وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے 27ویں آئینی ترمیم کا مسودہ قومی اسمبلی میں پیش کر دیا۔
اسپیکر ایاز صادق کی زیرِ صدارت ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ 27 آئینی ترمیم بل سینیٹ نے دو تہائی اکثریت سے پاس کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ میثاق جمہوریت میں آئینی عدالت کے قیام کا بنیادی نکتہ شامل تھا، آئینی ترامیم اتفاق رائے سے کی جاتی ہیں۔ مشترکہ کمیٹی میں اپوزیشن کو بیٹھنا چاہیے تھا۔
وزیر قانون کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں آئینی معاملات کی سماعت آئینی بینچ کرتا ہے، دنیا کے دیگر ممالک میں ججز کی تقرری جوڈیشل کمیشن کے ذریعے کی جاتی ہے۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ اپوزیشن کے دوستوں سے استدعا ہے کہ ایک دوسرے کو سنیں اور ایک دوسرے کی تصحیح کریں، صدر مملکت کے لیے استثنیٰ کی تجویز دی گئی ہے، اگر صدر صدر مملکت دوبارہ پبلک آفس میں آتے ہیں تو استثنیٰ ختم ہو جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہماری استدعا ہوگی کہ اس پر بحث کروائیں اور پھر اس پر ووٹنگ کرائیں، 59 میں سے 47 ترامیم آئینی عدالت کے قیام کی وجہ سے کرنا پڑیں، ہم وار کمیٹی کا حصہ تھے، دیکھا کہ فوج کے سربراہ نے بہترین کارکردگی اور مہارت کا مظاہرہ کیا۔ فیلڈ مارشل کا رینک لینے کے بعد ضروری سمجھا کہ اسے آئینی حدود میں لایا جائے، افواج میں تعیناتی رینک کے تحت ہوتی ہے اور فیلڈ مارشل اعزاز تاحیات رہتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں ہم نے دیکھا کہ اعلیٰ عہدوں پر تعیناتی کے اثرات آئے ہیں، پارلیمان کی سپرمیسی اور دونوں ایوانوں کے فیصلوں کی طاقت سب کے سامنے ہے، فوج کا ایک کردار ہے جب بھارت نے حملہ کیا تو ایوان اسی طرح آباد تھا، اس ایوان نے دیکھا کہ بھارت کے خلاف سب متحد ہو گئے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ بھارت سے فتح کے بعد او آئی سی اور عرب ممالک نے اسے سراہا اور ساتھ دیا، آرمی چیف کی اپائنمنٹ آرمی ایکٹ کے تحت ہوتی ہے، فیلڈ مارشل ایک رینک ہے، جو بہت سے ممالک میں ہے۔
اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ اگر یہ ترمیم پاس ہوتی ہے تو موجودہ چیف جسٹس ہی آئینی کمیشن اور اداروں کی سربراہی کریں گے، صوبوں کے معاملات، آئینی مقدمات آئینی عدالت دیکھے گی، سپریم کورٹ دیوانی مقدمات سمیت کل 62 ہزار سے زائد مقدمات سنے گی۔
وزیر قانون نے کہا کہ صدر مملکت آرٹیکل 200 کے تحت ہائی کورٹ سے دوسرے ہائی کورٹ میں تبادلہ تجویز کر سکتے تھے، چیف جسٹس کے بعد وزیراعظم کی تجویز پر صدر تبادلہ کر دیتے تھے۔ اس سے قبل ججز تبادلوں پر غور کیا اور اس پر قانون سازی ہو رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن سپریم کورٹ اور آئینی عدالت کے 5 ججز اور اپوزیشن و حکومت سے 2-2 ممبران پر مشتمل فیصلہ کرے گا، کمیشن کو اختیار دیا گیا کہ وہ فیصلہ کرے اور جج کا تبادلہ کرے، اگر کمیشن کے حکم پر جج کہیں جانے سے انکار کرتا ہے تو وہ ریٹائر تصور ہوگا۔
اعظم نذیر تارڑ کا مزید کہنا تھا کہ دیکھا جائے گا کہ جج کو کتنے ماہ یا سال کہیں تبادلے پر بھیجا جاتا ہے، جوڈیشل کمیشن کو اختیاردیا گیا کہ وہ جج صاحب کا تبادلہ کرے، اگر جج صاحب انکار کرتے ہیں کہ میں نے تبادلہ نہیں کرانا تو وہ ریٹائر تصور ہوں گے، ماضی میں آرٹیکل 200 کے تحت تبادلے ہوئے، وہ چیلنج بھی ہوئے۔
وفاقی وزیر نے یہ بھی کہا کہ سوموٹو کے ذریعے ملک کا معاشی نظام بٹھا دیا گیا، کہاں سے شروع کریں؟ کیا منتخب وزیراعظم کو گھر بھیجنے سے شروع کریں، اداکاروں کا کیس ہو، کسٹم سامان پر بھی سوموٹو لیا جاتا رہا، بل میں سوموٹو کا اختیار ختم کیا گیا ہے اور ایک طریقہ کار وضع کیا گیا ہے۔
دوسری جانب وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کی تقریر کے دوران اپوزیشن کی جانب سے احتجاج اور نعرے بازی کی گئی۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز سینیٹ نے 27ویں آئینی ترمیم دو تہائی اکثریت سے منظور کر لی تھی۔ چیف آف ڈیفنس فورسز کا عہدہ متعارف اور جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا عہدہ ختم کر دیا گیا، آرمی چیف ہی چیف آف ڈیفنس فورسز ہوں گے۔ وفاقی آئینی عدالت بنائی جائے گی، صدر مملکت کو تاحیات استثنیٰ حاصل ہوگا۔
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے آئینی ترمیم بل پیش کیا تو اس کی حمایت میں 64 ارکان نشستوں پر کھڑے ہوئے۔ ان میں پی ٹی آئی کے سینیٹر سیف اللّٰہ ابڑو اور جے یو آئی کے احمد خان بھی شامل تھے۔ باقی ارکان نے آئینی ترمیم کے خلاف احتجاج کیا اور اجلاس کی کارروائی کا بائیکاٹ کرتے ہوئے ایوان سے واک آؤٹ کیا۔