد بارہ سو سے زائد ہے۔ یہ ڈھائی تین ہزار وینٹی لیٹر تو اس ملک کی اشرافیہ کی ضرورت کیلئے بھی ناکافی ہیں تو مڈل کلاس اور غریب طبقہ کہاں جائے گا؟ لاک ڈاؤن کے بعد اگر اب بھی عوام نے سنجیدگی اختیار نہیں کی تو حکومت کرفیو لگانے کا سوچ رہی ہے۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت پر دباؤ ڈال کر کاروبارِ زندگی بحال کر لیں گے وہ ذرا ہوش کے ناخن لیں۔ ایک لاکھ 75ہزار وینٹی لیٹرز ہیں امریکہ کے پاس اور وہ بھی خوف سے لرز رہا ہے۔ آسٹریلیا سمیت پوری دنیا نے تقریباً اپنے ملک میں داخلہ بند کر دیا ہے۔ چین جیسے ٹیکنالوجی کے سپر پاور ملک نے اس جنگ میں فتح محض لاک ڈاؤن پر عمل کرکے ہی حاصل کی ہے۔ جنوبی کوریا وغیرہ نے لاک ڈاؤن کرکے ہی خود کو بچایا ہے۔ لہٰذا حکومت اور طبی ماہرین جو جو ہدایات دے رہے ہیں ان پر عمل کرنے میں ہی بہتری ہے۔ ہاتھ نہ ملائیں، اجتماعات نہ کریں، گھروں میں رہیں، بلاسبب گھر سے باہر نہ آئیں۔ یہ سب مذاق نہیں ہے، یہ ساری دنیا پاگل نہیں ہے جو اپنے کاروبار سمیٹ کر بیٹھ گئی ہے، آپ اللہ پر ہی توکل کریں لیکن اپنے انتظامات کرنے کے بعد۔ یہ وقت اپنے مخالفین سے لڑنے کا نہیں بلکہ ایک قوم بن کر اس بحران سے نمٹنے کا ہے۔ یہ وبا ہے، یہ تیسری عالمی جنگ کے درجے کی ایمرجنسی ہے، اسے سمجھیں، سنجیدگی کا مظاہرہ کریں۔ اگر آپ خود گھر میں نہیں بیٹھیں گے تو انتظامیہ سختی کرے گی۔ اگر آپ وبا کے معاملے میں اللہ پر ہی بھروسا کرنا چاہتے ہیں تو پھر رزق کے معاملے میں ہی کیوں ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ جاتے؟ تنگی تو یقیناً ہو گی، غذائی قلت اس وقت سب سے بڑا خطرہ بن کر سامنے کھڑی ہے۔ ایسے حالات میں ہمیں سوچنا ہوگا کہ ہمیں خوراک کے معاملے میں محتاط ہونا ہے، ضیاع کو روکیں، دعوتیں بند کر دیں۔

اب آجائیں ایک اور نکتے کی جانب! گزشتہ ایک ہفتے کے دوران سب سے زیادہ پوچھا جانے والا سوال یہ ہے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے تمام تعلیمی اداروں میں طلبہ اور طالبات کی طویل چھٹیاں ہیں۔ پورے ملک میں لاک ڈاؤن ہے۔ سب گھر میں محصور ہیں۔ ہم 24گھنٹے کیا کریں؟ اس سوال کے جواب میں عرض ہے کہ گھر بیٹھے کوئی آن لائن کورس کیجئے۔ مفتی محمد تقی عثمانی صاحب نے عوام سے کہا ہے کہ ان اوقات کو اللہ تعالیٰ سے رجوع میں گزاریں، اس میں اللہ سے دعائیں کریں، اپنے گناہوں پر استغفار کریں، کسی وقت کو بھی ضائع نہ کریں بلکہ اللہ کے حضور تسبیحات میں صرف کریں۔ ہر مسلمان روزانہ ایک سو مرتبہ آیت کریمہ کا ورد کرے، اس ورد کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ یہ مصیبت مسلمانوں بلکہ تمام انسانیت سے ٹال دیں گے کیونکہ قرآن کریم میں جہاں یہ آیت کریمہ فرمایا گیا ہے، حضرت یونس علیہ السلام کا واقعہ بیان کرتے ہوئے، وہیں یہ بتلایا ہے کہ ’’جس طرح یونس علیہ السلام کو ہم نے نجات دی تھی اسی طرح ہم مومنین کو بھی نجات دیتے ہیں‘‘۔ ہمیں یقین ہے کہ اس آیت کریمہ کے ورد سے کورونا وائرس کی مصیبت ٹل جائے گی۔ دینِ اسلام نے ہمیں ہر قسم کی رہنمائی فراہم کی ہے۔ مسنون دعائوں اور مناجات کا بھی سہارا لینا چاہئے اور سخت حفاظتی اقدامات بھی کرنا چاہئیں۔ ہمارا دین جدید دور کے علاج معالجے کی سہولتوں کے استعمال کا مخالف نہیں ہے بلکہ ان سے استفادے کا حکم کرتا ہے، فرمانِ نبویؐ ہے کہ علم و حکمت مومن کی گم شدہ میراث ہے، اس کو جہاں ملے اس سے استفادہ کی کوشش کرے۔ استغفار سے قلب کو قوت اور قوتِ مدافعت حاصل ہوتی ہے۔ یہی وہ قوت ہے جو لاعلاج بیماریوں سے لڑنے میں قوتِ مدافعت کیلئے بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔

تازہ ترین