• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کورونا وائرس کی وبا سے نمٹنے کے لئے دنیا کے مختلف ممالک اپنے اپنے حالات اور اپنے اپنے وسائل کے مطابق حکمتِ عملی ترتیب دے رہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے بھی پاکستان کے مخصوص معاشی و معاشرتی تقاضوں کی روشنی میں اس موذی مرض کے مقابلے کے لئے موثر اقدامات کئے ہیں اور عوام کے لئے 8ارب ڈالر کے ریلیف کا اعلان کیا ہے جو ملکی تاریخ میں سب سے بڑا ریلیف ہے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے لاک ڈائون کیا تو دوسرے صوبوں سے بھی اس کے حق میں آوازیں اٹھنے لگیں مگر وزیراعظم نے وفاق کی سطح پر احتیاطی تدابیر کے طور پر بعض پابندیاں لگائیں تاہم مکمل لاک ڈائون کی تجاویز کو ناقابلِ عمل قرار دے کر مسترد کر دیا۔ پیر کی شب ایک اعلیٰ سطحی اجلاس اور پھر قوم سے خطاب کے دوران انہوں نے کہا کہ ہمارے 45فیصد عوام غریب یا غربت کی لکیر کے آس پاس کی مفلوک الحال زندگی گزار رہے ہیں۔ یہاں بعض دوسرے ملکوں کی طرح کا مکمل لاک ڈائون صرف اسی صورت میں کیا جا سکتا ہے جب پہلے انہیں گھروں میں کھانا پہنچانے کا بندوبست ہو جائے۔ وزیراعظم نے اس سلسلے میں جس حکمتِ عملی کا اعلان کیا اس کے تحت لوگوں میں کورونا وائرس کے حوالے سے آگاہی کے لئے مہم چلائی جائے گی اور ضروری معلومات مقامی زبانوں میں پہنچانے کے لئے واٹس ایپ ہیلپ لائن کا اجرا کیا جائے گا۔ نوجوانوں پر مشتمل ٹائیگر فورس قائم کی جائے گی جو لاک ڈائون والے علاقوں میں کھانا پہنچائے گی اور آگاہی مہم بھی چلائے گی۔ مالی وسائل جمع کرنے کے لئے کورونا ریلیف فنڈ قائم کیا جائے گا جس کی رقم ٹیکس سے مستثنیٰ ہو گی اور اس کا ذریعہ بھی نہیں پوچھا جائے گا۔ جو صنعت کار اپنے ورکروں کو بےروزگار نہیں کریں گے انہیں سٹیٹ بینک آسان شرائط پر قرضے دے گا۔ مستحقین اور مخیر حضرات کی رجسٹریشن کی جائے گی۔ آٹے، دالوں، گھی، چاول، چینی جیسی بنیادی اشیاء کی قلت پیدا نہیں ہونے دی جائے گی اور جو لوگ ان کا ذخیرہ کریں گے ان کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے گا۔ اس کے علاوہ وزیراعظم آفس میں ایک سیل قائم کیا جائے گا جو ایک ہفتے میں کورونا کے بڑھنے یا کم ہونے کے رحجان کی نشاندہی کرے گا جس کی روشنی میں مستقبل کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔ وزیراعظم نے اس عزم کا اظہار کیا کہ کورونا کے خلاف جنگ ایمان اور ٹائیگر فورس کی طاقت سے جیتی جائے گی۔ ان کے یہ اقدامات بلاشبہ کورونا کی بیخ کنی کے لئے بہت اہم ہیں مگر حکومت جو بھی فیصلے کر رہی ہے، قومی سطح پر سیاسی جماعتوں میں اتفاقِ رائے کے حامل نہیں ہیں۔ بعض حکومتی شخصیات اور اپوزیشن لیڈروں کے بیانات سے لگتا ہے کہ ملک میں کورونا پر بھی سیاست ہو رہی ہے۔ اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف کا کہنا ہے کہ ٹائیگر فورس پر قوم کا پیسہ ضائع کرنے کے بجائے مقامی حکومتیں بحال کرکے یہ کام ان سے لیا جائے نیز سرکاری اسپتالوں میں کورونا ٹیسٹ مفت کئے جائیں جبکہ پیپلزپارٹی کے رہنما رضا ربانی نے مطالبہ کیا ہے کہ امدادی کاموں کے لئے سندھ کی طرح ریلیف کمیٹیاں بنائی جائیں۔ بہتر ہوتا کہ قومی اسمبلی کے اسپیکر نے اپوزیشن لیڈروں سے رابطہ کرکے قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کی جو کوشش کی تھی اسے منطقی انجام تک پہنچایا جاتا تاکہ مشکل گھڑی میں پوری قوم متحد ہو کر اس بلائے ناگہانی کا مقابلہ کرتی۔ یہ حقیقت نظر انداز نہیں کی جانی چاہئے کہ اس وقت کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ پاکستان میں مصدقہ مریضوں کی تعداد دو ہزار اور اموات کی 25تک پہنچ چکی ہے مشتبہ مریضوں کی تعداد ہزاروں میں ہے جبکہ دنیا بھر میں 38ہزار افراد اس کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں۔ ایسے میں قومی اتفاقِ رائے سے وبا کا مقابلہ کرنا از بس ضروری ہے۔

تازہ ترین