• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایڈیٹرانچیف جنگ جیو گروپ کی درخواستوں اور نیب کے جواب کا متن

میرشکیل الرحمٰن اور شاہینہ شکیل کی رٹ پٹیشنز اور نیب کا جواب


رٹ پٹیشن نمبر 9 of 20201780

میر شکیل الرحمان ………… درخواست گزار

بنام

1. چیئرمین

نیشنل اکائونٹبلیٹی بیورو نیب ہیڈ کوارٹرز

G-5/2Attaturk Avenue, Islamabad


2. چیئرمین نیشنل اکائونٹبلیٹی بیورو نیب ہیڈ کوارٹرز

نیب کمپلکس ٹھوکر نیازبیگ ملتان روڈ لاہور G-5/2Attaturk Avenue, Islamabad


3. چوہدری امیر محمد خان

معزز جج، اکائونٹبلیٹی بیورو،کورٹ IV، لاہور


4. ڈائریکٹر جنرل (لاہور)

نیشنل اکائونٹبلیٹی بیورو نیب کمپلکس ٹھوکر نیازبیگ ملتان روڈ لاہور


5. محمد عابد حسین ، اسسٹنٹ ڈائریکٹر/ انوسٹیگیشن آفیسر

نیشنل اکائونٹبلیٹی بیورو نیب کمپلکس ٹھوکر نیازبیگ ملتان روڈ لاہور


6. انچارج، ہولیس اسٹیشن، نیب پنجاب

نیب کمپلکس ٹھوکر نیازبیگ ملتان روڈ لاہور


……… مدعا علیہان

(اسلامی جمہوریہ پاکستان کے 1973ء کے آئین کے آرٹیکل 199؍ کے تحت دائر رٹ پٹیشن)

یہ کہ یہاں پرتعصب کےبغیرگذارشات، دلائل اوریہاں درج دعاؤں کےبعد،درخواست گزاریہاں 12.03.2020 کوہونےوالی اپنی غیرمجازاورغیرقانونی گرفتاری کو چیلنج کرناچاہتاہے،جومدعاعلیہ 2 کی جانب سے شکایت کی تصدیق کے مرحلے کےدوران کی گئی،مدعاعلیہ نمبر1 کے حکم پرحتی کہ غیر قانونی وارنٹِ گرفتاری جاری کیے گئے جومورخہ 08.10.2019 کی ہدایت / پالیسی گائیڈ لائنز کی خلاف ورزی ہےاور مدعاعلیہ نمبر3کی جانب سے مورخہ 13.03.2020 کو ایک آرڈر پاس کیاگیا جو قانون اور حقائق کے خلاف ہے اور ان کےسامنےرکھےگئےاہم شواہد کی غلط تشریح ہے، بشمول اس کے بعد تمام ابتدائی احکامات، سُپرسٹرکچرجو اس پربنایاگیا وہ بھی غلط ہےاوراس کاکوئی قانونی جوازنہیں ہے۔ لہذا فوری طور پر آئین کی طرف سےتعین کردہ چیزوں اوراس کے نتیجے میں ریلیف کےلئےمندرجہ ذیل حقائق اوردلائل کی بنیاد پرریلیف دیاجائے:

کہ درخواست گزارمختلف بیماریوں کاشکارہے،وہ جنگ / جیو گروپ کا ایڈیٹر اِنچیف ہے، جو پاکستان کا سب سے پرانا، بڑا اورمقبول ترین میڈیا گروپ ہے۔ درخواست گزار فی الحال نیب کی غیرقانونی اورغیرآئینی تحویل میں ہے۔ جواب دہندہ نمبر 1 نیب ہے، جو ایک وفاقی ایجنسی ہے جسے قومی احتساب آرڈیننس 1999 کے تحت تشکیل دیاگیااور بنیادی طور پر تفتیش کے ذریعے بدعنوانی کو روکنے کے لئے اسے بنایاگیا جو تحقیقات اور اس کے بعد احتساب کی کارروائی کی سفارش کرے۔ مدعاعلیہ 3 ایک معزز جج حتساب عدالت IV ہیں، جو اس درخواست سے متلقہ ہیں جبکہ مدعاعلیہ 4 سے 6 نیب حکام ہیں اور مدعاعلیہ 7 متعلقہ پولیس اسٹیشن ہے۔

1- کہ 45سال سے زائدسےدرخواست گزار بطور صحافی کام کررہاہے اور پاکستان میں خبروں کے کاروبار سے منسلک ہےاوراپنےوالدکےدورسے درخواست گزار نے روزنامہ جنگ لاہور سے شروع کیا اور اردوصحافت میں ایک بنچ مارک قائم کیا۔

2- گزشتہ 60 سال سے جنگ گروپ میڈیا کیلئے آزاد پالیسی پر بضد ہے اور اس سےسویلین اور ملٹری ناراض حکومتوں کی جانب سے اسے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے، حکومتیں ایک ایسا میڈیا چاہتی ہیں جوان کی حمایت میں کوریج کرے تاکہ پاکستان کے خودمختارلوگوں کو اُن کی خراب کارکردگی کا پتہ نہ لگ سکے۔

3- کہ جنگ / جیو گروپ کیجانب سے میڈیا کیلئے آزاد پالیسی پر اصرار کا مطلب ہے کہ روزنامہ جنگ اخبار پاکستان میں اردو کا مقبول ترین اخبار تھا اور رہا ہے اور اس کاانگریزی اخبار دی نیوز انٹرنیشنل ملک میں نامور اخباروں میں سے ایک ہےجبکہ جیو نیوزقابل اعتماد اور مقبول ترین نیوز چینل ہے۔

4- پس منظر کےباعث ریاست کیلئے یہ اہم ہے کہ جب مدعاعلیہ نمبر1 کی ویڈیو سامنے آئی تو جیوز نیوز نےعوامی مفاد میں یہ ضروری سمجھا کہ احتساب کے عمل کاتحفظ اور ساکھ قائم رکھی جائے، اور اس خبرکو شائع کرنے اور سوال کیلئے کہ کیوں ویڈیوسنجیدہ نوعیت کے الزامات کو اندھادھند فرض کرلیاگیا۔

5- مذکورہ بالا باتوں نے نیب حکام اور حکومت دونوں کو ہی ناراض کیا جس کے بعد جیونیوز کی انتظامیہ، اس کے اینکر خاص طورپر آج شاہزیب خان زادہ کے ساتھ‘‘ کےاینکراورپروڈیوسر، اور خاص طورپر درخواست گزار کو دھمکیوں کا سامنا شروع ہوگیا کہ نیب پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگیولیٹری اتھارٹی کو پروگرام پرپابندی کاکہےگا۔

6- اسی پس منظر میں ، نیب کے کہنے پر پیمرا نےجیو نیوز اور اس کے اینکرز کو متعدد نوٹسزجاری کرنا شروع کردیئے اور ہر بار جرمانے عائد کرنا شروع کردیئے، جب بھی جیو نیوز پر نیب کی کارکردگی پر بحث کی گئی تب ایس کیاگیا۔

7- آخر کار ، جیو کے پاس چار مہینے پہلے ہی اس معزز عدالت سے رجوع کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا،(WP نمبر 61353/2019) صرف معززعدالت کی طرف سےہدایات لینے کیلیے کہ نیب کیساتھ ایک ریاستی ادارہ کی طرح برتاؤ نہ کیاجائے ، جیسا کہ نیب ایک تحقیقاتی ادارہ تھابالکل وفاقی تحقیقاتی ایجنسی کی طرح۔ درخواست گزار کی بہترین معلومات کے مطابق پیمرا نےابھی تک اس درخواست میں جواب داخل کرنا ہے۔

8- چونکہ موجودہ حکومت اور نیب کا غصہ بڑھاتو وفاقی حکومت اور پنجاب کے پی کی حکوتم نے جنگ / جیو گروپ کے کسی بھی اخبار کیلئے اشتہارات بند کردیئے۔

9- چودہ دن قبل WP NO.14356/2020 کے مطابق جنگ / جیو گروپ نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے غیر قانونی فرق کو چیلنج کیا، جنگ / جیو گروپ کے کسی اخبار یا چینل کیلئے اشتہارات پر عملی طورپر پابندی مکمل طورپر غیر قانونی ہے یہ حکومت کی ذاتی پراپرٹی نہیں ہے لیکن ریاستی اثاثہ ہے جو قانون کے مطابق تقسیم ہوناچاہیئے۔

10- مذکورہ بالا پر تعصب کے بغیر ، یہاں تک کہ دوسری صورت میں بھی ، نیب اور برسر اقتدار حکومت کےغیرقانونی تعاون کے باعث تمام اپوزیشن لیڈرشپ کی جانب سےکاروباری اعتماد ختم ہوا ،بشمول سابق صدر آصف علی زرداری اور سابق وزرائےاعظم نواز شریف اور شاہد خاقان عباسی۔

11- مذکورہ بالا حالات کےدوران ، آنے والی حکومت کو احساس ہوا کہ نیب کی جانب سے نجی شہریوں اور کاروباری افراد اور بیوروکریٹس کو روزانہ ہراساں کرنےسےکاروباری افرادکااعتمادخراب ہواہے۔ اور یہ حکومت کےملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے منصوبے میں رکاوٹ ہے۔

12- اس کے تحت کاروباری برادری اور بیوروکریسی کولابی بنانے پر مجبورکیاگیاوہ اُن اختیارات وزیر اعظم اور دیگر اعلی عہدے داران کیلئے ہیں۔ 

13- لہذا حکومت نے کود ہی 27.12.2019کو ایک آرڈیننس منظور کیا جس میں این اے او 1999 میں ترامیم کی گئی تھیں، تاکہ پرائیوٹ شہریوں، کاروباری شخصیات اور بیوروکریٹس کو تحفظ دیاجائےجو بظاہر غیر فعال ہوچکے تھے۔ یہ اپنی نوعیت میں حکومت کی جانب سے ایک اعتراف تھا کہ نیب قابوسے باہر ہوچکاہے اور اسے لگام ڈالنے کی ضرورت ہے کم از کم بزنس مین / بیوروکریٹ کی حد تک۔

14- 08.10.2019 کو نیب پہلے ہی مندرجہ ذیل احکامات جاری کرچکاتھا جن میں کہاگیا:

نوٹس، مقدمے میں نامزد شخص کی تفصیلات اور وجوہات تحریری جواب کیلئے جاری کی جائیں گی۔

جواب کی رسید کے بعد اگر یہ ہی غیراطمینان بخص پایاگیا یا اس میں مزید وضاحت چاہیئے تو ایک سوالنامہ جاری کیاجائےگا۔

ڈی جی ریجنل نیب ہر سوال کے جواب کاکودیکھےگا اوراگر یہ غیر تسلی بخش پایا گیا تو بزنس مین کو قانون اور ایس اوپی کے مطابق ذاتی حیثیت میں طلب کرلیاجائےگا۔

( یہاں بطور اضافہ A نیب کی ہدایات / پالیسی گائیڈ لائن کی نقل لف کی جارہی ہے)

15- مندرجہ ذیل چار نکات کی بزنس مینوں کو ٹریڈ یا انڈسٹری سے قطع نظر ہوکرگارنٹی دی گئی:

طلب کیے بغیر

ڈی جی ریجنل نیب ہر سوال کے جواب دیکھےگا اوراگر یہ غیر تسلی بخش پایا گیا تو ۔۔

بزنس مین کو قانون اور ایس اوپی کے مطابق ذاتی حیثیت میں طلب کرلیاجائےگا۔

16- 28.02.2020 کو ڈپٹی ڈائریکٹر (کوآرڈ) کمپلینٹ ویریفکشین سیل، نیب نے مذکورہ بالا ایس او پی کی پیروی کیے بغیر ہی درخواست گزار کو نوٹس No. 1(33)/HQ/CV/769/20/NH-DD/NAB-Lکے تحت طلب کرلیا ۔ تاکہ مدعاعلیہ نمبر 6 کے سامنے نیب لاہور کے دفتر میں 05.03.2020 کو ایک ایسے معاملے کے مکمل ریکارڈکےساتھ پیش کیاجاسکے جو 34سالہ پہلے واقعہ ہواتھا اور کمپلینٹ ویری فیکشن کے مرحلے میں تھا۔ درحقیقت جیسا کہ نوٹس سے ہی ظاہر ہوتا ہے، یہ نیب کے کمپلینٹ ویری فیکشین سیل کی جانب سے جاری کیاگیاتھا اور اس کا عنوان ’ کمپلینٹ ویری فیکشین کاعمل اس بیورو کےپاس جاری ہے۔‘ درحقیقت نوٹس03.03.2020کوموصول ہواجبکہ جیساکہ اوپربیان کیاجاچکاہے،درخواست گزارکو05.03.2020کو پیش ہوناتھا۔ یہ غیر مناسب ہونے کےباوجود درخواست گزار قانون کی پیروی کرنےوالے شہری کی طرح نیب آفس لاہور میں پیش ہوا۔ مذکورہ تاریخ کو درخواست گزار نے اپنے ساتھ کچھ نوٹس لیے زیادہ تر 34سال پرانے تھے اور وہ سب مواد جو وہ اپنے ہاتھ میں اٹھا سکتا تھا اور وہ سب نیب حکام کےسامنے پیش کردیا۔ درخواست گزار نے یہ بھی کہا کہ یہ مناسب ہوگا کہ اگر وہ اسے ایک مخصوص سوالنامہ جاری کردیں۔ انھوں نے ایسا کرنے سے انکار کردیا کہ وہ اپنے لیےان کی گفتگوسے سوالات بنان سکتے ہیں اور ریکارڈ بھی بناسکتے ہیں۔ یہ تقریباً 13سوالات تھے جو درخواست گزارنے اپنے ہاتھ سے لکھے۔ اس غیریقینی کارروائی کو ختم کرنے میں آسانی کی امیدمیں انھوں نے جلدی سے ٹائپ کیا جو اب انھیں نیب حکام کو جمع کراناتھا۔ لیکن وہ اس سے لینے پر راضی نہیں تھے اگرچہ ان کی موجودگی میں اس نےاس پر دستخط کرنےکےبعد انہیں ایک کاپی موصول ہوئی اوراس کےنیچےایک انتباہ کااضافہ کیا۔ (یہ بھی ، جب نیب نے قبضہ لے لیاتھا جب 12.03.2020کو نیب نے تمام دستاویزات ضبط کرلیے تھےجس وقت ان کی غیرقانونی گرفتاری ہوئی تھی)

