نئی صدی کی شروعات میں جن ناول نگاروں کو عالمی سطح پر شہرت ملی، ان میں جرمنی کے ’’پیٹرک سسکائنڈ‘‘ بھی شامل ہیں، جن کا مشہورِ زمانہ ناول’’پرفیوم‘‘ اپنی منفرد کہانی کی بدولت جرمنی سمیت دنیا بھر کے ادبی حلقوں میں مقبول ہوا۔ اس ناول کے ذیلی عنوان’’ایک قاتل کی کہانی‘‘ سے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ کہانی کی نوعیت کیا ہوگی۔ 1985 میں شائع ہونے والے اس ناول کی کہانی کا پلاٹ انیسویں صدی کے فرانس پر مبنی ہے۔ یہ ادبی تاریخ نویسی یوں تو فرضی ہے، لیکن جس کمالِ ہنر سے ناول نگار نے اس کو لکھا ہے، اس پر حقیقت کا گمان ہوتا ہے۔
جرمن ادیب’’پیٹرک سسکائنڈ‘‘ کی عمر اس وقت ستر برس کے لگ بھگ ہے۔ وہ جرمنی کے تیسرے بڑے شہر میونخ کے قریب ایک نواحی علاقہ میں پیدا ہوئے۔ والد صحافی اور محقق تھے، انہیں لکھنے کا کام وراثت میں ملا جبکہ ان کے خاندان کا شمار علاقہ کے متمول گھرانوں میں ہوتا تھا، جس کی وجہ سے ان کو تعلیم حاصل کرنے کے بہتر مواقع ملے۔ ساٹھ کی دہائی کے آخری برسوں میں، میونخ یونیورسٹی میں قرون وسطیٰ اور جدید تاریخ کے طالب علم تھے، لیکن گریجویشن مکمل نہ کر پائے، اسے ادھورا چھوڑ کر فرانس آگئے اور وہاںطویل سکونت کے بعد اپنا قلمی سفر شروع کیا۔
وہ جس تاریخی نوعیت کے نصاب کو نامکمل چھوڑ کر آئے تھے، اس کو اپنے ذہنی تخیل کے ساتھ گھول کر لکھنے کی ابتدا کی۔ روایتی تعلیم کی بجائے زندگی کا مشاہدہ کر کے لکھنے پر زور دیا۔ ابتدائی کوششوں کے طور پر مختصر کہانیاں اور ڈرامے لکھے، یہ کہانیاںنہ تو شائع ہوسکیں اور نہ ہی ان پر کوئی فلم یا ڈراما بن سکا۔ 1981 کا سال ان کی خوش نصیبی اور کامیابی کا سال تھا، جس میں پہلی بڑی کامیابی ملی، جب ان کا ریڈیو کے لیے لکھا ہوا ون ایکٹ ڈراما’’ڈبل بیس‘‘ بہت پسند کیا گیا، بعد میں اس کھیل کو تھیٹر کے ڈرامے میں بھی ڈھالا گیا، جہاں اس نے اور زیادہ مقبولیت حاصل کی۔ یہ کھیل اسٹیج پر تقریباً پانچ سو مرتبہ کھیلا گیا۔ یہی وہ موڑ تھا، جس کے بعد ریڈیو اور ٹیلی وژن کے دروازے ان پر پوری طرح کھل گئے، انہوں نے خوب جم کر کام کیا، کمرشل اور آرٹ دونوں طرح سے اپنی قلمی مہارت خوب خوب استعمال کی۔
یہ 80 کی دہائی میں ایک مستند ڈراما نگار اور کہانی نویس ثابت ہوئے۔ اسی عرصے میں ان کو جرمنی کے سرکاری ثقافتی ادارے نے اعزاز سے بھی نوازا۔ یہ واحد ایوارڈ تھا، انہوں نے جس کو قبول کیا، وگرنہ ہر ایوارڈ کو قبول کرنے سے گریزاں رہے ، حتیٰ کہ ادبی حلقوں سے بھی دوری اختیار کرلی، میڈیا، عوامی مقامات سمیت کہیں دکھائی نہیں دیتے، نہ ہی انٹرویو دیتے اور تصویر کھنچواتے ہیں۔ تاحال یہ فاصلہ برقرار ہے، بس گوشہ گمنامی میں اپنے تخلیقی کاموں میں مصروف رہتے ہیں۔ انہیں گلیمر، شہرت اور اعزازات سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ ان کا سب سے مشہور ناول’’پرفیوم‘‘ ہی ہے، جس پرفیچر فلم بھی بن چکی ہے، جبکہ ان کی دیگر تخلیقات میں دو ناولٹ، ایک کہانیوں کا مجموعہ اور ایک مضامین کی کتاب شامل ہے۔ ان کے موضوعات میں محبت اور موت کا امتزاج ملتا ہے، ان کی کہانیوں اور کرداروں میں محبت اور موت کے احساسات، ریل کی پٹڑی کی مانند ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔
ان کااب تک کا سب سے مشہور ناول ’’پرفیوم‘‘ کی کہانی کا مرکزی خیال کچھ یوں ہے۔ یہ ایک ایسے لڑکے کی کہانی ہے، جس کی پیدائش ہوئی، لیکن سر پر ماں باپ کا سایہ نہیں تھا، در بدر کی ٹھوکریں کھانے والے، محبت سے محروم اس بچے کے دل میں کئی طرح کے وسوسوں نے جنم لیا۔ ایک طرف جہاں زندگی اس کے لیے اداسی اور محرومی کا استعارہ تھی، دوسری طرف اسے ایک خداداد صلاحیت بھی ملی، وہ اس کی شاندار قوت شامعہ تھی،اس سونگھنے کی تیز حِس نے اسے معاشرے میں کھویا ہوا مقام دینا شروع کیا، زمانے سے ٹھکرائے ہوئے بچے کو توجہ ملنا شروع ہوئی۔ یہ خوشبو سونگھنے کا ماہر تھا، انہیں خوشبوئوں کے تعاقب میں ایک طرف جہاں اس نے محبت کے کئی راستے دریافت کیے، وہیں بھٹک کر جرم و سزا کی دنیا میں بھی داخل ہوگیا، اس کے ہاتھوں سے کئی قتل ہوئے، دراصل یہ اس کا وہ شخصی ردعمل تھا، جو اس کو زندگی میں ہوش سنبھالنے پر ملا کہ وہ ایک محبت سے محروم شخص تھا۔ اس محرومی کے غم کو غلط کرنے اور اس احساس کو دبانے کی کوششیں کرتے ہوئے یہ شخص معصوم انسان سے وحشی قاتل کیسے بنا، اسی روداد کو ناول کے صفحات پر قلم بند کیا گیا اور فلم کے پردے پر دکھایا گیا ہے۔
اس ناول کے 49 زبانوں میں تراجم ہوئے اور دنیا بھر میں 20 ملین سے زیادہ کاپیاں فروخت ہوچکی ہیں۔ ایک مستند جرمن اخبار کی ادبی کتابوں کی فہرست میں بھی یہ ناول 9 سال تک شامل رہا، جو اپنی نوعیت کا ایک ریکارڈ ہے۔ جرمن اور امریکی ٹیلی وژن نے بھی اس ناول کی کہانی کو اپنے اپنے انداز میں فلمایا، لیکن اس کوسب سے زیادہ شہرت تب ملی، جب 2006 میں بننے والی فلم’’پرفیوم‘‘ تخلیق ہوئی، جرمن سینما کی منفردلیکن مہنگی فلم کا تمغہ اپنے نام کیا۔ یہ فلم زیادہ تر ناول کے پلاٹ پر ہی بنائی گئی، البتہ کچھ ترامیم کی گئیں۔
اس فلم کا اسکرین پلے جرمن ہدایت کار’’ٹام ٹائکور‘‘ نے دیگر دو اسکرین پلے رائٹرز کے ساتھ مل کر لکھا، موسیقی میں بھی انہوں نے اپنی معاونت فراہم کی جبکہ فلم کے مرکزی کردار زیادہ تر برطانوی اداکاروں نے نبھائے، ان میں بین وشو، ایلن ریکمین، ریچل ہرڈووڈ اور ڈسٹن ہفمین شامل ہیں۔ فلم میں کہانی کو آگے بڑھانے کے لیے ایک راوی کی آواز شامل کی گئی ہے، جو پس پردہ کہانی سنا رہا ہے، اس کے لیے معروف برطانوی صدا کار’’جون ہرٹ‘‘ کی خدمات حاصل کی گئیں۔ فلم کے دیگر شعبوں میں موسیقی، کاسٹیوم اور سینماٹوگرافی پر خصوصی توجہ دی گئی۔ پرانے فرانس کو دکھانے کے لیے عکس بندی کے طور پر جرمنی میں واقع اسٹوڈیوز میں سیٹ لگائے گئے، بہت ساری فلم اسپین اور فرانس میںبھی عکس بند ہوئی۔ اس نے باکس آفس پر کامیابی حاصل کی، کئی اعزازات سمیٹے اور یورپی ممالک میں خاص طورپر فلم بینوں کے دلوں میں گھر کرنے میں کامیاب رہی۔
یہ فلم ایک تخیل پر مبنی ایسی دنیا کی منظر کشی کرتی ہے، جس میں رقص ہے، خوشبوئویں ہیں، زندگی کے ہنگامے ہیں۔ جمالیات کے محور پر کردار ایک دوسرے سے ملتے اور بچھڑتے ہیں۔ ایک پینٹنگ کی طرح اس میں رنگوں کا امتزاج برتا گیا ہے، مکالمے اور موسیقی نے اس کو دو آتشہ کر دیا ہے۔ تاریخی ناولوں پر بننے والی فلموں میں یہ فراموش نہیں کی جاسکتی، اگر آپ کو تاریخ پرمبنی کہانی پڑھنے یا فلم دیکھنے کا شوق ہے، تو اس ناول اور فلم سے استفادہ کرسکتے ہیں۔