• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:قاری عبدالرشید۔۔۔اولڈھم
جب بھی کوئی آسمانی آفت آتی ہےجیساکہ ان دنوں کورونا وائرس ہے تو چندسوالات زبان زد عام ہو جاتےہیں کہ یہ آزمائش ہے یا عذاب؟دونوں میں فرق کیا ہے؟عذاب ہے تو صرف کفارپرکیوں نہیں آیا؟اور اگر مسلمانوں کے گناہوں کی سزا ہے توپھرنیکوکار کیوں مبتلائے آزمائش ہیں؟اسی طرح یہ آفت کس پر آزمائش ومصیبت ہے اورکس کے حق میں باعث رحمت اوراجروثواب ہے؟۔ قرآنِ کریم یہ بتاتا ہے کہ دنیا کے نظام میں فساد اور انسانوں کو پہنچنے والی مصیبتوں کا سبب انسان کے اعمال ہوتے ہیں، جیسے ظاہری اسباب کے اثرات ہوتے ہیں جو حواس سے محسوس کیے جاتے ہیں، اسی طرح نظامِ کائنات کی اصلاح وفساد کے کچھ باطنی اور معنوی اسباب بھی ہیں، جیسے ظاہری اسباب کی وجہ سے بیماری ہوسکتی ہے، مثلاً کوئی سخت سردی میں بچاؤ کا انتظام نہ کرے تو اسے سردی سے بخار ہوسکتاہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی بھی ایک منفی تاثیر ہے، جب وہ حد سے بڑھ جاتی ہے تو اس کے مہلک اثرات ظاہر ہوتے ہیں اور یہ اثرات قدرتِ خداوندی سے مختلف شکلوں میں ظاہر ہوتے ہیں، ان کے لیے کوئی خاص صورت متعین نہیں ہے، تاہم عمومی طور پر جس قسم کی معصیت ہوتی ہے اس کی مناسبت سے ابتلا ہوتاہے، قرآنِ پاک و احادیثِ مقدسہ میں یہ بات مختلف انداز میں اور کئی مقامات پر بیان کی گئی ہے اور جب بدعملی فرد سے تعلق رکھتی ہے اور حد سے تجاوز کرتی ہے تو تکوینی نظام کے تحت اس ایک فرد کی بھی پکڑ ہوتی ہے اور اعلانیہ یا بہت عام ہوتی ہے تو ابتلا بھی عام ہوجاتاہے، اس کا مقصد یہ ہوتاہے کہ انسان اپنے حقیقی معبود کی طرف رجوع کریں، اس پر ایمان لائیں، توبہ و استغفار کریں، چنانچہ بعض کے حق میں یہ ابتلا گناہوں کی معافی کا ذریعہ بنتی ہے، بعض کے حق میں رفعِ درجات اور بعض (جو ایمان قبول نہیں کرتے یا گناہ گار رجوع نہیں کرتے، ان) کے حق میں غضبِ خداوندی کا مظہر اور ایک ہی واقعے سے مختلف لوگوں کے حق میں مختلف نتائج سامنے آتے ہیں، تاہم اُخروی معاملہ مصیبت میں مبتلا افراد کی نیتوں اور ان کے ذاتی اعمال کے مطابق ہوتاہے، جیساکہ احادیثِ مبارکہ میں اس کی صراحت موجود ہے۔ نیز احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوتاہے کہ طاعون پچھلی امتوں کے لیے عذاب تھا اور مؤمنین کے لیے رحمت اور شہادت ہے، چناں چہ جو مسلمان کسی علاقے میں طاعون پھیلنے کے بعد وہیں ثابت قدم رہتاہے اور اللہ تعالیٰ سے اجر و ثواب کا یقین رکھتاہے تو اس کے لیے شہید کا اجر ہے اور شہید ہوجائے تو شہادت کا درجہ پاتاہے۔ گویا مسلمانوں کو یہ تلقین کی گئی ہے کہ دنیا تو فانی ہے، اگر وبائی امراض عام بھی ہوجائیں تو وہ مایوس نہ ہو، اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہوئے ثابت قدم رہے، اس علاقے سے نہ نکلے، تو یہ ایمان اور ثابت قدمی اس کے لیے شہادت کے اجر و ثواب کا باعث ہے اگرچہ وہ اس وبا میں وفات نہ پائے۔ اور یہی وبائی امراض اگر ایمان و ثابت قدمی اور رجوع الی اللہ کے بجائے مزید غفلت کا سبب بنے تو گویا یہ تنبیہ اور خدا کی پکڑ کی نشانی ہے۔قرآنِ کریم سورہ البقرہ: آیت 59 میں ہے۔ترجمہ: ہم نے نازل کی ان ظالموں پر ایک آفت سماوی (وہ آفت سماوی طاعون تھا۔از حاشیہ) اس وجہ سے کہ وہ عدول حکمی(نافرمانی) کرتے تھے۔( ازبیان القرآن)اسی طرح ا یک اور مقام پر سورہ الشوریٰ:آیت نمبر 30میں ہے۔ترجمہ: اور تم کو (اے گناہگاروں) جو کچھ مصیبت پہنچتی ہے تو وہ تمہارے ہی ہاتھوں کیے ہوئے کاموں سے (پہنچتی ہے) اور بہت سی تو درگزر ہی کردیتا ہے۔ (بیان القرآن) سیدنا حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قسم ہے اس ذات کی کہ جس کے قبضہ میں میری جان ہے، جس شخص کو کسی لکڑی سے کوئی خراش لگتی ہے، یا کوئی رگ دھڑکتی ہے یا قدم کو لغزش ہوتی ہے، یہ سب اس کے گناہوں کے سبب سے ہوتا ہے اور ہر گناہ کی سزا اللہ تعالیٰ نہیں دیتے بلکہ جو گناہ اللہ تعالیٰ معاف کردیتے ہیں وہ ان سے بہت زیادہ ہیں جن پر کوئی سزا دی جاتی ہے۔علامہ بیضاوی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ یہ آیت ان لوگوں کے لیے مخصوص ہے جن سے گناہ سرزد ہو سکتے ہیں۔ انبیاء (علیہم السلام) جو گناہوں سے معصوم ہیں یا نابالغ بچے اور مجنون جن سے کوئی گناہ نہیں ہوتا، ان کو جو تکلیف و مصیبت پہنچتی ہے وہ اس حکم میں داخل نہیں اس کے دوسرے اسباب اور حکمتیں ہوتی ہیں۔ مثلاً رفع درجات اور درحقیقت ان کی حکمتوں کا احاطہ انسان نہیں کرسکتا۔(معارف القرآن )اسی طرح سورہ الروم آیت نمبر 41 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ترجمہ:خشکی اور تری میں لوگوں کے اعمال کے سبب بلائیں پھیل رہی ہیں تاکہ اللہ تعالیٰ ان کے بعض اعمال کا مزہ ان کو چکھا دے تاکہ وہ باز آجائیں۔(بیان القرآن )یعنی خشکی اور دریا میں سارے جہاں میں فساد پھیل گیا لوگوں کے اعمال بد کی وجہ سے۔ المعانی میں ہے کہ فساد سے مراد : قحط اور وبائی امراض اور آگ لگنے اور پانی میں ڈوبنے کے واقعات کی کثرت اور ہر چیز کی برکت کا مٹ جانا، نفع بخش چیزوں کا نفع کم نقصان زیادہ ہوجانا وغیرہ آفات ہیں اور اس آیت سے معلوم ہوا کہ ان دنیوی آفات کا سبب انسانوں کے گناہ اور اعمال بد ہوتے ہیں جن میں شرک و کفر سب سے زیادہ اشد ہیں، اس کے بعد دوسرے گناہ ہیں۔ اور یہی مضمون سورۃالشوری کی دوسری ایک آیت میں اس طرح آیا ہے۔ترجمعہ یعنی تمہیں جو بھی مصیبت پہنچتی ہے وہ تمارے ہی ہاتھوں کی کمائی کے سبب سے ہے۔ یعنی ان معاصی کے سبب جو تم کرتے رہتے ہو اور بہت سے گناہوں کو تو اللہ تعالیٰ معاف ہی کردیتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اس دنیا میں جو مصائب اور آفات تم پر آتی ہیں ان کا حقیقی سبب تمہارے گناہ ہوتے ہیں، اگرچہ دنیا میں نہ ان گناہوں کا پورا بدلہ دیا جاتا ہے اور نہ ہر گناہ پر مصیبت و آفت آتی ہے، بلکہ بہت سے گناہوں کو تو معاف کردیا جاتا ہے، بعض بعض گناہوں پر ہی گرفت ہوتی اور آفت و مصیبت بھیج دی جاتی ہے۔ اگر ہر گناہ پر دنیا میں مصیبت آیا کرتی تو ایک انسان بھی زمین پر زندہ نہ رہتا۔ مگر ہوتا یہ ہے کہ بہت سے گناہوں کو تو حق تعالیٰ معاف ہی فرما دیتے ہیں اور جو معاف نہیں ہوتے ان کا بھی پورا بدلہ دنیا میں نہیں دیا جاتا، بلکہ تھوڑا سا مزہ چکھایا جاتا ہے جیسا کہ اسی آیت کے آخر میں فرمایا۔ترجمہ یعنی تاکہ چکھاوے اللہ تعالیٰ کچھ حصہ ان کے برے اعمال کااور اس کے بعد ارشاد فرمایا کہ اعمال بد اور گناہوں کی وجہ سے جو مصیبت و آفت دنیا میں بھیج دی جاتی ہے وہ بھی غور کرو تو اللہ تعالیٰ کی رحمت و عنایت ہی ہے؛ کیوں کہ مقصود اس دنیا کی مصیبت سے یہ ہوتا ہے کہ غافل انسان کو تنبیہ ہوجائے اور وہ اپنے گناہوں اور نافرمانیوں سے باز آجائے جو انجام کار اس کے لیے مفید اور بڑی نعمت ہے، جیسا کہ آخری آیت میں فرمایا۔ترجمہ تاکہ وہ لوٹ آئیں(معارف القرآن) سورہ النساء: آیت نمبر 79 ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ترجمہ (اے انسان) تجھ کو جو کوئی خوش حالی پیش آتی ہے وہ محض اللہ کی جانب سے ہے اور جو کوئی بدحالی پیش آوے وہ تیرے ہی سبب سے ہے اور ہم نے آپ کو تمام لوگوں کی طرف پیغمبر بنا کر بھیجا ہے اور اللہ تعالیٰ گواہ کافی ہیں ۔ (بیان القرآن)معارف القرآن میں ہے: انسان کو نعمت محض اللہ کے فضل سے ملتی ہے : یہاں حسنة سے مراد نعمت ہے۔ (مظہری) اس آیت سے اشارہ اس بات کی طرف کردیا کہ انسان کو جو نعمت ملتی ہے وہ کوئی اس کا حق نہیں ہوتا، بلکہ محض اللہ کا فضل ہوتا ہے، انسان خواہ کتنی ہی عبادت کرے، اس سے وہ نعمت کا مستحق نہیں ہوسکتا اس لیے عبادت کی توفیق بھی تو اللہ ہی کی جانب سے ہوتی ہے پھر اللہ کی نعمتیں تو بےحساب ہیں، ان کو محدود عبادات اور اطاعات سے کیسے حاصل کیا جا سکتا ہے؟ خصوصاً جب کہ ہماری عبادت بھی رب العالمین کی بادشاہت کے شایان شان نہ ہو ۔ مصیبت انسان کے شامتِ اعمال کا نتیجہ ہے : آیت کے اگلے حصے میں سیئہ آیا ہے یہاں ںسیئة سے مراد مصیبت ہے(مظہری) مصیبت کی تخلیق اگرچہ اللہ ہی کرتا ہے، لیکن اس کا سبب خود انسان کے اعمال بد ہوتے ہیں، اب اگر یہ انسان کافر ہے تو اس کے لیے دنیا میں جو مصیبت پیش آتی ہے یہ اس کے لیے اس عذاب کا ایک معمولی سا نمونہ ہوتا ہے اور آخرت کا عذاب اس سے کہیں زیادہ ہے۔ اور اگر وہ مومن ہے تو اس کے لیے مصائب و تکالیف اس کے گناہوں کا کفارہ ہو کر نجات آخرت کا سبب ہو جاتی ہیں، چنانچہ ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”یعنی کوئی مصیبت ایسی نہیں ہے جو کسی مسلمان کو پہنچے، مگر وہ اس کے گناہوں کا کفارہ ہو جاتی ہے یہاں تک کہ کانٹا جو اس کے پاؤں میں چبھتا ہے۔”حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ بندے کو جو کوئی ہلکی یا سخت مصیبت پیش آتی ہے تو وہ اس کے گناہ کا نتیجہ ہوتی ہے، اور بہت گناہوں کو معاف فرما دیتے ہیں ۔(معارف القرآن) حدیثِ مبارک میں ہے :حضرت عبداللہ بن عمر ۔فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: اے جماعتِ مہاجرین!! پانچ چیزوں میں جب تم مبتلا ہو جاؤ ۔اور میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ تم ان چیزوں میں مبتلا ہو۔1۔پہلی یہ کہ جس قوم میں فحاشی اعلانیہ ہونے لگے تو اس میں طاعون اور ایسی ایسی بیماریاں پھیل جاتی ہیں جو ان سے پہلے لوگوں میں نہ تھیں۔2۔ اور جو قوم ناپ تول میں کمی کرتی ہے تو وہ قحط مصائب اور بادشا ہوں(حکم رانوں)کے ظلم وستم میں مبتلا کر دی جاتی ہے ۔3۔ اور جب کوئی قوم اپنے اموال کی زکاۃ نہیں دیتی تو بارش روک دی جاتی ہے اور اگر چوپائے نہ ہوں تو ان پر کبھی بھی بارش نہ برسے۔4 ۔اور جو قوم اللہ اور اس کے رسول کے عہد کو توڑتی ہے تو اللہ تعالیٰ غیروں کو ان پر مسلط فرما دیتا ہے جو اس قوم سے عداوت رکھتے ہیں پھر وہ ان کے اموال چھین لیتے ہیں۔5۔ اور جب مسلمان حکمران کتاب اللہ کے مطابق فیصلے نہیں کرتے، بلکہ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ نظام میں (مرضی کے کچھ اَحکام) اختیار کرلیتے ہیں (اور باقی چھوڑ دیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس قوم کو خانہ جنگی اور) باہمی اختلافات میں مبتلا فرما دیتے ہیں۔سنن ابن ماجه (2/ 1332):.نیز جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے عمومی مصیبت آئے تو دنیا میں مؤمنین بھی اس کا شکار ہوجاتے ہیں، اس کے مختلف مقاصد ہوتے ہیں، مثلا :(1) گناہ گاروں کو حق کی تلقین نہ کرنے پر تنبہ(2) ابتلا و آزمائش (3) انجام کار رحمت ونعمت۔ (1) گناہ گاروں کو حق کی تلقین نہ کرنے پر تنبیہ! جیساکہ سورہ انفال آیت نمبر 25 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ( ترجمہ) ترجمہ :اور تم ایسے وبال سے بچوجو خاص انہیں لوگوں پر واقع نہ ہوگا جو تم میں ان گناہوں کے مرتکب ہوتے ہیں اور جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ سخت سزادینے والے ہیں۔ اس میں علماء تفسیر کے متعدد اقوال ہیں: بعض حضرات نے فرمایا کہ : یہ گناہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر یعنی لوگوں کو نیک کاموں کی ہدایت اور برے کاموں سے روکنے کی جد و جہد کا ترک کردینا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ: اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس کا حکم دیا ہے کہ کسی جرم و گناہ کو اپنے ماحول میں قائم نہ رہنے دیں؛ کیوں کہ اگر انہوں نے ایسا نہ کیا یعنی جرم و گناہ دیکھتے ہوئے باوجود قدرت کے اس کو منع نہ کیا تو اللہ تعالیٰ ان سب پر اپنا عذاب عام کردیں گے جس سے نہ گناہ گار بچیں گے نہ بےگناہ۔اور بےگناہ سے مراد یہاں وہ لوگ ہیں جو اصل گناہ میں ان کے ساتھ شریک نہیں مگر امر بالمعروف کے ترک کردینے کے گناہ گار وہ بھی ہیں؛ اس لیے یہاں یہ شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ ایک کے گناہ کا عذاب دوسرے پر