(نیب نوٹس کی کاپی بمطابق 28.02.2020 کی نقل یہاں اضافہ Bکے تحت لف کی جارہی ہے)

19-جیسا کہ واضح ہے کہ نہ صرف ایس اوپی کو مکمل طورپر نظرانداز کیاگیا حتٰی کہ تعصب کے بغیر ایس او پی کے مطابق کوئی سوالنامہ درخواست گزار کو کبھی جاری کیاگیا تھا۔ نیب حکام کی کارروائی اس کی خلاف ورزی تھی جو ’کمپلینٹ ویری فیکشن ‘ کے طریقہ کار میں لیاجاناتھا۔

20- 10.03.2020 کو درخواست گزار کو نیب حکام کی جانب سے مخصوص سوالوں کے ساتھ ایک نوٹس موصول ہوا اس میں طلبی کا نوٹس اور نیب کے سامنے 12.03.2020کودوبارہ پیش ہونے کی ہدایات بھی تھیں۔ لہذا یہ بھی کوئی سوالنامہ نہیں تھا جیسا کہ ایس اوپی میں ہے۔

21- وقت کی کمی کے باوجود درخواستگزار نے سوالوں کے جواب کی مشق شروع کی اور جوابات کو لکھناشروع کیا۔ وہ دیے گئے وقت میں یقیناًیہ کام مکمل نہیں کرسکتے تھے، جیسا کہ یہ خود تحریر کردہ جوابات سے ظاہر ہے(جو نیب کے پاس ہی ہیں)۔

22- چونکہ کارروائی صرف شکایت کی تصدیق کیلئے تھی اور اس مرحلے پر نہیں پہنچی تھی جہاں درخواست گزار (یا کوئی بھی ذمہ دارشخص) گرفتارہونے کی امید نہیں کرسکتا تھا کہ وہ گرفتارہوجائےگا اور وہ بھی تفتیش کےاتنے ابتدائی مرحلے میں۔ لہذا وہ 12.03.2020کونیب کے لاہور دفتر پہنچے، ان کے پاس ذاتی درستاویزات بشمول ضروری ڈرافٹ تھے جو انھوں نے اپنے استعمال اور حتمی طورپر جمع کرانے سے قبل نظرِ ثانی کیلئے تیار کیے تھے۔

23- یہ جو درخواستگزارسمجھتا ہےکہ نیب کسی سوال و جواب میں دلچسپی نہیں رکھتا تھا، لیکن جب درخواست گزار نیب آفس کے احاطےمیں تھاتوانھیں بتایاگیا کہ انھیں نیب حکام کی جانب سے جاری کردہ وارنٹ کے تحت گرفتار کرلیاگیاہے درخواست گزار کو نجی دستاویزات کے ساتھ تین سیل فون، ذاتی بریف کیس اور اس ریکارڈ سے بھی جو ان کے پاس تھا،سے بھی محروم کردیاگیا۔

( مورخہ12.03.2020کو گرفتاری کے وارنٹ کی نقل یہاں اضافہCکے طورپر لف ہیں)

24- جیسا کہ ظاہرہے مورخہ12.03.2020کو درخواست گزار کی گرفتاری ، کمپلینٹ ویری فیکشین کے مرحلے پر، ایس او پی اور اعلیٰ عدلتوں کےحالیہ فیصلوں کی سنگین خلاف ورزی تھی۔ مزیدبرآں، درخواست گزار نے اپنے وکیل اورفیملی کے افراد سےملناچاہاتھا لیکن اسے یہ حق دینےسےانکارکردیاگیا، ان سےکچھ دستاویز ات پر دستخط کرائے گئے، اس رات انھیں تنہائی میں ایک غیرصحت مند سیل میں رکھا گیا۔

25- 13.03.2020 کو درخواست گزار کو مدعاعلیہ 3 کے سامنے پیش کیاگیا، جھیں یہ پیش کیاگیا کہ درخواست گزار کی گرفتاری ایس اوپی کے خلاف ہے کہ درخواست گزار کو اپنا نکتہ نظر پیش کرنے کا مناسب موقع نہیں ملا، کہ ان کی گرفتاری غیرقانونی تھی اور جن حالات میں یہ ضروری تھی معزز جج کیلئے انھیں رہا کرناضروری تھا بلکہ انھیں نیب کی حراست یا عدالتی تحویل میں دے دیاگیا۔

26- کہ معززعدالت کےجج نےقانون اور حقائق کے خلاف درخواست گزار کے حوالے سےجواب کوخاطرمیں نہیں رکھا اور کم و از کم 11روز کیلئےانھیں نیب کے حوالےکردیا۔

(13.03.2020 کو مدعاعلیہ 3 کی جانب سے منظورکردہ آرڈر کی نقل یہاں اضافہ D کےطورپرلف ہے)

27- اس وقت یہ اخذ کیاجاسکتا ہے:-

(i) مدعاعلیہ 1 کی جانب سے جاری کردہ گرفتاری کے وارنٹ درحقیقت غیر قانونی ہیں کیونکہ:

یہ 02.10.2019کو جاری ہونے والے ایس او پی کے خلاف ہیں۔

یہ سمجھ سے بالاتر ہیں کیونکہ جب ان پر اسلام آباد میں دستخط کیے گئے تو کمپلینٹ ویری فکیشن کی کارروائی لاہور میں جاری تھی۔

قانون اورحقیقت میں یہ قبل ازوقت تھا کیونکہ مدعاعلیہ 1 کے سامنے کوئی مواد نہیں تھا کہ وہ معاملے پر کوئی رائے سازی کرتے۔

(ii) مدعاعلیہ 3 کی جانب سے (ریمانڈ) آرڈر بمطابق مورخہ 13.03.2020 ایک تباہ کن آرڈر تھا، کیونکہ:

معزز جج نے خود اس سوچ پر عمل کیا کہ ریمانڈ دینے کیلئے کوئی وجہ فراہم کرنا ضروری نہیں ؛

لہذا یہ Section 167(3) Cr PC اور Section 17 of the NAO 1999 کی خلاف ورزی تھی اور اس کے ساتھ ہی یہ سپریم کورٹ کے Anwarul Haq Qureshi v. NAB’ (2008 SCMR 1135)کے فیصلے کی بھی خلاف ورزی تھی۔

28- یہ کہ 14.03.2020 کو درخواست گزار کی اہلیہ نے WP No. 15993 of 2020 اس عدالت میں دائر کی۔ 16.03.2020 کو عبوری میں متعدد ریلیف دینے کے بعد بینچ نے معاملہ 26.03.2020 کے لئے ملتوی کردیا۔ 16.03.2020 کی سماعت کےبعددرخواست گزار کو اپنے اہل خانہ سے ملنے کی اجازت دی گئی۔

29- یہ کہ درخواست گزارکے پاس ان حالات میں کوئی دوسرا متبادل نہیں ہے کہ وہ فوری درخواست دائرکرے، جس میں دیگرکیساتھ چیئرمین نیب کی جانب سےجاری کردہ وارنٹ گرفتاری کو چیلنچ کیاجائے، اس کے نتیجے میں احتساب عدالت کے جج نےدرخواست گزار کو دوبارہ نیب کی تحویل میں بھیجنے کاریمانڈدیا، یہ سب غیر قانونی ،بغیرکسی قانونی اختیار کے ہے اور اسے مندرجہ ذیل وجوہات پرمسترد کرنے کی ضرورت ہے۔


وجوہات

• درخواست گزار ایک قانون کی پیروی کرنےوالا اور بے گناہ شہری ہےاور بے بنیاد الزامات اس رپ لگائے گئے ہیں یہ ایک ایسے معاملے میں کیاگیا جو 34سال پہلے کاہے۔

• نیب نے درخواست گزارکے خلاف بطور جنگ / جیو گروپ کے سربراہ ایک غلط انداز میں عمل کیا، اس کی وجہ حقائق پر مبنی رپورٹنگ اور کمنٹری ہےجو اس کے مختلف ادارے اور ٹیلی ویثن پر شائع کی جاتی ہے۔

• کسی بھی حالت میں مدعاعلیہ نمبر1 نے ذاتی تعصب کے باعث کہ نہ جیو اور نہ اس کے ناظرین ، درحقیقت پاکستان کےلوگ، مدعاعلیہ 1 کےایک مخصوص خاتون کےساتھ رویے کو نتے ہیں۔ یہ رویہ فحش نوعیت کاتھااورمدعاعلیہ 1 کے عہدے اور پوزیشن کےشایانِ شان نہیں کہ جو سوشل میڈیا کے ذریعے ایک پبلک پراپرٹی بن چکاہے۔ درخواست گزار کی جانب سے اس میں کوئی غلط ارادہ شامل نہیں تھا اور جنگ / جیو گروپ جس نے اچھے ارادے سے ملک کا اکائونٹبلیٹی ایڈمنسٹریشن چلانےوالا ایماندار شخص چاہتے ہیں۔ تاہم ، آڈیو / ویڈیو ٹیپس مدعاعلیہ نمبر1کوایک بہت ہی منفی انداز سے پیش کرتے ہیں اور انھوں نے اس کیلئے جیو کو ذمہ دار قرار دیا، آج کےدور میں دنیابھر کی #metoo تحریک اس کےحوالے سے ہے ۔ اسےخفیہ رکھنے کیلئے درخواست گزار اس آڈیو کی ٹرانسکرپٹ نہیں لگارہا۔ لیکن درخواست گزار کواس کاحق حاصل ہے، اگر اسے ضروری سمجھا گیا۔

• ایس او پی کے مطابق نیب کیلئےان اقدامات کی پابندی کرناضروری تھا جو وہاں درج ہیں۔ تاہم اسی او پی کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے نیب نے دھوکے سے ہی کملینٹ ویری فیکشین کے مرحملےپر درخواست گزار کو گرفتارکرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ غلط ہونے کے علاوہ یہ ایکشن غیر قانونی اور اعلان کردہ ایس اوپی کے خلاف ہیں اوراعلیٰ عدالتوں کے کئی فیصلوں کےخلاف بھی ہے۔

• یہ معاملہ درحقیقت کافی سیدھا سادہ ساہے، چونکہ اگر:

• درخواست گزار/اس کے خاندان کے افرادکی جانب سے یہ پرائیوٹ افرادسے زمین پرائیوٹ ٹرانزیکشن میں خریدی گئی تھی اور رعایت ایل ڈی اے کی رعائتی پالیسی کے تحت حاصل کی گئی تھی اور تمام واجبات اداکردیےگئے تھے۔

• نیب کی جانب سے مداخلت کو کوئی بھی چیز جسٹیفائی نہیں کرتی۔ خاص طورپر تین دہائیوں بعد۔ اس حوالےسے تمام شواہد دستاویزی ہیں اور نیب کے پاس پہلے ہی دستیاب ہیں۔

• یہ بھی امتیازی ہے اور برابری کے اصول کے خلاف ہے جیساکہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے WP No. 769 of 2019 titled ‘Amjad Mustafa Malik v. DG, NAB’کی جانب سے قراردیاگیا کوئی بھی شخص جو نیب کے ساتھ تعاون کررہاہو اسے گرفتارنہیں کرناچاہیئے کیونکہ یہ شہری آزادی کے خلاف ہے۔ فیصلے میں یہ بھی کہاگیا کہ کسی بھی شخص کو بے گناہ تصورکیاجائےگا اور اسے اچھے طریقے سے پیش آیاجائےگا جب تک کہ جرم ثابت نہ ہوجائے۔

• یہ کہاجاتاہےکہ معزز جج کی جانب سے درخواست گزار کانیب کوریمانڈدینےپرسوال اٹھتاہے:

(i) زیادہ سختی اور برابری یا ذمہ داری کے بغیر پیش آیا گیا۔

(ii) درخواست گزار کو مکمل طورپر غلط بنیاد پر رہائی دینے کے اختیار کے استعمال میں ناکامی جس کے باعث انھیں پہلی بار Section 24 (d) of NAO 1999 کے تحت نیب کےحوالے کردیاگیا ۔

(iii) اس پر سمجھ سےبالامنطق لاگوکی گئی کہ Section 24 (d) NAO 1999کےتحت ضروری ہے کہ درخواست گزار کے ریمانڈ کی وجہ اور بنیاد پیش کی جائےجب پہلی بار اسے ریمانڈ لینے کیلئے پیش کیاجائے اور ایک جج کو اسی صورت میں وجہ دینے کی ضرورت ہے جب درخواست گزار دوسری بار یا اس کے بعد ریمانڈ کیلئے پیش کیاجائے۔ اس منطق میں کئی وجہ نہیں اور یہ قانون کے خلاف ہے اور ‘Anwarul Haq Qureshi v. NAB’ (2008 SCMR 1135) کے فیصلے کے خلاف بھی ہے جہاں سپریم کورٹ کے ایک فل بنچ نے Section 24 (d) NAO 1999 کی تشریح کرتے ہوئے قراردیا کہ ہر ریمانڈ کیلئے وجوہات ریکارڈ کرنا ہوں گی۔

