• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قیدیوں کی رہائی غیرقانونی، کورونا اسکریننگ سے پہلے کسی کو جیل نہ بھیجا جائے، کس قانون کے تحت ملزموں کوبیک وقت ضمانت دی جاسکتی ہے، سپریم کورٹ

کس قانون کے تحت ملزموں کوبیک وقت ضمانت دی جاسکتی ہے، سپریم کورٹ


اسلام آباد (اے پی پی/صباح نیوز/ نیٹ نیوز/ٹی وی رپورٹ)سپریم کورٹ نےکہا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا قیدیوں کی رہائی کا فیصلہ قانون کے مطابق نہیں۔

عدالت نے جیلوں میں گنجائش، قیدیوں کی تعداد اور رہا ہونے والوں کی تفصیلات، اسپتالوں میں کورونا وائرس کیلئے دستیاب سہولتوں کا ریکارڈ طلب کرلیا اورجیلوں میں قرنطینہ بنانے کا حکم دے دیا۔ 

عدالت عظمی نے آئندہ جیل جانے والے نئے قیدیوں کے لیے کورونا ٹیسٹ لازمی قرار دیتے ہوئے حکم دیا کہ کورونا اسکریننگ سے پہلے کسی کو جیل نہ بھیجا جائے،کس قانون کے تحت ملزموں کو بیک وقت ضمانت دی جاسکتی ہے۔

جیلوں میں جانے والے تمام نئے قیدیوں کی اسکریننگ کی جائے اور مکمل اسکریننگ کے بعد ہی قیدیوں کو جیل میں داخلے کی اجازت دی جائے،اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ کورونا سے متاثرہ کوئی شخص جیل میں داخل نہ ہو سکے۔

اگر جیل میں قید کسی فرد میں کورونا کی علامات ہوں یا ٹیسٹ پازیٹو آئے تو اسے قرنطینہ میں رکھا جائے۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ قانون کے مطابق نہیں، سندھ ہائیکورٹ نے بھی بادشاہ کی طرح چار سطروں کا فرمان جاری کیا۔

ملک میں جو بھی کام کرنا ہے قانون کے مطابق کرنا ہوگا، ایسا نہیں ہو سکتا کہ کوئی خود کو بادشاہ سمجھ کر حکم جاری کرے، کس قانون کے تحت ملزمان اور مجرموں کو ایسے رہا کیا جا سکتا ہے۔

چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ نے چار سطروں کی مبہم پریس ریلیز جاری کی،پریس ریلیز سے کتنے قیدیوں کو رہائی ملی۔ 

چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے کورونا وائرس کے پیش نظر جیلوں سے قیدیوں کی رہائی کے خلاف دائر اپیل پر سماعت کی۔سپریم کورٹ نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے 6 اپریل تک تفصیلی جوابات طلب کرلئے۔

جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ کیا ہائی کورٹس نے ہر مقدمہ کا الگ جائزہ لیکر رہائی کا حکم دیا؟کیا اجتماعی طور پر ضمانت کا حکم دیا جا سکتا ہے؟ 

سماعت کے بعد جاری حکم نامہ میں کہا گیا کہ عدالت کوبتایا جائے ملک کے اسپتال کورونا سے نمٹنے کے لیے کس حد تک تیار ہیں، سرکاری اسپتالوں میں مریضوں کے لئے ادویات اور بستروں کی دستیابی سے متعلق رپورٹ بھی عدالت کو دی جائے۔ 