ڈالنا بےانصافی اور قرآنی فیصلہ (ترجمہ) کہ کوئی بوجھ اٹھانے والی جان دوسری کا بوجھ نہیں اٹھائے گی۔ کے خلاف ہے؛ کیوں کہ یہاں گناہ گار اپنے اصل گناہ کے وبال میں اور بےگناہ ترک امر بالمعروف کے گناہ میں پکڑے گئے، کسی کا گناہ دوسرے پر نہیں ڈالا گیا۔ امام بغوی نے شرح السنہ اور معالم میں بروایت حضرت عبداللہ بن مسعود و حضرت عائشہ صدیقہؓ یہ روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ کسی خاص جماعت کے گناہ کا عذاب عام لوگوں پر نہیں ڈالتے جب تک کہ ایسی صورت پیدا نہ ہوجائے کہ وہ اپنے ماحول میں گناہ ہوتا ہوا دیکھیں اور ان کو یہ قدرت بھی ہو کہ اس کو روک سکیں اس کے باوجود انہوں نے اس کو روکا نہیں تو اس وقت اللہ تعالیٰ کا عذاب ان سب کو گھیر لیتا ہے۔ اور ترمذی ابوداؤد وغیرہ میں صحیح سند کے ساتھ منقول ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے ایک خطبہ میں فرمایا کہ :میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا کہ آپ نے فرمایا کہ:جب لوگ کسی ظالم کو دیکھیں اور ظلم سے اس کا ہاتھ نہ روکیں تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سب پر اپنا عذاب عام کردیں۔ صحیح بخاری میں حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت سے نقل کیا ہے کہ: رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: جو لوگ اللہ تعالیٰ کی قانونی حدود توڑنے والے گناہ گار ہیں اور جو لوگ ان کو دیکھ کر مداہنت کرنے والے ہیں، یعنی باوجود قدرت کے ان کو گناہ سے نہیں روکتے ان دونوں طبقوں کی مثال ایسی ہے جیسے کسی بحری جہاز کے دو طبقے ہوں اور نیچے کے طبقہ والے اوپر آکر اپنی ضرورت کے لیے پانی لیتے ہوں جس سے اوپر والے تکلیف محسوس کریں، نیچے والے یہ دیکھ کر یہ صورت اختیار کریں کہ کشتی کے نچلے حصہ میں سوراخ کرکے اس سے اپنے لیے پانی حاصل کریں اوراوپر کے لوگ ان کی اس حرکت کو دیکھیں اورمنع نہ کریں تو ظاہر ہے کہ پانی پوری کشتی میں بھر جائے گا اورجب نیچے والے غرق ہوں گے تو اوپر والے بھی ڈوبنے سے نہ بچیں گے،ان روایات کی بنا پر بہت سے حضرات مفسرین نے یہ قراردیا کہ اس آیت میں فتنہ سے مراد یہی گناہ یعنی امر بالمعرف اور نہی عن المنکر کا ترک کردینا ہے(معارف القرآن) مجموعی طور پر بالخصوص حالیہ کرونا وائرس اور اس کی تباہ کاریوں میں مسلم وغیر مسلم نیک وبد سب کو آیت کے اس ترازومیں رکھ کر وزن کیا جاسکتا ھے۔یا اس کو آئینہ بنا کر مسلمانوں کے نیک لوگ اپناچہرہ اس میں دیکھ کر خود فیصلہ کر سکتے ھیں کہ جوھو رھا ھے وہ واقعی شامت اعمال ہے۔ اورکچھ بھی نہیں۔اےاللہ؛ رحم فرما۔آمین۔
تازہ ترین