(iv) مدعا علیہ نمبر 3 کی تشریح کے مطابق اس کا مطلب یہ ہوگا کہ جج کو کسی کے اسیر ہونے کی کوئی معقول وجہ یا عقلی بات بتائےبغیرکسی بھی شہری کے بنیادی حقوق کو ختم کیا جاسکتا ہے اور انہیں نیب یا اس جیسی ایجنسی کے ذریعہ کم از کم پندرہ دن تک قیدی بنایا جاسکتا ہے۔

(v) مذکورہ بالا یہ بھی سیکشن 24 (d) این اے او 1999 کی ایک سراسر غلط تشریح ہے اور آئین کے آرٹیکل 4 ، 9 ، 10-اے ، 12 اور 25 کی بھی سراسر خلاف ورزی کے ساتھ ساتھ 1973 کے سیکشن 167 (3) سی آر پی سی نے این اے او ، 1999 کے سیکشن 17 کے ساتھ پڑھا۔

(vi) معزز اسلام آباد ہائیکورٹ کے مذکورہ بالا فیصلے کے مطابق ، ایک ملزم شخص جو نیب کے انتہائی متعصب عہدیداروں کے سامنے بھی پیش ہوتا ہے جب بھی اسے طلب کیا جاتا ہے تو ظاہر ہے کہ وہ تعاون کر رہا ہے اور اسے گرفتار نہیں کیا جانا چاہئے۔

(vii) یہ کہ مذکورہ بالا کی نظر میں ، درخواست گزار کی گرفتاری سراسر غیر قانونی اور قانونی اختیارات کے بغیر ہے۔

NAB نیب نے ایس او پی کے برخلاف کام کیا ہے جسے مکمل طور پرنظرانداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔

اس طرح یہ مدعا علیہ نمبر 3 پر لازم ہے کہ وہ درخواست گزار کو فارغ کرنے کے تیسرے آپشن بجائے ذاتی یا عدالتی تحویل میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کو استعمال کرے، جواب دہندگان کے اقدامات عمل کے ناجائز استعمال اور دفتر کے غلط استعمال کی رقم ہیں۔

(ix) یہ کہ نیب کی کارروائیوں میں بدنیتی سطح پر پھیلتی ہے،میڈیا کے سامنے یہ دعویٰ کیا گیا کہ درخواست گزارنیب سے الزامات کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ درحقیقت معزز وزیر اعظم پچھلے چار سالوں سے درخواست گزار کو سبق سکھانے کا عزم کر رہا ہے۔

H. نیب کا یہ عمل غیر قانونی بھی ہے اور ناگوار بھی ہے کیونکہ اس نے درخواست دہندگان کو مکمل حقائق اور ریکارڈ حاصل کرنے اور ان کے سامنے رکھنے کے لئے کسی مناسب ، معقول یا مناسب وقت کی اجازت نہیں دی ہے ، وہ بھی 'شکایت کی توثیق' کے مرحلے پر ، جو ، درخواست گزار یا کسی معقول فرد کو حاصل کرنے میں کچھ وقت درکار ہوتا ہے کیونکہ یہ الزامات 34 سال پرانے قدیم معاملے سے متعلق ہیں۔

I. 05.03.2020 کو درخواست گزار کی پیشی کے دوران نیب حکام کا طرز عمل سب سے عجیب تھا۔ درخواست گزار نے انھیں سمجھایا کہ اس کے لئے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ تمام حقائق ، نام اور تاریخ کو دو دن کے اندر 34 سال بعد یاد کرے۔ درخواست گزار نے نیب حکام کو آگاہ کیا ، کہ وہ یاداشتوں پرمبنی کچھ نوٹ لے کر آیا ہے لیکن انہوں نے وصول کرنے سے انکار کردیا۔ انہوں نے کہا کہ کم از کم اسے پڑھنے دو۔ انہوں نے اس کی بھی اجازت نہیں دی۔ انہوں نے نیب حکام سے کہا کہ وہ انہیں ایک سوال نامہ دیں۔ اس پر بھی انہوں نے کہا کہ نہیں۔ یہ سب کچھ بظاہر کیمرے میں بھی ریکارڈ کیا گیا تھا جو کارروائی کے دوران درخواست گزار کی طرف اشارہ کررہا تھا۔ آخر میں درخواست گزار نے نیب کو آگاہ کیا کہ "جیسا کہ میرا مقصد آپ کو مطمئن کرنا ہے ، اگر آپ مجھے تحریری سوالات نہیں دے سکتے تو کیا آپ کم از کم اپنے زبانی سوالات کو دہرا سکتے ہیں تاکہ میں ان کو نوٹ کروں اور ہر سوال کے جواب اور دستاویزات کے ساتھ واپس آؤں؟

J۔ اس طرح ، درخواست گزار کے بہت اصرار کے بعد ، نیب حکام نے تیرہ (13) سوالات کی زبانی طور پر تصدیق کی جو درخواست گزار نے خود کاغذ کے ایک ٹکڑے پر لکھ دیئے تھے۔ 05.03.2020 کو اپنے پہلے دورے پر نیب کو جلد بازی سے ردعمل کے بارے میں حقائق اوپر بیان کردیئے گئے ہیں۔

K. درخواست دہندگان نے اس کے بعد کئی دن 34 سال پرانی دستاویزات میں سے جوابات کا مسودہ ، ان کی حمایت میں جو بھی دستاویزات جمع کرسکتے ہیں اکٹھا کرتے ہیں اور اسی کے مطابق نیب حکام نے ان تیرہ (13) سوالات کی تصدیق کی تھی ، جن کا انہوں نے نوٹ کیا تھا ، انہوں نے ہر سوال کے خلاف اپنے ابتدائی سوال کو مسترد کردیا۔

L. یہ اس طرح تھا کہ 12.03.2020 کو جیسا کہ ضرورت پڑا جواب دینے کے لئے نیب کے سامنے پیش ہوا، درخواست گزار اپنے ساتھ ابتدائی اور ڈرافٹ جوابات اور معاون دستاویزات جیسے نیب کے عہدیداروں نے طلب کیا اپنے نوٹ لے کر گیا

13 اس تاثر کو مکمل طور پر ختم کریں کہ انہوں نے حکومت پنجاب یا ایل ڈی اے سے پلاٹ حاصل کیے تھے جبکہ انہوں نے اصل مالکان / ایوارڈز سے حقوق خریدے تھے۔

دستاویزات وصول کرنے یا اس کی وضاحت سننے کے بجائے نیب حکام نے جو اب پہلے سے طے شدہ منصوبہ بندی کو ظاہرکرتا ہے اس کے پاس موجود تمام دستاویزات ، اصل اور فوٹو کاپیاں اس کے قبضے میں لے گئیں، اور درخواست گزار کو بتایا کہ اسے گرفتار کرلیا گیا ہے۔

N. یہ اوپر سے واضح ہے کہ 12.03.2020 کو درخواست گزار اپنے اپنے نوٹ کے ساتھ ساتھ ابتدائی اور ڈرافٹ جوابات اور دستاویزات کے ساتھ اس شبہ کو واضح کرنے اور اس سے دور کرنے کے لئے نیب لاہور پہنچا تھا کہ اس نے حکومت پنجاب یا ایل ڈی اے سے کوئی بھی اراضی حاصل نہیں کی تھی۔ لیکن اس حقیقت سے کہ انھیں گرفتار کیا گیا اس کا مطلب یہ ہے کہ پیشی سے قبل ہی نیب (جواب دہ نمبر 1) نے غیر معمولی مقاصد کے لئے اسی دن ہی اسلام آباد میں درخواست دہندگان کی گرفتاری کے وارنٹ پر دستخط کردیئے تھےکہ لاہور میں نیب کے احاطے میں ابھی پوچھ گچھ جاری تھی ۔

O۔ مذکورہ بالا نمونوں سے پتہ چلتا ہے کہ 12.03.2020 کی کارروائی کا مقصد جوابات یا وضاحتیں یا دستاویزات حاصل کرنا نہیں تھا بلکہ صرف اور صرف غیر سنجیدہ مقاصد کے لئے جوابات سننے اور معاون دستاویزات کاجائزہ لینے کی زحمت کیئے بغیر پاکستان میں سب سے بڑے میڈیا گروپ کے چیف ایڈیٹر کو گرفتار کرنا اور ان کو ذلیل کرنا تھا۔

P واضح طور پر جواب دہندگان نے پہلے ہی درخواست گزار کو ان کے سوالات کے جوابات دینے سے پہلے ہی ان کی گرفتاری کا فیصلہ کر لیا تھا ، اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ درخواست گزار کی گرفتاری نیب کے ذریعہ اختیارات اور عہدے کا سب سے زیادہ ظالمانہ غلط استعمال ہے ، اور 1973 کے آئین اور قانون کے تحت درخواست گزار کے حقوق سے انکار ہے۔

Q NAB نیب کا طرز عمل درخواست دہندگان کے حقوق کی خلاف ورزی کے مترادف ہے جیسا کہ ضمانت دی گئی ہے ، دوسری باتیں ، آرٹیکل 4 ، آرٹیکل 9 ، آرٹیکل 10 ، آرٹیکل 10-A ، آئین کے آرٹیکل 25 ، 1973 کے تحت۔

R . نیب کا طرز عمل بھی 08.10.2019 کو جاری کردہ نیب کے ایس او پی کی خلاف ورزی کے منافی ہے ، جو کسی بھی نیب اتھارٹی / آفیسر کے ذریعہ تمام کارروائیوں کے لئے پابند ہدایت / پالیسی رہنما خطوط فراہم کرتا ہے۔

نیب کی ناگوار گرفت اور پٹیشنر کی گرفتاری متنازعہ واقعہ ہے ، جب کہ اس کی ضرورت ہے کہ وہ 12.03.2020 کو شکایت کی توثیق کے مرحلے پر کچھ سوالات اور سوالات کے جوابات کے لئے حاضر ہوں۔ جو جوابات دیتے ہیں ، جواب دہندہ نمبر 4 (لاہور میں) ایک رائے بنائے گا اور اگر جوابات سے غیر مطمئن ہوں تو اپنی آزاد اور باخبر رائے کا اطلاق کرنے کے لئے یہ پورا معاملہ جواب دہندگان نمبر 1 (اسلام آباد میں) کو جائزہ لینے کے لئے بھیجے گا۔ واقعتا یہ ہوا تھا کہ جب 12.03.2020 کو درخواست گزار سے ابھی تک لاہور میں پوچھ گچھ کی جارہی تھی اور جواب دہ نمبر 4 (لاہور میں) کی سطح پر کوئی حتمی نتیجہ برآمد نہیں ہوا تھا ، وارنٹ آف وارنٹ (مورخہ 12.03.2020) بھی تھا نیب حکام درخواست گزار کی گرفتاری کی اجازت دینے کے لئے پہلے ہی اسلام آباد پہنچے تھے جن کو نہ تو کوئی حتمی رپورٹ پیش کی گئی تھی اور نہ ہی اس کیس کے بارے میں کوئی رائے دینے کی کوئی بنیاد تھی۔ اس کے بجائے نیب حکام اسلام آباد سے وارنٹ گرفتاری کیلئے اسلام آباد سے لاہور پہنچے۔ یہ سب غیر مہذب اور ناپاک جلدی میں کیا گیا تھا۔

T معاملہ واضح طور پر محض نیب کے اپنے مفاد پرست مفاد اور ایجنڈے کے ساتھ مزید تفتیش کا ایک ہے ، ایس او پی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ، درخواست گزار کی غیرضروری گرفتاری کی بنیاد ہے۔

درخواست گزار کو خطرہ ہے کہ وہ اپنی جان اور آزادی کے ضیاع کی اپنی طرف سے کسی غلطی کے بغیر ہے جو درخواست گزار کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے جیسا کہ آئین 1973 کے تحت تصور کیا گیا ہے اور اس کی ضمانت دی گئی ہے۔

V. درخواست گزار مختلف بیماریوں میں مبتلا ہے جس میں اس کی قید کی جگہ پر فی الحال دستیاب سہولیات ناکافی ہیں۔ اس کی مسلسل نظربندی سے اس کی حالت اور صحت کی خرابی میں مزید اضافہ ہوجائے گا، ضروری طبی امداد حاصل کرنے کے لئے اسے جلد ہی رہا کردیا جائے گا۔

(درخواست گزار سے متعلق کچھ میڈیکل سرٹیفکیٹس کی کاپیاں جن کے ساتھ ضمیمہ E / 1 - E / 2 شامل ہیں)

W. ہر ملزم جب تک قصوروار ثابت نہیں ہوتا معصوم ہے۔ لہذا ، اس مرحلے پر ، درخواست گزار کو کسی بھی ذمہ داری کے ساتھ قید نہیں کیا جاسکتا جب اس کے خلاف بے بنیاد الزامات کو ابھی ثبوت کے امتحان میں ڈالنا باقی ہے۔ شک کا فائدہ ہر مرحلے پر درخواست گزار کو دینا ضروری ہے۔

درخواست گزار کو محدود رکھتے ہوئے جو بھی مقصد پیش کیا جائے گا۔ آخر میں اگر درخواست گزار اپنے اوپر لگائے گئے الزامات سے بری ہوجاتا ہے ، تو پھر قید کی مدت گزارنے کی کبھی بھی تلافی نہیں کی جاسکتی ہے جو انصاف کے منافی ہے۔

Y اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ نام نہاد 'شکایت کی توثیق' عمل پیٹیشنر کے خلاف ریفرنس دائر کرنے میں انجام پاسکے جو نہ تو سابقہ مجرم ہے اور نہ ہی سخت مجرم ہے۔

Z فوری مقدمہ دستاویزی ثبوتوں پر مبنی ہے جو ایل ڈی اے کے پاس دستیاب ہے۔ اس معاملے میں ریکارڈ یا گواہوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

