چودہ مارچ کو میر مہدی کی سالگرہ تھی۔ دو سال پہلے وہ سرینگر کے ایک نجی نرسنگ ہوم میں پیدا ہوا۔ ہمارے زمانے میں سرینگر یہاں تک کہ کشمیر کے طول وعرض میں رہنے والی خواتین اور بچے دریائے جہلم کے کنارے پر واقع سرکاری لل دید اسپتال میں علاج و معالجہ کیلئے جاتے تھے مگر مسلسل سیاسی افراتفری اور طرح طرح کی قدغنوں کے باعث شعبہ صحت میں پیدا ہونے والی بدانتظامی کی وجہ سے اکثر لوگ اب وہاں جانے سے احتراز برتتے ہیں۔ اسی خوف کی وجہ سے مہدی کے والدین نے بھی لل دید اسپتال کے بجائے ایک نجی نرسنگ ہوم کو ترجیح دی۔ روایتی طور پر لل دید کا نام کشمیریوں خاص کر خواتین کیلئے روحانی تسکین اور تسلی کا سبب بنتا ہے۔ وہ چودھویں صدی کی مشہور صوفی شاعرہ ہیں جن کے کلام کی مخصوص صنف ’واکھ‘ آج بھی زبان زد عام اور لوگوں کیلئے رہنمائی اور ہدایت کا ذریعہ ہے۔ کشمیر کی متنازع حیثیت اور مسلم اور برہمن تہذیبوں کے تضاد اور تصادم کیوجہ سے لل دید کی شخصیت بھی متنازع ہے۔ ان کو مسلمان لل عارفہ اور ہندو للیشواری کے نام سے جانتے ہیں۔ تاریخی طور پر لل دید کے ہندو ہونے پر اختلاف نہیں۔ کشمیر میں اسلام پھیلانے والے میر سید علی ہمدانی جنہیں کشمیری عرف عام میں شاہ ہمدان کہتے ہیں، سے ان کی ملاقات کی روایت بار بار بیان کی جاتی رہی ہے۔ ان کے کلام میں جہاں بعض طبقوں کے استحصال کا رونا اور اس کے خلاف احتجاج درج ہے وہیں انسان دوستی اور مساوات کا بھی درس موجود ہے۔ مسلم روایت کے مطابق انہوں نے اسلام قبول کیا تھا جس کا واضح ثبوت ان کی قبر کی موجودگی ہے جو میرے آبائی قصبے بجبھارہ کی تاریخی اور قدیم جامع مسجد کے کنارے پر موجود ہے، جہاں آج بھی خواتین اپنی عقیدت کے اظہار کیلئے حاضری دیتی ہیں۔
شاید برہمنوں کے خلاف مسلسل احتجاج اور اسلام قبول کرنے کی وجہ سے لل دید کا ذکر کسی بھی تاریخی ہندو تذکرے میں موجود نہیں اور نہ ہی ان کے کلام کا کوئی اتا پتا ملتا ہے۔ مگر یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں کیونکہ کشمیر کے برہمن واقعہ نویسوں نے نیم تاریخی دستاویز ’راج ترنگنی‘ سے تاریخ ساز مسلمان شخصیات کو یکسر خارج کر دیا ہوا ہے جو کئی تاریخ نویسوں کے مطابق ان واقعہ نویسوں کا اسلام اور مسلمانوں کے خلاف تعصب کا بین ثبوت ہے۔ مسلم حوالوں میں لل دید کا ذکر نہ صرف موجود ہے بلکہ ان کے کلام کو بھی محفوظ کیا گیا ہے۔ لل دید کی وفات کے لگ بھگ ڈیڑھ صدی بعد کشمیر کے مشہور صوفی بزرگ بابا نصیب الدین غازی کے تذکروں میں لل دید کا ذکر بڑی محبت اور عقیدت سے کیا گیا ہے۔ انہوں نے لل دید کو عارفہ کا خطاب دے کر ان کے کلام کا کچھ حصّہ بھی محفوظ کیا۔ بابا نصیب الدین غازی اصل میں راولپنڈی کے تھے، مشہور کشمیری بزرگ شیخ حمزہ مخدوم سے بیعت کی اور پھر کشمیر کے ہی ہوکر رہ گئے۔ ان کا مدفن لل عارفہ کے مزار سے بمشکل دو سو گز کے فاصلے پر ہے۔ بابا نصیب کے سالانہ عرس میں ان کے مزار پر سفید کپڑوں اور سبز عماموں میں ملبوس ’دھمال فقیر‘ ڈھول کی تھاپ پر کئی روز تک رقص کرتے ہیں جسے مقامی طور پر ’دھمالی‘ کہتے ہیں اور جسے دیکھنے کیلئے اطراف سے ہزاروں لوگ آتے ہیں۔
میر مہدی کے یومِ پیدائش پر اس کے والد، وادی کے معروف صحافی اور میرے دوست ہلال میر نے اس کی دو سالہ زندگی کے بارے میں اس تلخ حقیقت کی طرف اشارہ کیا کہ مہدی کی عمر کا بیشتر حصہ لاک ڈاؤن میں گزرا ہے جس میں گزشتہ اگست کے بعد کا عرصہ مشکل ترین دور ہے۔ ہلال کا سب سے بڑا بیٹا ہادی تین یا چار ماہ میں سات سال کا ہونے والا ہے اور اس کی آدھی سے زائد زندگی انہی بندشوں کا شکار رہی ہے۔ گزشتہ سال اکتوبر میں جب مودی سرکار کا محاصرہ اپنے جوبن پر تھا، ہادی اپنے والد سے اسے اسکول لے جانے کی ضد کر بیٹھا کیونکہ اسے خدشہ تھا کہ وہ اپنا کلاس روم ہی بھول گیا ہے۔ یہ ممکن تو نہ تھا البتہ اس کے والد چند دنوں بعد اسے خوش کرنے کیلئے اسے گھر سے نزدیک ایک پارک میں لے گئے۔ مگر اس کا الٹا اثر یہ ہوا کہ دونوں خوفزدہ ہو گئے کیونکہ پورے پارک میں وہ اکیلے تھے۔ اس قدر ویرانی کی وجہ سے ہادی نے والد سے واپس گھر چلنے کی فرمائش کی۔ یہ پورے کشمیر کی داستان ہے جہاں ہزاروں کاروبار بند، بیمار پریشان اور طلبہ کئی مہینوں سے گھروں میں مقید ہیں۔ اب جبکہ کورونا وائرس کی وجہ سے پوری دنیا منجمد ہو گئی ہے تو سوشل میڈیا پر کئی کشمیری اس امید کا اظہار کر رہے ہیں کہ شاید اب دنیا کو کشمیریوں کو درپیش مصائب اور مشکلات کا اندازہ ہوگا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)