• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انتخابات میں بس اب تین ماہ سے بھی کم عرصہ باقی رہ چکا ہے 19 مارچ کو قومی اسمبلی اور مرکزی حکومت تحلیل ہوگئی تو صوبائی اسمبلیاں بھی تحلیل ہوگئیں البتہ وزیراعظم اس وقت تک براجمان رہ سکتے ہیں جب تک عبوری وزیراعظم کا فیصلہ نہ ہو۔ وزیراعظم کے لئے مسلم لیگ ن نے تین شخصیات جسٹس ناصر اسلم زاہد، جسٹس شاکر اللہ جان اور رسول بخش پلیجو کے نام پیش کئے ہیں، جبکہ پی پی پی نے سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ، سابق گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر عشرت حسین اور جسٹس میر ہزار کھوسو کا نام تجویز کیا ہے، غیرجانبداری کے نقطہ نظر سے مسلم لیگ ن نے زیادہ بہتر امیدوار نامزد کئے ہیں۔ سیاسی پنڈت رسول بخش پلیجو کو خانہ پوری اور سندھی ووٹ کو اپنی طرف کھینچنے کی کوشش قرار دے رہے ہیں، تاہم یہ بات درست نہیں ہے۔ رسول بخش پلیجو کا طویل سیاسی زندگی کا رکارڈ انکی پشت پر کھڑا ہے، غیرجانبداری میں ڈاکٹر عشرت حسین اچھا نام ہے اور جسٹس میر ہزار کھوسو اس لئے ایک اچھا نام ہوسکتا ہے کہ اُن کا تعلق بلوچستان سے ہے مگر کہا جارہا ہے کہ ان کو بھٹو صاحب نے جج مقرر کیا تھا تاہم پی پی پی نے عبدالحفیظ شیخ اور اپوزیشن نے جسٹس شاکراللہ جان کے نام واپس لے لئے ہیں، اسکے بعد وہ ڈاکٹر عشرت حسین پر زور دے گی اور اس پر سودے بازی کرنے کے مراحل طے کررہی ہے۔ بندربانٹ کی طرح وہ مسلم لیگ ن کو یہ پیشکش کررہی ہے کہ اگر وہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کے نام پر راضی ہوجائیں تو وہ پنجاب میں اُن کے نامزد کردہ وزیراعلیٰ پر راضی ہوجائیں گے۔ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ انکا اچھا امیدوار تھے کہ وہ قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر الٰہی بخش سومرو کے بھانجے ہیں اور محترم الٰہی بخش سومرو کا مسلم لیگ ن سے تعلق ہے۔ اس لئے ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کا امکان بڑھ جاتا اگر الٰہی بخش سومرو، اپنی قیادت کو راضی کرلیتے کہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ غیرجانبدار رہیں گے۔ قومی اسمبلی کے اکثر ارکان دستور کی شقوں 62 اور 63 کے معیار کو پورا نہیں کرتے، پاکستان پیپلزپارٹی نے ایک منصوبہ کے تحت کرپشن کی چھوٹ دی۔ راوی بیان کرتا ہے کہ 2008ء کے ابتدائی دنوں میں پی پی پی کی قیادت نے اپنے وزراء سے کہا کہ مال بناوٴ کہ اب ہمیں ”ہمدردی ووٹ“ ملنے کی امید نہیں ہے۔ ہمیں الیکشن میں کامیاب ہونے کی لئے پیسوں کی ضرورت ہوگی۔ ایک اور راوی بیان کرتا ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت میں اُن کے شوہر اس بات کے حامی تھے کہ اس ملک میں نہیں رہا جاسکتا مال بنا کر غیرملک میں امیروں کی طرح رہا جائے اور پھر کرپشن کے الزام میں ملوث ہونے کے الزام پر محترمہ نے جلاوطنی اختیار کرلی۔ مبادا گرفتار نہ ہوجائیں مگرقومی مفاہمت کے معاہدہ کے بعد وہ واپس آئیں اور ملک کے لئے کام کرنے کا ارادہ کردیا مگر وہ شہید کردی گئیں۔