AA کہ یہ سارا ریکارڈ ایل ڈی اے کے پاس موجود ہے، اور کافی قدیم ہونے کی وجہ سے ، اس ریکارڈ کے ساتھ کسی بھی طرح کی چھیڑ چھاڑ یا گواہوں کو تبدیل کرنے یا متاثر کرنے کا کوئی امکان نہیں ہے اور درخواست گزار کو کوئی بازیابی حاصل نہیں ہے۔

bb درخواست گزار اس معزز عدالت کے مکمل اطمینان کے لئے خاطر خواہ سیکیورٹی فراہم کرنے پر راضی ہے،ان شرائط کے تابع ، جیسے ضمانت دینے کے وقت مقرر کیا گیا ہو۔

CC یہ کہ درخواست گزار فوری درخواست کی سماعت کے وقت اضافی بنیادوں پر زور دینے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔

30۔ یہ کہ درخواست گزار کے پاس اس کے علاوہ کوئی دوسرا متبادل ، مناسب اور موثر علاج نہیں ہے کہ وہ اس معزز عدالت کو آئین کے آرٹیکل 199 under کے تحت اپنے آئینی دائرہ اختیار میں منتقل کرے ، کیونکہ وہ اس معزز عدالت کے دائرہ اختیار میں غیر قانونی اور غیر قانونی گرفتاری اور نظربند ہے۔ چونکہ نیب ایک قانونی ادارہ ہے اور فیڈریشن کے امور کی کارکردگی سے وابستہ ہے ، لہذا اس معزز عدالت کو آئین کے آرٹیکل 199 ، 1973 کے تحت اس معاملے کا دائرہ اختیار حاصل ہے ، کسی اور عدالت کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ پٹیشنر کو رہا کرے۔ جیسا کہ 'خان اسفند یار ولی بمقابلہ ایف او پی' پی ایل ڈی 2001 ایس سی 607 کے عنوان سے معزز سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں۔

لہذا ، انتہائی احترام کے ساتھ یہ دعا کی گئی ہے کہ یہ معزز عدالت خوش ہو۔

(i) فوری درخواست قبول کریں

وارنٹ آف گرفتاری کا اعلان 12.03.2020 کو غیر قانونی ، صوابدیدی ، غیر قانونی طور پر اسے الگ کرنے کے لئے اعلان کریں۔

(iii) اعلان کریں کہ 13.03.2020 کے آرڈر کی وجوہات فراہم کرنے سے انکار کرتے ہوئے جواب دہ نمبر 3 کا طرز عمل (اور اس کے بعد جاری کردہ احکامات) غیر قانونی، بغیر کسی قانونی اختیار کے تھے

(iv) ایسی شرائط پر درخواست گزار کی فوراً رہائی کی ہدایت کریں ۔

(v) جواب دہندگان / نیب حکام کو مورخہ 08.10.2019 کی رہنما خطوط کی خلاف ورزی کرنے پر عمل کرنے سے روکیں یا درخواست گزار کو کسی بھی طرح سے ان الزامات کے ساتھ کسی کارروائی میں گرفتاری سے روکنا جو فوری درخواست کے تابع ہیں۔

(vi) معزز عدالت مقدمے کے حالات میں مناسب سمجھے اوردرخواست گزار کو اس طرح کی دوسری ریلیف عطا کریں ۔

درخواست گزار

(فی الحال محدود ہے نیب کمپلیکس ، تھوکھر نیاز بیگ ، ملتان روڈ ، لاہور)

(پاور آف اٹارنی نے دستخطی اور اس کے ساتھ ضم شدہ تصدیق نامہ)

کے ذریعے

اعتزاز احسن اینڈ ایسوسی ایٹس

6A / 1 زمان پارک ،

کینال بینک ، لاہور۔

سرٹیفیکیٹ:

موکل کی ہدایت کے مطابق درخواست گزار کی گرفتاری کے بعد یہ پہلی درخواست ہے۔

ii. یہ پٹیشن قانون میں اہل ہے اور اس میں عارضی حقائق اور معاملے کے حالات کے بارے میں درخواست گزار کے پاس کوئی متبادل ، مناسب اور موثر علاج دستیاب نہیں ہے۔

ایڈوکیٹ

نوٹ:آفس سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ 2020 کے ڈبلیو پی نمبر 15993 کی فائل ‘مسز کے عنوان سے رکھیں۔ شاہینہ شکیل بمقابلہ چیئرمین ، نیب ، وغیرہ ’فوری طور پر اس کیس کے ساتھ اس معزز عدالت کے روبرو زیر التوا ہے ، جو اس سے قبل 26.03.2020 کو سماعت کے لئے مقرر کی۔


میر صاحب نیب مقدمہ۔۔۔۔۔۔۔بیدار بٹ صاحب کے لئے


رٹ پٹیشن نمبر17809/2020

میر شکیل الرحمان درخواست گزار/ پٹیشنر

ورسز چیئرمین نیب

درخواست گزار/ پٹیشنر کی طرف سے کوڈ آف سول پروسیجر کی سیکشن151، فائلنگ کیلئے1908 قانون کی دیگر پرویژن کے تحت انہیں پڑھا جائے، مزید ریلیف اور نتائج کیلئے اضافی دستاویزات کو ریکارڈ میں شامل کیا جائے۔

عزت مآب!

پیرا وائز کمنٹس

1: میٹر آف ریکارڈ

2: تردید۔ بزنس مین کیلئے جاری گائیڈ لائنز اور ڈائیریکٹوز مقدمے کے حقائق کے تعارف کے ساتھ، این اے او1999کی پرویژن کے تحت یہ پالیسی ملزم نامزد کیے گئے افراد کیلئے نہیں۔ میر شکیل الرحمان کو قانون اور ایس او پی کے تحت تمام مطلوبہ معیار کو پورا کرنے کے بعد طلب کیا گیا۔ ملزم پٹیشنرکو چیئرمین نیب کے جاری کردہ وارنٹ گرفتاری کی تعمیل میں مکمل انکوائری کی اجازت کے بعدگرفتارکیا گیا، انہیں کسی بزنس ٹرانزکیشن کی وجہ سے گرفتار نہیں کیا گیا، بلکہ انہیں خزانے کو نقصان پہنچاکر فائدہ ا ٹھانے کی وجہ سے گرفتار کیا گیا، جواب دہندگان کو جواب دیتے ہوئے آئین اور قانون کی کسی طرح بھی خلاف ورزی نہیں کی گئی۔

3: پٹیشنر کی اہلیہ نے پٹیشن نمبر15993/2020فائل کی جس میں پیرا کے تمام مواد کو قبول کیا ،پیرا کے دیگر مواد کو غلط قرار دے کر اس سے انکار کیا ۔

4:یہ کہ پیرا 4کے مواد کو اس حد تک تسلیم کیا کہ پٹیشنر کی اہلیہ نے پٹیشن فائل کی اور آنر ایبل کورٹ نے16.03.2020کو آرڈرز جاری کیے، باقی ماندہ پیرا غلط ہونے کی بنیاد پر مسترد کر دیا۔

5: اس حد تک انکار کیا کہ لاہور کی فاضل احتساب عدالت نے25.03.2020کو دوسرا ریمانڈآرڈر غیر قانونی طور پر جاری کیا ۔ احتساب عدالت کے فاضل ایڈمنسٹریٹر جج نے ملزم میر شکیل الرحمان کے وکیل اور نیب کے پراسکیوٹر کے تفصیلی دلائل کی سماعت اور ریکارڈ کے جائزے کے بعد نیب کو ملزم میر شکیل الرحمان کےجوڈیشل ریمانڈ میں توسیع دی، باقی سب ریکارڈ کا حصہ ہے۔

6: دوسرا ریمانڈ غیر قانونی تھا

7: تردید

اے:ملزم میر شکیل الرحمان نے پہلی بارحاکم علی، ہدایت علی و دیگر سے اپنے نام GPA 22مئی1986کو کی اور اس کے صرف تیرہ دن بعد4جون1986کو ڈی جی ایل ڈی اے کو ایک درخواست دی جس میں مذکورہ اراضی پر عبوری ڈیویلپمنٹ کی اجازت طلب کی گئی تھی،اس روز(04.06.1986) کو اس وقت کے ڈی جی ایل ڈی اے نے ڈائریکٹر لینڈ ڈویلپمنٹ کو یہ درخواست ان ریمارکس کے ساتھ مارک کی’’ جتنا جلد ہو سکتا ہے سی ایم کیلئے ڈرافٹ سمری پیش کرو‘‘ جس پر سمری تیا ر کی گئی اورڈی جی ایل ڈی اے نے اس وقت کے وزیر اعلیٰ میاں نواز شریف کو چیئرمین ایل ڈی اے ہونے کی بنا پر منظوری کیلئے ارسال کر دی ۔ اس لیے حقیقت میں ملزم میر شکیل الرحمان نے سرکاری افسران کی ملی بھگت سے چھوٹ پالیسی کی متعدد خلاف ورزیاں کرتے ہوئے غیرقانونی طور پر چھوٹ پلاٹس حاصل کیے۔

بی: تردید۔ رٹ پٹیشن17809/2020 کی رپورٹ کے مواد سے ایک بار پھر انکار کیا جا تا ہے۔

سی: تردید۔ ملزم میر شکیل الرحمان نے سرکاری افسران کی ملی بھگت سے ایل ڈی اے( قومی خزانہ ) کو نقصان پہنچا یا، ملزم پٹیشنرنے ایک ایک کنال کے چون پلاٹس کو ایک بلاک میں اکٹھا کیا، اس میں گلیاں بھی شامل تھیں ، حلانکہ وہ ایک ایک کنال کے پندرہ پلاٹس کے حقدار تھے ان کا باقی حق چھوٹے سائز کے پلاٹوں کیلئے تھا جن میں 12مرلہ،7مرلہ،5مرلہ اور تین مرلہ وغیرہ شامل تھے، ملزم پٹیشنر کا یہ جرمNAO1999کے دائرے میں آتا ہے۔ تردید غلط فہمی کا نتیجہ ہے۔ مذکورہ ہدایات ملزم درخواست گزار کے کیس میں قابل عمل نہیں۔

8: تردید غلط فہمی کا نتیجہ، سپریم کورٹ نے اس موضوع پر30.03.2020 کو ذیل کا آرڈر جاری کیا۔ متعلقہ سطور یہاں ریفرنس کی تیاری کیلئے شامل کی جاتی ہیں ۔

۲: اس وقت تک کوئی بھی ہائی کورٹ، کوئی بھی صوبائی حکومت/ آئی سی ٹی/ گلگت بلتستان کسی قیدی کو جیل سے رہا نہیں کر سکتے۔ اگر قیدیوں کی رہائی کے بارے میں کوئی بھی حکم جاری ہوا تو اس پر عمل نہیں ہو گا اس پر اس عدالت کے مزید احکامات تک عمل نہیں ہو گا۔

9: تردید: استدعا ہے اس درخواست کو خارج کیا جائے۔

جواب دہندہ ( نیب )کی طرف سے

محمد عابد حسین

آئی او/ اسسٹنٹ ڈایئریکٹر

نیب لاہور

بوساطت

سپیشل پراسیکوٹر( ایچ سی)

نیب لاہور


لاہور ہائی کورٹ


رٹ پٹیشن نمبر 17809/2020

میر شکیل الرحمان( درخواست گزار )

بنام

چیئرمین نیب وغیرہ (مسو ل علیان )

مسو ل علیان نمبر 1,2,4,5,6اور 7کی جانب سے رپورٹ اور پیرا وائز کمنٹس


مودبانہ گزارش ہے کہ ،

ابتدائی گزارشات (1)درخواست گزار کسی ایک بھی حق کی پامالی کی نشاندھی کرنے میں ناکام رہا ہے ،جس کی آئین نے ضمانت دی ہو،وہ جھوٹے اور بے بنیاد الزامات لگا رہا ہے جوکہ معمولی نوعیت کی قیاس آرائیوں اور مفروضوں پر مبنی ہیں جبکہ دوسری جانب ملزم کے خلاف قانون کے عین مطابق تحقیقات چل رہی ہیں۔

(2)ریکارڈ کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں قانون کی کوئی کمزوری یا دارہ کار کا کوئی سقم موجود نہیں ہے ،جس سے اس معاملے میں مداخلت کا کوئی جواز ہو،درخواست گزاراپنے حق میں کسی بھی قسم کی استثنیٰ کے حالات کی جانب اشارہ کرنے میں بری طرح ناکام ہو گیا ہے ،مسول علیہ( نیب) قانون کے اندر رہ کر اپنی تحقیقات کررہی ہے اور کیس زیر تفتیش ہے ،اندریں حالات ضمانت دیکر اس تحقیقات کا گلہ نہیں کاٹنا چاہیئے اس لئے فاضل عدالت کی جانب سے یہ درخواست خارج کرنے کے لائق ہے ۔

(3)بیان کیا جاتا ہے کہ درخواست گزار کی جانب سے جس داد رسی کا دعویٰ کیا گیا ہے اگر اس پر عمل کیا گیا تو وہ نیشنل اکائونٹبلٹی آرڈیننس 1999کی دفعہ 9بی کو کالعدم کرتے ہوئے اسے بیکار اور بے معنی کردے گا جس کی قانون کی نظر میں اجازت نہیں ہے ،

(4)یہ کہ یہ درخواست خفیہ مقاصد کے لئے دائر کی گئی ہے جس کا مقصد سماعت میں رکاوٹ ڈالنا ہے ،

(5)یہ کہ درخواست گزار اپنے جواب میں مجاز عدالت کی جانب سے جاری کئے گئے حکم کے حوالے سے کسی بھی قسم کی قانون شکنی یا بے قاعدگی کی نشاندھی کرنے میں بری طرح ناکام ہوگیا ہے،عدالت کا یہ حکم مکمل طور پر قانون کے مینڈیٹ کے مطابق ہے ۔