جسٹس قاضی محمد امین نے استفسار کیا کہ چھوٹے جرائم سے کیا مراد ہے؟ فوجداری قانون میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے،یہ قیدی آوارہ گردی جیسے جرائم میں ملوث تھے، ان کو شخصی ضمانت پر بھی رہا کیا جا سکتا تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کس کے کہنے پر اور کس قانون کے تحت ان قیدیوں کو رہا کیا گیا؟سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ یقینی بنایا جائے کورونا سے متاثرہ کوئی شخص جیل میں داخل نہ ہو سکے، اس کے علاوہ عدالت نے جیلوں میں ڈاکٹرز کی خالی اسامیوں پر بھی حکومت سے جواب مانگ لیا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کس کے کہنے پر اور کس قانون کے تحت ان قیدیوں کو رہا کیا گیا؟ عدالت عظمیٰ نے خواتین اور 60 سال سے بڑی عمر کے قیدیوں کی تفصیلات بھی جمع کرانے کا حکم جاری کرتے ہوئے کہا کہ قیدیوں کی رہائی کی قانونی حیثیت پر آئندہ سماعت پر بحث ہو گی۔

اے پی پی کے مطابق سپریم کورٹ نے کورونا وائرس کے پیش نظر قیدیوں کی رہائی کے خلاف دائر اپیل پر سماعت 6 اپریل تک ملتوی کر دی ہے۔ 

عدالت عظمیٰ نے جیلوں میں قرنطینہ سینٹرز بنانے کا حکم دیتے ہوئے ملک میں کورونا وائرس سے نمٹنے کیلئے وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے اب تک کئے گئے اقدامات سے متعلق آئندہ سماعت تک رپورٹ بھی طلب کر لی ہے۔ 

دوران سماعت چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ سب سے پہلے ہائی کورٹس کے دائرہ اختیار کا جائزہ لینا ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ کا قیدیوں کی رہائی کا فیصلہ قانون کے مطابق نہیں۔

ملک میں جو بھی کام کرنا ہے قانون کے مطابق کرنا ہوگا، کس قانون کے تحت ملزمان اور مجرموں کو ایسے رہا کیا جا سکتا ہے، ملک میں ملزمان کو پکڑنا پہلے ہی مشکل کام ہے۔ 

چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ جرائم پیشہ افراد کا کوئی مستقل ٹھکانہ بھی نہیں ہوتا، ملک میں کورونا ایمرجنسی کے باعث پولیس مصروف ہے، ان حالات میں جرائم پیشہ افراد کو کیسے سڑکوں پر نکلنے دیں؟ کراچی میں ملزمان کی ضمانت ہوتے ہی ڈکیتیاں شروع ہو گئی ہیں۔

کراچی میں ڈیفنس کا علاقہ بھی ڈاکوؤں کے کنٹرول میں ہے، ڈیفنس میں رات کو تین بجے ڈاکو کورونا مریض کی چیکنگ کے نام پر آتے ہیں اور گھروں کا صفایا کر رہے ہیں، جب سے سندھ ہائی کورٹ سے قیدیوں کی ضمانت ہوئی کراچی میں ڈکیتیاں بڑھ رہی ہیں، زمینی حقائق کو مدنظر رکھ کر ہی فیصلہ کرنا چاہئے۔ 

دوران سماعت چیف جسٹس گلزار احمد نے مزید ریمارکس دیئے کہ کرپشن کرنے والوں کا دھندہ لاک ڈاؤن سے بند ہوگیا ہے ،سندھ میں کرپشن کے ملزمان کو بھی رہا کر دیا گیا۔

کرپشن کرنے والوں کو روز پیسہ کمانے کا چسکا لگا ہوتا ہے، کرپشن کی بھوک رزق کی بھوک سے زیادہ ہوتی ہے، کرپشن کرنے والے کو موقع نہیں ملے گا تو وہ دیگر جرائم ہی کرے گا۔ 

دوران سماعت جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیئے کہ جیلیں خالی کرنے سے کورونا وائرس ختم نہیں ہو جائے گا، قیدیوں کے تحفظ کیلئے قانون میں طریقہ کار موجود ہے۔ 

جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ قانون کہتا ہے متاثرہ قیدیوں کو قرنطینہ میں رکھا جائے۔

دوران سماعت اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ سندھ کے معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتا،جیلوں میں کورونا وائرس پھیلا تو الزام سپریم کورٹ پر آئے گا جس پر چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ عدالت عظمیٰ نے قانون کو دیکھنا ہے، کسی الزام کی پروا نہیں ہے۔

تازہ ترین