کہا جاتا ہے کہ غیرملکی طاقتوں نے اس لئے شہید کروا دیا کہ وہ ملک کے خلاف کئے گئے وعدوں سے مکر گئی تھیں اسکے بعد یہ ہوا کہ آصف علی زرداری کے لئے حکمرانی کے لئے راہ ہموار ہوگئی اور جس کے بدلے میں انہوں نے بی بی کے قاتلوں کو نہیں پکڑا۔ اگرچہ اُن کے پاس سارے اختیارات موجود تھے۔ کرپشن، بدانتظامی، بدامنی، خراب حکومت کے بعد پی پی پی نے جو2013 کے انتخاب کیلئے جو منشور جاری کیا ہے اس میں روٹی، کپڑا اور مکان کے بعد تعلیم، صحت اور سب کے لئے روزگار کا اضافہ کر دیا ہے ،جس سے وہ طالب علم خائف ہوگئے ہیں جو تعلیم حاصل کررہے ہیں یا اسپتالوں میں علاج کرا رہے ہیں اور باروزگار ہیں بے چین ہوگئے ہیں کہ اب شاید وہ اس سے بھی جائیں۔ اگر پی پی پی کی حکومت ایک دفعہ پھر اُن پر سوار ہوگئی۔ پی پی پی نے الیکشن ملتوی کرانے کی کئی کوششیں کیں مگر سپریم کورٹ کے مستعدی اور میڈیا کی نشاندہی کی وجہ سے وہ اس میں ناکام ہوئی۔ چیف جسٹس نے 14 مارچ 2013ء کو واضح طور پر کہا کہ الیکشن میں ایک دن کی بھی تاخیر نہیں ہوگی۔ سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کی طرف سے بنائے گئے نئے کاغذات نامزدگی کو آئین و قانون کے مطابق قرار دیدیا۔ جس کی وجہ سے تقریباً 80 سے 90 افراد جو آج قومی اسمبلی کے ممبران ہیں نکل جائیں گے۔ گمان ہے کہ پی پی پی ایک چھوٹی جماعتوں میں بڑی جماعت بن کر ابھرے گی اور مرکزی و سندھ حکومت اس کی پہنچ سے باہر ہوجائے گی۔ اس لئے بھی کہ سندھ کے تمام عناصر پی پی پی کے خلاف یکجا ہوگئے ہیں اور ساتھ ساتھ ایم کیو ایم بھی پینترا بدل رہی ہے۔ مسلم لیگ کی پوزیشن مستحکم ہو رہی ہے ۔جہاں تک الیکشن کا سوال ہے توقع کی جارہی ہے کہ وہ شفاف اور آزاد ہوں گے۔ برطانوی ہائی کمشنر ایڈم تھامسن نے تو پہلے ہی کہہ دیا کہ آنے والے انتخابات تاریخ کے قابل اعتماد ترین انتخابات ہوں گے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان ایک اچھے جمہوری دور کی طرف بڑھ رہا ہے، وہ ایک ایٹمی طاقت ہے، وہ ایک بڑا ملک اور معدنی دولت سے مالا مال ہے، وہاں انصاف ہونے لگا ہے، اس الیکشن میں لٹیروں، ڈاکووٴں سے نجات مل جائے گی بلکہ وہ قانون کے آہنی ہاتھوں کا شکار ہوجائیں گے۔ پاکستانی عوام کی مشکلات بھی کم ہوجائے گی جب ایرانی گیس آجائے گی جو اگرچہ اس حکومت کا کارنامہ ہے مگر دوسری وجوہات کی بناء پر کارنامہ پی پی پی کے کام نہیں آئے گا۔ پاکستان دہشت گردی اور بلوچستان میں شورش انشاء اللہ اختتام پذیر ہوگی اور پاکستان کی آزاد خارجہ پالیسی کی بناء پاکستان استحکام کی طرف گامزن ہوتا جارہا ہے۔
تازہ ترین