(6)یہ کہ آئین کے آرٹیکل 199کے تحت دائرہ کار محدود ہوتا ہے ،کیونکہ پبلک فنکشنری وہ کررہے ہیں جس کا قانون تقاضہ کرتا ہے ،اس لئے یہ درخواست خارج کئے جانے کے لائق ہے ۔

(7)یہ کہ درخواست گزار نے اپنی درخواست میں حقائق کے تضادات بیان کئے ہیں تاہم یہ ایک مسلمہ قانون ہے کہ عدالتیں ایسے معاملات میں اپنے آئینی دائرہ کار میں پراسیکیوشن پر دبائو نہیں ڈالتیں ،تاکہ کرمنل پروسیجر کے راستے میں کوئی مداخلت نہ ہوسکے اور اس کا رخ نہ موڑا جا سکے ۔

(8)یہ کہ درخواست گزار مسول علیان کے خلاف بدنیتی اور بے ایمانی کے حوالے سے اپنے جعلی ،مبہم اور بے بنیاد الزامات کوثابت کرنے میں ناکام رہا ہے ،جس کی بنیاد پر اس نے یہ داد رسی طلب کی ہے ،لہٰذا ان حالات میں ،نہایت اداب سے گزارش ہے کہ یہ درخواست اعلیٰ عدالتوں کی جانب سے طے شدہ طریقہ کار کے معیار پر پوری نہیں اترتی ہے ،ا ور خارج کردینے کے لائق ہے ،

(9)مزید براں یہ بھی ذہن میں رکھا جائے کہ نیب کا کام بدعنوانی کی بیخ کنی کرنا ہے ، یہ کوئی عام نوعیت کا جرم نہیںہے اور نہ ہی اس میں ملوث شخص کوئی عام آدمی ہے جبکہ یہ کسی ایک فرد کے خلاف جرم نہیں بلکہ پورے ،معاشرہ کے خلاف جرم ہے ،لہٰذا اس کاجواب بھی جارحانہ انداز میں دیا جانا چاہیئے ۔

رپورٹ

(1)نیب کو 26دسمبر2019اور 10فروری 2020کو دو شکایات موصول ہوئیں جن میں الزام عاید کیا گیا کہ ملزم میر شکیل الرحمان نے بطور جنرل پاور آف اٹارنی (جسے آئندہ جی پی اے لکھا جائے گا ) ہولڈر حاکم علی ،ہدایت علی وغیرہ کو غیر قانونی طور پر الاٹ کئے گئے 54پلاٹس ،فی پلاٹ 1کنال ،جن میں سے 9پلاٹوں کا منہ نہر کی جانب ہے ،بلاک ایچ ایم اے جوہر ٹائون لاہور میں ،180کنال 18مرلے جوکہ موضع نیاز بیگ میں واقع تھی ،کے تبادلہ میں لی تھی ،اور اس پر غیر قانونی ستثنیٰ لیا تھا ،یہ الزام بھی تھا کہ ملزم میر شکیل الرحمان پر یہ مہربانی اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب میاں نواز شریف نے متعلقہ قاعدہ ، قوانین میں استثنیٰ دیتے ہوئے کی تھی ، چیئرمین نیب نے 10فروری 2020 کو اس شکایت کی تصدیق کی اجازت دی تھی ،

(2)یہ کہ شکایت کی تصدیق کے بعد معاملہ چیئرمین نیب کے سامنے رکھا گیا تھا جنہوںنے میر شکیل الرحمن، سابق وزیر اعلیٰ پنجاب میاں نواز شریف اور ایل ڈی اے کے افسران اور اہلکاروںکے خلاف 12 مارچ کو

لیٹر نمبرNo 3-1(1)(7599)L/MW-1/NAB HQ /2020جاری کرتے ہوئے انکوائری کی اجازت دی اور میرشکیل الرحمان ککی گرفتاری کے وارنٹ جاری کئے ،جس کی روشنی میں انہیں اسی روز ہی گرفتار کرلیا گیا ۔

(3)یہ کہ دوران کارروائی انکشاف ہوا ہے کہ موضع نیاز بیگ میں 180کنال 18مرلہ اراضی جوکہ محمد علی کی تھی کو 9اکتوبر 1982میں ایل ڈی اے نے ایم اے جوہر ٹائون فیز ٹو کے لئے ایکوائر کیا تھا ،محمد علی کی وفاقت کے بعد لینڈ ریکوزیشن کلکٹر کے حکم پر18فروری 1986کو ایوارڈ اس کے قانونی ورثاء حاکم علی ،ہدایت علی ،سرور علی ،جہانہ بی بی ،وزیر بیگم ،عنایت بی بی اورت حمیدہ بیگم کے نام تبدیل کیا گیا تھا ،

(4)یہ کہ ملزم میر شکیل الرحمان نے22مئی 1986کو پہلے حاکم علی ،ہدایت علی وغیرہ سے جنرل پاور آف اٹارنی اپنے نام پر لیا تھا لیکن اس کے صرف 13دن کے بعد یعنی 4جون 1986کو اس وقت کے ڈی جی ،ایل ڈی اے کو ایک درخواست میں ان سے اس اراضی کی عبوری تعمیرات کی اجازت طلب کی ،اسی روز ہی ڈی جی نے وہ درخواست ڈائریکٹر لینڈ ڈیولپمنٹ کو ان ریمارکس کے ساتھ مارک کیPut up draft summery for CM ,as urgent as possibleاس کے بعد سمری تیار ہوئی اور ڈی جی کو وزیر اعلیٰ کی بطور چیئرمین ایل ڈی اے منظوری کے لئے فارورڈ کی گئی ،اس لئے یہ بات سچ ہے کہ ملزم میر شکیل الرحمان نے ایک عوامی نمائندے کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے استثنیٰ کی پالیسی کو پامال کرتے ہوئے پلاٹوں پر یہ استثنیٰ لیا ہے ۔

(5)یہ کہ اس وقت کے ڈی جی ایل ڈی اے کی سمری کا جائزہ لینے کے بعد انکشاف ہوا ہے کہ اس سٹیج پر عبوری ڈیولپمنٹ نہیں کی جاسکتی تھی ،کیونکہ اراضی کے حصول کی کارروائی پہلے ہی حتمی شکل اختیار کرچکی تھی اور ایل ڈی اے قبضہ لے چکی تھی ،درخواست گزار اپنی اراضی کے پلاٹوں کے 30 فیصد تک ڈیویلپمنٹ کا حق رکھتا تھا ،تاہم سمری کے مطابق اس میں تجویز پیش کی گئی کہ درخواست گزار کو 54پلاٹوں جنکا رقبہ فی پلاٹ ایک کنال کا ہے ،جن میں سے 9کا منہ نہر کی جانب ہے کو عبوری ڈیویلپمنٹ کا استثنیٰ دیا جاتا ہے،سمری میں اس بات کا بھی ذکر موجود ہے کہ درخواست گزار کی کل اراضی 180کنال 18مرلہ موضع نیاز بیگ میں سے 33 کنال نہر کنارے واقع تھی لیکن اس کا بڑاحصہ نہر کنارے سے دور اور مجوزہ سوک سنٹر کے قریب تھا ،اس سمری میں ڈی جی نے ذکر کیا ہے کہ درخواست گزار نے اس سے ملاقات کے دوران خواہش ظاہر کی تھی کہ اسے 30 فیصد نہر کنارے اراضی پر استثنیٰ دیا جائے ۔

(6)سمری میں یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ ڈی جی نے تجویز پیش کی تھی کہ درخواسست گزار کو 54پلاٹوں جوکہ ایک کنال سنگل بلاک میں تھا اور 9نہر کی جانب تھے استثنیٰ دیا جائے ،اس نے ان پلاٹوں سے گزرنے والی دو گلیوں کو بھی ان پلاٹوں میں شامل کرنے کا ذکر بھی کیا ہے ،جس سے پلاٹوںکا سائز بھی بڑا ہوگیا تھا ،ڈی جی نے یہ بھی شامل کیا کہ اس تجویز کو خصوصی کیس کے طور پر لیا جائے اور آئندہ کبھی بھی اس کا حوالہ بطور نظیر پیش نہ کیا جائے ،11جولائی 1986کو اس وقت کے وزیر اعلیٰ نواز شریف نے سمری کی منظوری دی ،منظوری کے بعد 54پلاٹوں کا استثنیٰ حاکم علی اور ہدایت علی وغیرہ کو دیا گیا تھا 5اگست 1986 کو میر شکیل الرحمان کو پاور آف اتارنی دیا گیا ،

(7)میر شکیل الرحمان نے حاکم علی اور ہدایت علی وغیرہ کے پاور آف اٹارنی ہولڈر کے طور پر 28ستمبر1986کو یہ 54 پلاٹ مبلغ 18لاکھ روپئے کے عوض اپنی اہلیہ اور بچوںکے ہاتھ فروخت کئے تاہم سرور علی کے بیان کے مطابق ایک قانونی وارث کی اراضی57لاکھ 91ہزار روپئے کے عوض فروخت کی گئی تھی ،

(8)یہ کہ 1988میں( میر شکیل الرحمان کی اہلیہ )مسماة شاہینہ شکیل ،(بیٹے) میر ابراہیم شکیل اور ملزم میر شکیل الرحمان نے بذات خود( اپنے دیگر کم عمر بچوں کی جگہ پر )قرار دیا کہ ہم یہ اراضی پیار ومحبت میں میر شکیل الرحمان کو دینا چاہتے ہیں ،جس پر 2دسمبر1988کو یہ 54پلاٹ میر شکیل الرحمان کے نام پر منتقل ہوئے ،

(9)اس وقت 54استثنیٰ شدہ پلاٹس بمع دو گلیاں ایک بڑے پلاٹ میں تبدیل ہوچکی ہیں جوکہ تقریبا58کنال 18مرلہ بنتے ہیں،

(10)پلاٹوں کی الاٹمنٹ میں غیر قانونی استثنیٰ

ایم اے جوہر ٹائون کی استثنیٰ پالیسی کی دفعہ C(11)کے تحت ہدایت علی وغیرہ ایک کنال کے 15پلاٹوں پر استثنیٰ کے حق دار تھے جبکہ بقایا انٹائٹل منٹ نچلے درجہ کے 3,5,7اور 12مرلہ کے پلاٹوں پر بنتی تھی ،تاہم اس خصوصی کیس میں جنرل پاور آف اٹارنی کے حامل میر شکیل الرحمان کو 54پلاٹوں کو ایک ہی سنگل بلاک میں اکٹھا کرکے ان پر استثنیٰ دینا غیر قانونی اور استثنیٰ پالیسی کے خلاف تھا،

(11)اس پالیسی کی کلاز (f)بیان کرتی ہے کہ ہر ممکن کوشش کی جائے کہ استثنیٰ والے کو اسی جگہ پر پلاٹ مختص کیا جائے جہاں سے اراضی حاصل کی گئی ہے ،تاہم اس خصوصی کیس میں ایل ڈی اے نے ایسی کوئی کوشش نہیں کی ہے بلکہ اس کی بجائے ہدایت علی وغیرہ کی 3مختلف مقامات پر بکھری ہوئی اراضی کے بدلے 54کنال اراضی کا ایک اچھا ٹکڑا ملزم میر شکیل الرحما ن کو دے دیا،۔

(12)یہ کہ 54کنال کے رقبہ میں دو گلیاں شامل کرکے سب کو ایک بہت بڑے پلاٹ کی شکل دینے کا عمل لے آوئوٹ پلان کی خلاف ورزی تھی ،

(13)یہ کہ ڈی جی نے وزیر اعلیٰ کو بھجوائی گئی سمری میں بیان کیا ہے کہ اس تجویز کو خصوصی کیس کے طور پر لیا جائے اور آئندہ اسے بطور نظیر پیش نہ کیا جائے ،

(14)یہ کہ کیس کی انکوائری چل رہی ہے ،جسے جلد ہی حتمی شکل دے دی جائے گی،

(15)یہ کہ12مارچ کو میر شکیل الرحمان کی گرفتاری کے اگلے روز ان کا جسمانی ریمانڈ لینے کے لئے انہیں احتساب عدالت میں پیش کیا گیا تھا ،عدالت نے 25مارچ تک کا ریمانڈ دیا تھا جس کے خاتمے پر دوبارہ عدالت نے 7اپریل تک کا ریمانڈ دیا ہے ۔


پیرا وائز کمنٹس

1ریکارڈ کامعاملہ ہے ، 2تا5غلط ،غلط فہمی پر مبنی اور غیر متعلقہ ہونے کی بنیاد پر انکار کیا جاتا ہے ،6,7غلط ہونے کی بنیاد پر انکار کیا جاتا ہے ،8 Denied for want of knowledge ،(9)غلط ،غلط فہمی پر مبنی اور غیر متعلقہ ہونے کی بنیاد پر انکار کیا جاتا ہے،(10)Denied for want of knowledge،(11)غلط ہونے کی بنیاد پرسختی سے انکار کیا جاتا ہے،(12)غلط فہمی کی بنیاد پر انکار کیا جاتا ہے،(13) Denied for want of knowledg،(14)جس پیرے کا جواب دینا ہے ،یہ ترمیم شدہ آرڈیننس 27دسمبر2019سے متعلق ہے جبکہ بقایا تمام پیراغلط فہمی پر مبنی ہے اس سے انکا رکیا جاتا ہے ،(15)یہ ریکارڈ کا معاملہ ہے غلط فہمی پر مبنی ہے اس لئے انکار کیا جاتاہے ،(16)ڈائریکٹیو /پالیسی گائیڈ لا ئن ایسے بزنس مین کے لئے ہے جوکہ اس کیس کے حقائق سے آگاہ ہو، نیب آرڈیننس کے تحت یہ پالیسی ایک نامزد ملزم کے لئے نہیں ہے ، 17غلط ہونے کی بنیاد پر انکار کیا جاتا ہے،کیونکہ ملزم کو قانون کے مطابق طلب کیاگیا تھا ،اور تمام تر قانونی تقاضے پورے کئے گئے تھے ،18انکار کیا جاتا ہے ، یہ کہ 18فروری2020کو نوٹس جاری کیا گیا تھا،نوٹس جامع تھا ،جس میں ملزم کے خلاف الزامات کا ذکر کیا گیا تھا ، تاہم ملزم تفتیشی کو انٹر ویو کے دوران اپنے جوابات سے مطمئن کرنے میں ناکام رہا ہے ،اور مطلوبہ معلومات فراہم کرنے کے لئے کچھ مہلت طلب کی تھی ،جس پر اسے ایک سوالنامہ دیا گیا اور 12مارچ کو دوبارہ طلب کیا گیا ،(19)انکار کیا جاتا ہے ، ساری کارروائی سختی سے قانون کے مطابق کی گئی ہے ،(20)انکار کیا جاتا ہے ، ملزم کو سمن کے ہمراہ سوالنامہ دیا گیا تھا ، جبکہ پہلی حاضری پرمزید سوالات بھی مہیا کئے گئے تھے ،اور یہ بات قابل ذکر ہے کہ ملزم نے وہ سوالنامہ میڈیا کو بھی دکھایا تھا، (21)غلط ہونے کی بنیاد پر انکار کیا جاتا ہے،اس میں ابتدائی گزارشات ،رپورٹ اور سابق پیرا گراف کا متن دھرایا گیا ہے ،(22)انکار کیا جاتا ہے ،(23)انکار کیا جاتا ہے ،درخواست گزار میر شکیل الرحمان کو چیئرمین نیب کی جانب سے انکوائری کی اجازت دینے کے بعد گرفتاری کے وارنٹ جاری ہونے پر گرفتار کیا گیا تھا (24)انکار کیا جاتا ہے ،ایسا کوئی حق جس کی ضمانت آئین نے دی ہو،مسول علیان کی جانب سے اس کی پامالی نہیں کی گئی ہے ،ملزم نے جب بھی کہا ہے اسے وکیل تک رسائی دی گئی ہے ،جبکہ خاندان سے ملاقاتیں کرنے کا موقع بھی دیا گیا ہے ،ملزم کو مجاز اتھارٹی کی جانب سے انکوائری کی اجازت ملنے اور وارنٹ گرفتاری کے اجراء کے بعد گرفتار کیا گیاتھا ،(25)انکار کیا جاتا ہے ،احتساب عدالت کے جج کے سامنے مقدمہ کا ریکارڈ رکھا گیا تھا جنہوںنے اس کی روشنی میں اور ملزم کے وکیل کے لمبے چوڑے اور تفصیلی دلائل اور پراسکیوٹر جنرل نیب کا موقف سننے کے بعد ملزم کا 12دنوں کا جسمانی ریمانڈ دیا تھا ،جبکہ عدالت نے اس سے قبل انہیں اپنے وکیل کے ساتھ مشاورت کا موقع بھی دیا تھا،27انکار کیا جاتا ہے ، 26دسمبر2019سے شکایت کی تصدیق کا معاملہ چل رہا تھا ،(26) انکار کیا جاتا ہے،اس میں ابتدائی گزارشات ،رپورٹ اور سابق پیرا گراف کا متن دھرایا گیا ہے،(27)انکار کیا جاتا ہے ،26دسمبر2019سے شکایت کی تصدیق کا معاملہ چل رہا تھا چیئرمین نیب کو وقتا فوقتاتمام مقدمات، بالخصوص اہم مقدمات کے حوالے س بریفننگ دی جاتی ہے،اس لئے چیئرمین نیب نے اس معاملے پر کافی غور وخوص کیا تھا اور وہ ابتدائی سٹیج ہی اس کیس کے حقائق سے واقف تھے ،انہوںنے اس کیس میں وارنٹ گرفتاری کے اجراء سے قبل مناسب انداز میں اپنا ذہن استعمال کیا ہے ،جبکہ احتساب عدالت کے جج نے ملزم کے وکیل کے لمبے چوڑے اور تفصیلی دلائل اور پراسکیوٹر جنرل نیب کا موقف سننے کے بعد ملزم کا 12دنوں کا جسمانی ریمانڈ دیا تھا ،(28)ریکارڈ سے متعلق ہے ، 29انکار کیا جاتا ہے ۔

گراؤنڈز

A:، غلط ہونے کی بنیاد پرانکار کیا جاتا ہے،اس میں ابتدائی گزارشات ،رپورٹ اور سابق پیرا گراف کا متن دھرایا گیا ہے،

B؛،انکار کیا جاتا ہے،اس میںرپورٹ اور سابق پیرا گراف کا متن دھرایا گیا ہے،

C:،سختی سے تردید کی جاتی ہے ،یہ کہ ملزم کے خلاف کارروائی قانون اور ایس او پیز کے عین مطابق کی گئی ہے ،ملزم کو مناسب طریقے سے طلب کیا گیا تھا ،سوالنامہ فراہم کیا گیا ،انکوائری کی اجازت مجاز اتھارٹی نے دی تھی جس کے بعدوارنٹ گرفتاری کے اجراء کے بعد ہی گرفتار کیا گیا تھا ،بعد میں معینہ وقت کے اندر اندر ملزم کو احتساب عدالت مں پیش کیا گیا تھا مسول علیان کی جانب ملزم کے جسمانی ریمانڈ کی درخواست پر فیصلہ جاری کرنے سے قبل فاضل جج نے ملزم کو اپنے وکیل کے ساتھ مشاورت کا موقع دیا تھا ،جس کے بعد ملزم کے وکیل کے لمبے چوڑے اور تفصیلی دلائل اور پراسکیوٹر جنرل نیب کا موقف سننے کے بعد ملزم کا 12دنوں کا جسمانی ریمانڈ دیا تھا،مزید براں یہ کہ اس میں ابتدائی گزارشات ،رپورٹ اور سابق پیرا گراف کا متن دھرایا گیا ہے،

E؛،انکار کیا جاتا ہے ،ملزم میر شکیل الرحمان نے پہلے حاکم علی اور ہدایت علی وغیرہ سے 22مئی 1986کو پاور آف اٹارنی اپنے نام پر کروایا تھا ،اس کے صرف 13دن بعد ڈی جی ،ایل ڈی اے کو درخواست دیتے ہوئے ان سے اس اراضی کی عبوری ڈیولپمنٹ کی اجازت طلب کی ،اور اسی روز ہی ڈی جی نے بھی وہ درخواست ڈائریکٹر لینڈ دیولپمنٹ کو ان ریمارکس کے ساتھ مارک کردی ،Put up draft summery for CM ,as urgent as possible جسکے بعد سمری تیار کی گئی اس وقت کے وزیر اعلیٰ /چیئرمین ایل ڈی اے کی حتمی منظور ی کے لئے بھجوانے کے لئے اور ڈی جی کو فارو ڈکی گئی ،اس میں رپورٹ کا متن دھرایا گیا ہے،

F؛،انکار کیا جاتا ہے ،غلط فہمی پر مبنی ہے ،اس کیس کے حقائق واضح ہیں یہ اصول اس کیس میں لاگو نہیں ہوتا ہے ،

G؛،پوئنٹ 1تا6تک انکار کیا جاتا ہے ، ان میں ابتدائی گزارشات ،رپورٹ اور سابق پیرا گراف کا متن دھرایا گیا ہے،(7)انکار کیا جاتا ہے ،نیب نے مکمل طور پر قانون کے مطابق عمل کیا ہے،8,9انکار کیاجاتا ہے،

H؛، انکار کیا جاتا ہے ، یہ کہ ملزم کو مناسب وقت دیا گیا تھا لیکن وہ مطلوبہ معلومات فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے،

I:، انکار کیا جاتا ہے ، سماعت کا متن دھرایا گیا ہے ،

J؛، رپورٹ اور سابق پیرا گراف کا متن دھرایا گیا ہے،

K؛،غلط ہونے کی بناید پر انکار کیا جاتا ہے ، ابتدائی گزارشات ،رپورٹ اور سابق پیرا گراف کا متن دھرایا گیا ہے

L:، انکار کیا جاتا ہے ،2مارچ کو ملزم سوالنامہ کے مطابق اپنے جواب میں تفتیشی کو مطمئن نہ کرسکا،مزید براں مطلوبہ ہدستاویزات بھی پیش نہ کرسکا ،

M:، انکار کیا جاتا ہے ،قانون کے عین مطابق ملزم کو معقول دستیاب مواد کی بنیاد پر گرفتار کیا گیا ہے ،

Nسے لیکرRتک انکار کیا جاتا ہے ، ابتدائی گزارشات ،رپورٹ اور سابق پیرا گراف کا متن دھرایا گیا ہے،

S:، انکار کیا جاتا ہے ، شکایت پرتصدیق کا عمل 26دسمبر سے چل رہا تھا چیئرمین نیب کو وقتا فوقتاتمام مقدمات، بالخصوص اہم مقدمات کے حوالے سے بریفننگ دی جاتی ہے،اس لئے چیئرمین نیب نے اس معاملے پر کافی غور وخوص کیا تھا اور وہ ابتدائی سٹیج سے ہی اس کیس کے حقائق سے واقف تھے ، انکوائری سے قبل ملزم کے خلاف جو جو مواد دستیاب تھا ، انکے سامنے رکھا گیا تھا ،وارنٹ گرفتاری کے اجراء سے قبل شواہد اکٹھے کرنے کے بعد سارا ریکارڈ انہیں فیکس کیا گیا تھا ،انہوںنے اس کیس میں ملزم میر شکیل الرحمان اور دیگر کے وارنٹ گرفتاری کے اجراء سے قبل مناسب انداز میں اپنا ذہن استعمال کیا ہے ،

T :، انکار کیا جاتا ہے ، تما م تر کاروائی سختی سے قانون کے مطابق کی گئی ہے ،جبکہ ابتدائی گزارشات ،رپورٹ اور سابق پیرا گراف کا متن دھرایا گیا ہے،

U:، انکار کیا جاتا ہے ،درخواست گزار کا کوئی بھی حق پامال نہیں کیا گیا ہے جبکہ ابتدائی گزارشات ،رپورٹ اور سابق پیرا گراف کا متن دھرایا گیا ہے،

V:، انکار کیا جاتا ہے ، ملزم کو تمام تر طبی سہولیات فراہم کی جارہی ہیں، مزید براں یہ کہ ملزم نے کسی ایسی بیماری کا ذکر نہیں کیا ہے جس کا اس کی نیب کی تحویل میں علاج ممکن نہ ہو ؟

W:،انکار کیا جاتا ہے ، ملزم کے خلاف کافی مجرمانہ مواد موجود ہے ،

Y:، انکار کیاجاتا ہے ،جبکہ ابتدائی گزارشات ،رپورٹ اور سابق پیرا گراف کا متن دھرایا گیا ہے،

Z:،انکار کیا جاتا ہے ، ملزم ایک بااثر میڈیا پرسن ہے جوکہ پراسیکیوشن کے شوااہد میں تبدیلی یا انہیں خراب کروا سکتا اور گواہوں پر اثر انداز ہو سکتا ہے ،

AA:، انکار کیا جاتا ہے ، ریکارڈ کی ٹمپرنگ کا خدشہ ہے ،

:,BBانکار کیا جاتا ہے ،درخواست گزار کے روپوش ہونے کے وسیع تر امکانات ہیں جبکہ اس کی جانب سے گواہوں پر اثر انداز ہونے ، کارروائی کی ٹمپرنگ کرنے اور پراسیکیوشن کے گواہوں کو ترغیب دینے کا امکان بھی موجود ہے ،

CC:، انکار کیا جاتا ہے ،درخواست گزار کے پاس کوئی قانونی گرائونڈ موجود نہیں ہے ،

(30)انکار کیا جاتا ہے


استدعا

درج بالا حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے انتہائی عاجزی کے ساتھ استدعا کی جاتی ہے کہ اس رٹ پٹیشن کو میرٹ سے خالی ہونے اور ناقابل سماعت ہونے کی بنیاد پر قانون کے مطابق خارج کیا جائے ،

مسول علیان کی جانب سے

محمد عابد حسین ،انوسٹی گیشن افسر/اسسٹنٹ ڈدائریکٹر نیب لاہور

بذریعہ سپیشل پراسیکیوٹر( ہیڈ کوارٹرز) لاہور

31مارچ2020


کراچی

رٹ پٹیشن نمبر 1780/2020

میر شکیل الرحمان ………… درخواست گزار

بنام

چیئرمین نیب اور دیگر ……… مدعا علیہان

(اسلامی جمہوریہ پاکستان کے 1973ء کے آئین کے آرٹیکل 199؍ کے تحت دائر رٹ پٹیشن)

ضابطہ دیوانی 1908ء کے کے سیکشن 151؍ کے تحت درخواست گزار / پٹیشنر کے توسط سے دائر درخواست، جسے قانون کی دیگر تمام متعلقہ شقوں کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے اور ساتھ ہی ریکارڈ کیلئے وہ اضافی دستاویزات بھی پیش کی جا رہی ہیں جو اس درخواست کے نتیجے میں اور اس کے علاوہ ملنے والے کسی بھی ریلیف کیلئے ضروری ہو سکتی ہیں)

جناب عالی،

1۔ یہ کہ، یہ درخواست فاضؒ عدالت کے روبرو زیر سماعت ہے اور اس کی اگلی سماعت 30؍ مارچ 2020ء کو ہوگی۔

2۔ یہ کہ درخواست گزار فی الوقت نیب کی غیر قانونی اور بلا جواز حراست میں ہے اور اس مقصد کیلئے غیر قانونی طور پر وارنٹ جاری / حاصل کیا گیا:

۱) گرفتاری وارنٹ 12؍ مارچ 2020ء کو مدعا علیہ نمبر 1؍ (چیئرمین نیب) نے جاری کیا۔

۲) ریمانڈر آرڈر 13؍ مارچ 2020ء کو مدعا علیہ نمبر 3؍ (فاضل احتساب عدالت لاہور) نے جاری کیا۔

۳) دوسرا ریمانڈر آرڈر 25؍ مارچ 2020ء کو مدعا علیہ نمبر 3؍ (فاضل احتساب عدالت لاہور) نے جاری کیا۔

درخواست گزار اس درخواست میں بیان کرت ہے کہ اس کی حراست کسی بھی قانونی جواز کے خلاف ہے، اور ساتھ ہی یہ واجب التعمیل قانون یعنی ہدایات / پالیسی گائیڈلائنز مورخہ 8؍ اکتوبر 2019ء کی بھی خلاف ورزی ہے، اور ساتھ ہی 1973ء کے آئین میں وضع کردہ ان کے بنیادی حقوق کی بھی خلاف ورزی ہے۔ اس طرح، مذکورہ بالا واضح ہدایات / پالیسی گائیڈلائنز کی روشنی میں دیکھا جائے تو نیب کے پاس اختیار نہیں تھا کہ درخواست گزار کو گرفتار کیا جائے یا / اور ان کا ریمانڈ حاصل کیا جائے۔ فاضل سپریم کورٹ یہ قرار دے چکی ہے کہ ایگزیکٹو پر لازم ہے کہ وہ مذکورہ ہدایات / پالیسی گائیڈلائنز پر عمل کرے، اس میں وہ شخص / اتھارٹی بھی شامل ہے جس نے یہ جاری کی ہیں۔ درخواست گزار کے بنیادی حقوق کے تحفظ میں ان گائیڈلائنز پر عمل کیا جاتا تو انہیں گرفتار کیا جاتا اور نہ ہی وہ آج حراست میں ہوتے۔

3۔ اس سے قبل، جس وقت درخواست گزار غیر قانونی اور بلا جواز حراست میں تھے، اس وقت درخواست گزار کی اہلیہ نے ایک درخواست 15993/2020 دائر کی تھی۔ چونکہ اس وقت درخواست گزار خود زیر حراست تھے اسلئے وہ بذات خود یہ رٹ پٹیشن دائر نہ کر سکے تھے۔

4۔ سطورِ بالا میں بیان کردہ درخواست، جو درخواست گزار کی اہلیہ نے دائر کی تھی، میں فاضل عدالت ہذا نے 16؍ مارچ 2020ء کو آرڈر جاری کرتے ہوئے نیب کو ہدایت کی تھی کہ وہ اگلی سماعت سے قبل یا سماعت کے دن رپورٹ کے ساتھ پیرا وائز جواب جمع کرائے، کچھ دیگر عبوری ریلیف دیے اور سماعت کیلئے اگلی تاریخ 26؍ مارچ 2020ء طے کی۔ نیب حکام نے حکم کی تعمیل نہ کی، یہاں تک کہ رپورٹ اور پیرا وائز جواب جمع کرانے میں بھی ناکام رہا۔ بدقسمتی سے، جسے غفلت کا ارتکاب بھی کہہ سکتے ہیں، درخواست 15993/2020 کو 26؍ مارچ 2020ء کے دن عدالتِ ہذا کی ہدات کے باوجود سماعت کیلئے نہیں رکھا گیا۔ مذکورہ درخواست کی سماعت میں بے ترتیب تاخیر کا شک ہونے پر درخواست گزار نے خود اپنا حق استعمال کرتے ہوئے ہدایت کی کہ انہیں درخواست گزار بنایا جائے اور ان کے اپنے نام پر درخواست دائر کی جائے جس میں ان کی حراست کو غیر قانونی اور بلاجواز قرار دیا جائے، اور ضمانت پر رہا کرنے کی درخواست کی جائے۔ درخواست گزار کی جانب سے ’’میر شکیل الرحمان بنام چیئرمین نیب اور دیگر‘‘ کے عنوان سے دائر کی جانے والی درخواست نمبر 17809/2020 آئین کے آرٹیکل 199؍ کے تحت قابل سماعت ہے جس کی تشریح سپریم کورٹ ’’خان اسفند یار ولی بنام فیڈریشن آف پاکستان‘‘ (پی ایل ڈی 2001ء ایس سی 607) اور ’’اولاس خان بنام چیئرمین نیب‘‘ (پی ایل ڈی 2018ء ایس سی 40) میں کر چکی ہے۔

5۔ اسی دوران، یہ درخواست دائر کیے جانے کے بعد، (غیر قانونی طور پر) مدعا علیہ نمبر 3؍ (فاضل احتساب عدالت) نے ایک اور ریمانڈ مورخہ 25؍ مارچ 2020ء کو جاری کیا۔ گزارش ہے کہ دوسرے ریمانڈ آرڈر کی وجہ سے کسی بھی درخواست پر اثرات مرتب نہیں ہوتے کیونکہ ریلیف فراہم کرنے کی درخواست کی گئی ہے منجملہ ان درخواستوں میں سب سے اہم بات درخواست گزار کی (ضمانت کی نوعیت کی شرائط پر) رہائی کی درخواست کی گئی ہے۔ نئی دائر کی گئی درخواست، بہر حال، درخواست گزار نے خود دائر کی ہے اور اس میں مدعا علیہ نمبر 3؍ کے احکامات کو چیلنج کیا گیا ہے اور منجملہ ’’خان اسفند یار ولی بنام فیڈریشن آف پاکستان‘‘ (پی ایل ڈی 2001ء ایس سی 607) اور ’’اولاس خان بنام چیئرمین نیب‘‘ (پی ایل ڈی 2018ء ایس سی 40) کی روشنی میں ضمانت کیلئے منجملہ ریلیف کے حصول کی درخواست کی ہے۔ بصورت دیگر بھی دیکھا جائے تو مقدمہ کے میرٹس کی بنیاد پر ریلیف کا حصول درخواست گزار کا قانونی حق ہے۔

6۔ جیسا کہ فاضل عدالت نے رٹ پٹیشن نمبر 17809/2020 میں 26؍ مارچ 2020ء کو جاری کردہ اپنے فیصلے میں ہدایت کی ہے اور ساتھ ہی انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کیلئے ضروری ہے کہ درخواست گزار / ملزم کے کیس کے ساتھ جانبداری نہ برتی جائے، دوسرا غیر قانونی ریمانڈ آرڈر ریکارڈ پر لایا جائے اور ساتھ ہی تمام دستاویزات بھی پیش کی جا ر ہی ہیں جن کی ترتیب ذیل میں ہے: 

۱۔ مدعا علیہ نمبر 3؍ (فاضل احتساب عدالت لاہور) کی جانب سے 25؍ مارچ 2020ء کو جاری کردہ دوسرا ریمانڈر آرڈر جس کے ساتھ نیب کی درخواست (منسلکہ دستاویز نمبر پی ون) شامل ہے۔

۲۔ 12؍ مارچ 2020ء کو گرفتاری کی وجوہات (منسلکہ دستاویز نمبر پی ٹو)۔

۳۔ جوہر ٹائون وغیرہ کیلئے لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی استثنیٰ پالیسی (منسلکہ دستاویز نمبر پی تھری)۔

۴۔ رجسٹرڈ جنرل پاور آف اٹارنی مورخہ 8؍ مئی 1986ء (منسلکہ دستاویز نمبر فور)۔

۵۔ سات زمین مالکان اور درخواست گزار کی جنرل اٹارنی کے ذریعے درخواس برائے عبوری لینڈ ڈویلپمنٹ مورخہ 4؍ جون 1986ء (منسلکہ دستاویز نمبر فائیو)۔

۶۔ رجسٹرڈ معاہدہ فروختگی مورخہ 29؍ ستمبر 1986ء (منسلکہ دستاویز نمبر سکس)۔

۷۔ ایل ڈی اے کی جاری کردہ تکمیل سند (کمپلیشن سرٹیفکیٹ) مورخہ 22؍ اپریل 1989ء (منسلکہ دستاویز نمبر پی سیون)۔

۸۔ ڈویلپمنٹ اور سرچارج کی مد میں (1987ء تا 1992) کی گئی ادائیگیوں کے متعلق خط و کتابت (منسلکہ دستاویز نمبر پی ایٹ)۔

۹۔ رجسٹرڈ گفٹ ڈیڈ (1997) (منسلکہ دستاویز نمبر پی نائن)۔

۱۰۔ درخواست گزار کا کاروباری تعارف۔ (منسلکہ دستاویز نمبر پی ٹین)۔

7۔ منجملہ، مذکورہ بالا سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ:…

۱۔ اس معاملے میں کوئی فوجداری یا مجرمانہ اقدام نہیں ہوا کیونکہ مذکورہ زمین نجی لین دین کے تحت زمین کے اصل مالکان (محمد علی / ان کے ورثاء) سے خریدی گئی تھی۔

۲۔ ایل ڈی اے کی استثنیٰ پالیسی اور نہ ہی اس معاملے سے جڑے کسی اور قانون کی خلاف ورزی ہوئی۔

۳۔ مذکورہ بالا سے کسی بھی جانبداریت سے بالاتر ہو کر اور کچھ بھی تسلیم کیے بغیر، گزارش کی جاتی ہے کہ اگر کسی طرح کی حد پار کی بھی گئی ہے (جس سے انکار کیا جاتا ہے)، اس معاملے کی سزا لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے قوانین کے مطابق دی جاتی کیونکہ اس معاملے میں اسی قانون کا اطلاق ہوتا ہے نہ کہ قومی احتساب آرڈیننس 1999ء کا۔

4۔ کورونا وائرس کی وجہ سے مایوس کن صورتحال، جس کا آج پوری نسل انسانی کو سامنا ہے، کے باعث ڈائریکٹر جنرل ڈائریکٹوریٹ آف ڈسٹرکٹ جوڈیشری، لاہور ہائی کورٹ لاہور نے پنجاب بھر کی تمام عدالتوں کو ایک منطقی اور قابل فہم ہدایت نامہ جاری کیا ہے کہ ضمانت کے معاملات کا فیصلہ کیا جائے۔ درخواست گزار کی بہترین معلومات کے مطابق، یہ ہدایت نامہ عزت مآب چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کی منظوری سے جاری کیا گیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ملزمان / مجرموں کو حفاظتی اقدامات کے تحت ضمانت پر رہا کیا جائے تاکہ کورونا وائرس کو مزید پھیلنے سے روکا جا سکے، اور ساتھ ہی تمام ٹرائل کورٹس کو ہدایت دی جاتی ہے کہ فعال انداز سے ان معاملات کو دیکھیں جن میں عدالت پر خود ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ کیٹگری میں بیان کردہ قیدیوں کی ضمانت پر رہائی کو یقینی بنایا جائے۔ اس درخواست کے درخواست گزار اس ضمن میں بیان کردہ کیٹگری کی کلاز نمبر چہارم میں شمار ہوتے ہیں، یہ کیٹگری ایسے قیدیوں کے متعلق ہے جو ٹرائل کا سامنا کر رہے ہیں اور جن کی ممکنہ سزا 10؍ سال یا اس سے زیادہ کی ہے۔

(مورخہ 26؍ مارچ 2020ء کو ڈائریکٹر جنرل ڈائریکٹوریٹ آف ڈسٹرکٹ جوڈیشری، لاہور ہائی کورٹ لاہور کی طرف سے زیر عنوان ’’کورونا وائرس کیخلاف حفاظتی اقدامات کے تحت ملزمان / مجرموں کی ضمانت پر رہائی‘‘ جاری ہونے والے اس ہدایت نامہ کی نقل اس درخواست کے ساتھ دستاویز پی الیون کے نمبر کے ساتھ منسلک ہے)

درخواست گزار کا ٹرائل جاری ہے (بلکہ کہا جائے کہ انہیں ٹرائل سے پہلے ہی قید کیا گیا ہے) اور وہ کوئی مجرم نہیں ہیں، ان پر جو الزام ہے اس کا تعلق ماضی بعید کے ایک واقعے سے ہے جو 34؍ سال پرانا ہے۔ مزید برآں، دستاویزی شواہد موجود ہیں لیکن نیب نے انہیں ضبط کر لیا ہے۔

8۔ کورونا وائرس کے مسئلے کی وجہ سے ضمانتیں دینے کی اجازت اسلام آباد ہائی کورٹ نے 26؍ مارچ 2020ء کو مسٹر حسین لوائی اور دیگر (نیب کیس) میں دی تھی۔ (لاک ڈائون کی وجہ سے درخواست گزار فی الحال اس فیصلے کی نقل پیش نہیں کر سکتا، تاہم، اس بارے میں اخبارات اور میڈیا میں آنے والی ایک خبر یہاں منسلکہ دستاویز نمبر پی ٹوئیلیو کے طور پر پیش کی جا رہی ہے۔ بصورت دیگر بھی دیکھا جائے تو نیب حکام / مدعا علیہان کو اس فیصلے کا علم ہونا چاہئے۔)

9۔ اس لحاظ سے، انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کیلئے یہ ضروری ہے کہ درخواست گزار کو اجازت دی جائے کہ وہ پیرا نمبر 6؍ میں بیان کردہ دستاویزات عدالت ہذٰا کے روبرو ریکارڈ پر پیش کرے، کیونکہ یہ دستاویز اس معاملے سے نہ صرف جڑی ہیں بلکہ اس سے وابستہ بھی ہیں اور ان کے جائزے کے نتیجے میں عدالت کو زیر غور درخواست کے متعلق منصفانہ اور شفاف فیصلہ کرنے میں معاونت ملے گی۔ اس کے نتیجے میں بھی اگر عدالت کوئی ریلیف درخواست گزار کو دینا چاہے تو دے سکتی ہے۔

لہٰذا، عدالت سے استدعا ہے کہ فاضل عدالتِ ہٰذا:…

۱۔ اس درخواست کو منظور کرے۔

۲۔ پیراگراف نمبر 6؍ میں بیان کردہ دستاویزات کو پیش کرنے کی اجازت دی جائے تاکہ انہیں زیر غور اس درخواست کی مد میں ریکارڈ پر لایا جا سکے۔

۳۔ فاضل عدالت اس کے علاوہ بھی کوئی ریلیف دینا چاہے جو انصاف کے تقاضوں اور شفافیت کے اصولوں کے مطابق ہو اور جو کیس میں بین کردہ حالات کے عین مطابق ہو، دے سکتی ہے۔


لاہور ہائی کورٹ میں

رٹ پٹیشن نمبر ۔ 17809/2020

میر شکیل الرحمٰن۔۔۔۔درخواست گزار

بنام

چیئرمین نیب وغیرہ۔۔۔۔مدعا علیہان

مدعا علیہ نمبر 1,2,3,4,5,6,7کی جانب سے کمنٹس اور پیراوائز کمنٹس

معزز جج صاحبان

ابتدائی معروضات

نمبر۔ ایک ۔۔۔ درخواست گزار آئین کے تحت کسی حق کی خلاف ورزی کی نشاندہی میں ناکام رہا۔اس نے جھوٹے اور بے بنیاد الزامات عائد کئے جو گمان و قیاس اور مفروضوں پر مشتمل ہے۔دوسری جانب یہ ثابت کیا گیا کہ ملزم کے خلاف کارروائی عین آئین اور قانون کے تحت کی گئی جس میں قانون کی حرمت کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ۔

نمبر۔ دو ۔۔۔۔ ریکارڈ کے جائزے سے کسی قانونی کمزوری یا سقم کا انکشاف نہیں ہوتا۔جس سے کسی مداخلت کو ثابت کیا جاسکے۔درخواست گزار استثنائی حالات کی نشاندہی میں بھی بری طرح ناکام رہا۔مزید یہ کہ مدعا علیہہ نیب زیر تحقیق مقدمے میں قانون کی سختی سے پابندی کر رہا ہے۔لہٰذا درخواست معزز عدالتکیجانب سے مسترد کئے جا نے کے لائق ہے۔

نمبر۔ تین ۔۔۔۔ مودبانہ درخواست کی جا تی ہے کہ مانگی جا نے والی ریلیف کو مسترد کردیا جائے جو قانون کی نگاہ میں قابل غور نہیں ہے۔

نمبر ۔ چار ۔۔۔۔ دائر درخواست مذموم عزائم کے تحت دائرکی گئی ہے تاکہ کارروائی میں کلل ڈالا جا سکے۔

نمبر۔ پانچ ۔۔۔۔ درخواست گزار عدالتکے جاری کردہ حکم میں کوئی غیر قانونی یا بت قاعدگی کی نشاندہی میں بری طرح ناکام رہے۔

نمبر۔ چھہ ۔۔۔۔آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت سرکاری حکام کا دائرہ اختیارمحدود ہے ۔ انہیں قانون کے تحت چلنا اور جس کی ممانعت ہو اس سے باز رہنا ہوتا ہے ۔لیکن اس کیس میں درخوست گزار کسی آئینی یا قانونی خلاف ورزی کی نشاندہی میں ناکام رہے۔لہٰذازیرغور درخواست مسترد کئے جا نے کے لائق ہے۔

نمبر ۔ سات ۔۔۔۔ درخوات گزار نے اپنی زیر جواب درخواست میں تنازعات کو اٹھایا ہے۔یہ طے شدہ قانون ہے کہ ایسے میں معمول کی کارروائی کو روکا نہیں جاتا۔

نمبر ۔ آٹھ ۔۔۔۔ استدعا ہے کہ درخواست گزار اپنے جھوٹے اور بے بنیاد الزامات کو ثابت کر نے میں ناکام رہا ،لہٰذا مودبانہ درخواست ہے کہ زیر جواب درخواست اعلیٰ عدالتوں کے طے شدہ معیار پر پوری نہیں اترتی۔اس مسترد کیا جانا چاہئے۔

نمبر ۔ نو۔۔۔۔مزید یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہئے کہ زیر جواب کی طرح درخواستوں سے نمٹنے کے لئے نیب آرڈننس بتاتا ہے کہ خلاف ورزی کے مرتکب کوئی معمولی لوگ نہیں ۔ یہ بات درست ہو سکتی ہے کہ اس قانون کی سختی کاشکار کوبعض اوقات نامناسب خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے ۔لیکن قانون کا سختی سے نفاذ معاشرے کے وسیع تر مفاد میں ہو تا ہے۔

رپورٹ ۔۔۔۔ 26 دسمبر 2019 اور 10 فروری 2020 کی تاریخوں میں نیب کو دو شکایات موصول ہوئیں ۔جس میں الزام عائد کیا گیا کہ ملزم شکیل الرحمان نے جنرل پاورآف اٹارنی (جی پی اے کے حوالے کے بعد) فی پلاٹ ایک کنال کے 54 پلاٹس استثنا کے بعد غیر قانونی طورپرالاٹ کئے گئے۔جو ایم اے جوہر ٹائون کے بلاک ایچ میں واقع ہیں وہ موضع نیاز بیگ لاہور میں 180 کنال 18 مرلہ کے عوض دئے گئے ۔ مزید یہ بھی الزام لگایا گیا کہ ملزم شکیل الرحمان کو یہ متعلقہ قوانین کی خلاف ورزی کر تے ہو ئے دئے گئے۔اس وقت کے وزیر اعلیٰ میاں نواز شریف کی ملی بھگت سے الاٹ کئے گئے۔شکایت کی توثیق چیئرمین نیب نے کی ۔

نمبر ۔ دو ۔۔۔۔ شکایت کی توثیق کے بعد معاملہ چیئرمین نیب کو پیش کیا گیا جنہوں نے 12مارچ 2020 کو تحریر کردہ ایک خط کے ذریعہ میر شکیل الرحمان اور سابق وزیر اعلیٰ نواز شریف کے خلاف انکوائری کی اجازت دی۔جس میں ایل ڈی اے کے افسران اور دیگر بھی شامل ہیں ۔اس کے علاوہ چیئرمین نیب نے میرشکیل الرحمان کی کی گرفتاری کے وارنٹ بھی جاری کئے اور گرفتاری 12 مارچ 2020 کو عمل میں آئی۔

نمبر ۔تین ۔۔۔۔ کارروائی میں انکشاف ہوا کہ موضع نیاز بیگ لاہور میں مذکورہ اراضی ایک شخص محمد علی کی ملکیت ہے۔ان کے انتقال کے بعد یہ اراضی ان کے ورثا حاکم علی ، ہدایت علی ، سرور علی ، جہانہ بی بی وزیر بیگم ، عنایت بی بی اور حمیدہ بیگم کو 18 فروری 1986 کو نمبر ۔ 376 بی کے ذریعہ جوہر ٹائون فیز ۔ دو منتقل ہوئی ۔

نمبر۔ چار۔۔۔۔ملزم شکیل الرحمان نے اول جی پی اے کو حاکم علی، ،ہدایت علی وغیرہ سے 22 مئی 1986 کو اپنے نام پر منتقل کیا اوراس کے 13 دنوں بعد ہی عبوری ڈیولپمنٹ کے لئے ڈائریکٹر جنرل ایل ڈی اے کو درخواست دے دی ۔اسی روز یہ درخواست ڈائریکٹر لینڈ ڈیولپمنٹ کونشان زد کردی گئی۔کہ سمری کا مسودہ وزیر اعلیٰ کے مطالع کے لئے جلد از جلد تیار کیا جائے۔ڈائریکٹر جنرلایل ڈیا اے نے سمری تیار کی ۔اسطرح ملام شکیلالرحمان نے سرکاری حکام کی ملی بھگت سے غیر قانونی طور پر مذکورہ پلاٹوں کے لئے استثنا پالیسی کے بر خلاف استثنا حاصل کیا ۔

نمبر ۔ پانچ ۔۔۔۔ ڈائریکٹر جنرل ایل ڈی اے کی پیش کردہ سمری کے مطالعہ سے معلوم ہوا کہ عبوری ڈیولپمنٹ کے لئے درخواست اس مرحلے پر منظور نہیں کی جا سکتی۔کیونکہ کارروائی کو پہلے ہی حتمی شکل دی جا چکی ہے۔البتہ ڈرخواست گزار 30 فیصداراضی پرعبوری ڈیولپمنٹ کا حقدار ہے ۔سمری میں ڈی جی ایل ڈی اے نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ درخواست گزار نے ان سے ملکر 30 فیصد اراضی کے لئے استثنا کی درخواست کی تھی۔

نمبر ۔ چھہ ۔۔۔۔سمری میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس وقت کے ڈی جی ایل ڈی اے نے تجویز دی تھی کہ درخواست گزار کو 54 پلاٹوں کا استثنا دے دیا جائے۔

نمبر۔ سات ۔۔۔۔ ملزم شکیل الرحمان نے حاکم علی اورہدایتعلی وغیرہ کے اٹارنی کے طور پر ایک قانونی و

ارث سرور علی کے مطابق پلاٹس 29 ستمبر 1986 کو اٹھارہ لاکھ روپے کے عوض اپی بیوی اور بچوں کو فروخت کردئے۔

نمبر۔ آتھ۔۔۔۔ 1998 میر شکیل الرحمان کی اہلیہ شاہینہ شکیل اور بیٹے ابراہیم شکیل اور ملزم شکیل الرحمان نے اپنے کمسن بچوں کی طرف سے اعلان کیا کہ وہ مشتثنیٰ پلاٹون کی شکیل الرحمان کو منتقلی کا ارادہ رکھتے ہیں ۔اور پھر یہ پلاٹس 2 دسمبر 1998 کو شکیلالرحمان کے نام منتقل کردئے گئے۔

نمبر ۔ نو ۔۔۔۔دوران حال یہ 18 کنال اور 18 مرلہ کے یہ پلاٹس ملاکرایکبڑے پلات میں ضم کردئے گئے ہیں۔

پلاٹس کی الاٹمنٹ اوراستثنا میں قانی سقم ۔۔۔۔ ایم اے جوہر ٹائون کے لئے مرتب استثنا پالیسی کی کلاز ۔ نمبر ۔ دس ۔۔۔۔سی ۔ 11 کے مطابق ہدایت علی وغیرہ کو خصوصی کیس کے طور پر پندرہ پلاٹوں کے استثنا کا حق تھا ۔تاہم ملزم شکیلالرحمان نے ہدایت علی اور دیگر کے جنر ل اٹارنی کے طور پر تمام 54 پلاٹوں کا استثنا حاصل کیا ۔

نمبر۔ گیارہ ۔۔۔۔ کلاز ایف کے مطابق اس خصوصی کیس میں ایل ڈی اے کی جانب سے استثنا حاصل کر نے والے کو پلاٹس مختص نہیں کئے گئے۔

نمبر۔بارہ ۔۔۔۔ دو سڈکوں کے لئے اراضی بھی میر شکیلالرحمان کے لئے پلاٹوں میں ضم کردی گئی۔

نمبر۔ تیرہ ۔۔۔۔ ڈی جی ایل ڈی اے نے وزیر اعلیٰ کے ناام سمری میں کہا کہ اسے خصوصی کیس کے طور پر لیا جائے اورنظیر نہ سمجھا جائے۔

نمبر۔ چودہ ۔۔۔۔ تحقیقات جاری ہیں اورجلد از جلد مکمل کرلی جائیں گی ۔

نمبر ۔ پندرہ ۔۔۔۔ گزشتہ بارہ مارچ کو گرفتاری کے بعد میر شکیل الرحمان کو احتساب عدالت میں 13 مارچ کو پیش کیا گیا اور عدالت نے 25 مارچ 2020 تک کا جسمانی ریمانڈ دے دیا ۔بعد ازاں اس میں سات اپریل تک توسیع کردی گئی۔

پیرا وائز کمنٹس۔۔۔۔

نمبر ۔۔۔۔1 ریکارڈ کو مواد نمبر۔ دو۔۔۔۔تردید درست نہیں ،گمراہکن اور غیر متعلقہ ہے۔ نمبر ۔۔۔۔ تردید درست نہیں ۔ سمیت نمبر پندرہ تک یکساں کمنٹس ہی ہیں۔

شکایتکی توثیق کا عمل 26 دسمبر 2019 سے جاری رہا چیئرمیں نیب کو تمام مقدماتپربریفنگ دی گیئ۔اسطرح چیئرمین شروع ہی سے صورتحال سے بخوبی آگاہ تھے۔چیئرمین نے وارنٹ جاری کر نے سے قبل ہی کیس اور اسکی بنیادوں کا بخوبی جائزہ لے لیا تھا ۔

استدعا ۔۔۔۔ زیر نظر جائزے یہ مودبانہ استدعا کی جاتی ہے کہ پیش نظر رٹ پٹیشن میرٹ کے بر خلاف اور ناقابل سماعت ہے ،لہٰذا قانون کے مطابق اسے مسترد کیا جائے۔

مدعا علییان(نیب) کی طرف سے

تفتیشی افسرمحمد عابد حسین

بذریعہ خصوصی پراسیکیوٹر ،، ، نیب لاہور

تازہ ترین