• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:شمع ناز۔۔کراچی
دنیا پر اس وقتکرونا وائرس حملہ آور ہے۔ یہ وبا امیر و غریب کا فرق کئے بغیر انسانوںکو موت کے منہ میںدھکیل رہی ہے ۔ اب تک ہزاروںلوگ اس وبا سے جان کی بازی ہار چکے ہیںاور لاکھوںافراد متاثر ہوچکے ہیںکوئی دوا نہ ہونے کے باعث یہ اندوہناک سلسلہ جاری ہے جو افسوسناک ہے۔ دنیابھر کے سائنسدان اور طبی ماہرین اس خطرناک وائرس کا علاج ڈھونڈنے کے لئے سرگرم ہیں۔ اب تک ویکسین نہ ہونے کے باوجود احتیاطی تدابیر سے بھی اس وبا کا شکار لوگوںکا علاج کیا جارہا ہے۔ عالمی ادارہ صحت سمیت مختلف مستند ادارے صفائی ستھرائی اور سماجی فاصلہ اختیار کرنے اور لاک ڈاؤن کرنے کی جو تجاویز دے رہے ہیںان پر سنجیدگی سے عمل کرنے کی ضرورت ہے۔موجودہ صورتحال میں انٹرنیٹاور موبائل فون کے متعلق بھی احتیاط برتنے کی ضروت ہے کیونکہ ہیکرز فراڈ کرکے مالی فوائد کے لئے سرگرم ہوگئے ہیں۔ واٹس اپ ،فیس بک اور ای میلز پر کرونا وائرس کے پیغامات کی بھر مار ہوگئی ہے۔ ہیکرز مختلف طریقوں سے اکاؤنٹ ہیک کرسکتے ہیں۔ کرونا وائرس کی روک تھام کی بات کی جائے تودنیابھر کی حکومتوںاور ماہرین کی کوششوںکودیکھتے ہوئے یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ اس مرضکا علاج جلد ڈھونڈ لیا جائے گا۔ اس وبا کے باعث کاروبار اور روزگار بھی بند ہو گیا ہے جس سےدنیا بھر میںمعاشی مشکلات اور بے روزگاری بھی بڑھ رہی ہے، ان مسائل کے حل کے لئے عالمی سطح پر متحد ہوکر ہمدردی کے جذبے کے تحت پیش بندی کی ضرورت ہے۔ اس میںکوئی شک نہیںکہ کرونا وائرس کے باعث دنیاکے حالات تیزی کے ساتھ تبدیل ہو رہے ہیں مگر اس وبا کے کچھ مثبت پہلو بھی سامنے آرہے ہیں۔ دنیا بھر کی حکومتیں، ادارے، محکمے اور عوام دوسروںکی جان بچانے اور ان کی معاشی مشکلات کم کرنے کے لئے سرگرم ہیں اب شاید حکومتوںکو یہ بات سمجھ آگئی ہے کہ بقا اور استحکام کے لئے اسلحہ و گولہ بارود پر ہی اکتفا نہیںکیا جاسکتا اور صحت کے شعبے میںانقلابی اقدامات اٹھانا ہوںگے۔ سائنسدان، ڈاکٹرز، حکما اور طبی ماہرین خطرناک کرونا وائرس کا علاج دریافت کرنے کے لئے سرگرم عمل ہیں اور اس کے لئے مختلف تجربات کئے جارہے ہیںجن میں بعضتجربوںمیںکامیابی بھی نظر آنے لگی ہے جیسے کرونا وائرس کے مریضوںکے علاج کے لئے پلازمہ طریقہ کار کے انتہائی حوصلہ افزا نتائج برآمد ہورہے ہیںاس طرحاس عالمی بحران پر جلد قابو پالینے کی امید دکھائی دے رہی ہے۔ دوسری جانب کرونا وائرس نے نفسا نفسی اور خودغرضی کے اس دور میںانسان دوستی اور ہمدردی کے جذبات کو مہمیز دی ہے۔ لاک ڈاؤن کے باعث خاندانوں کو طویل جدائی کے بعدان کے گھروں میں دوبارہ اکٹھا ہونے کا موقع ملا۔ دنیابھر میںاسلحہ سازی، کاریںبنانے، بڑی بڑی عمارتیںتعمیر کرنے، طیارہ سازی، پل، سڑکیںبنانے کے علاوہ صحت کے شعبے میںانقلابی اقدامات کی ضرورت اجاگر ہوئی ہے۔ ترقی کے اس دور میںکچھ بیماریاں اب بھیایسی ہیں جن کا یقینی علاج ابھی تک دریافت نہیں ہوسکا ان بیماریوں میں کینسر، الرجی، ایچ آ ئی وی ای، آدھے سر کا درد، فلوز، کانگو وائرس، ایبولا وائرس وغیرہ شامل ہیں۔ کرونا وائرس کے مریضوںکے لئے سب سے زیادہ ضرورت وینٹی لیٹر کی ہوتی ہے۔ وینٹی لیٹر کو لائف سیونگ مشین بھی کہا جاتا ہے یہ ایک ایسی مشین ہے جو سانس لینے میں دشواری محسوس کرنے والے مریض کی مدد کرتی ہے۔ یہ پھیپھڑوں میں آکسیجن پہنچاتی ہے اور کاربن ڈآئی آکسائیڈ باہر نکالتی ہے جس کی وجہ سے مریض کو سانس لینے میں آسانی ہوجاتی ہے۔کرونا وائرس کے مریضوں کی زندگی بچانے کے لئے وینٹی لیٹرز کی تیاری کے لئے اب دنیا بھر کی حکومتیں اور مختلف کمپنیاں ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ کئی ممالک میںمیزائل اور فوجی سازوسامان بنانے والے کارخانے وینٹی لیٹر بنانے کے منصوبے بنا رہی ہیںاسی طرحکاریںاور گاڑیاں بنانے والی کمپنیاںبھی انسان دوستی کا ثبوت دیتے ہوئے وینٹی لیٹر اور انسانی صحت کے لئے درکار طبی آلات بنانے کی شروعات کر رہی ہیں۔ عالمی مالیاتی اداروںکی رپورٹس کے مطابق اس وقت عالمی قرضہ تقریباً230 ٹریلین ڈالر ہے اور اس کی بڑی وجہ سودی لین دین ہے مگر کرونا وبا کے باعثدنیا بھر میںسود کی شرحکم کرنے کے اعلانات کئے جارہے ہیں۔ دنیا بھر میںلاک ڈاؤن کے باعث کارخانے اور ہر قسم کی ٹریفک بند ہونے سے فضائی آلودگی میںکمی ہوگئی ہے اور سائنسدانوںنے کہا ہے کہ کرونا وائرس سے نجات حاصل کرنے لئے کئے گئے لاک ڈاؤن سے ماحولیاتی آلودگی میںبھی کمی آگئی ہے اور اس سے اوزون کی تہہ میںبہتری آرہی ہے۔ اوزون سورج سے نکلے والی مضر صحت شعاعوںکو روکتی ہے اور یہ توقع کی جارہی ہے کہ اوزون کی سطح بہتر ہونے کے باعثدنیا میںکینسر جیسے موذی مرضکی شرحکم ہوگی۔ دنیا کی تاریخ حیرت انگیز واقعات سے بھری پڑی ہے مگر کرونا وائرس کے باعث رونما ہونے والے واقعات میںبرق رفتاری انتہائی مثبت اور حیران کن ہیں۔کرونا وائرس کے باعث لوگوںنے یہ جان لیا کہ صفائی کی اہمیت کیا ہے۔ اس وبا کے باعثاختیار کئے گئے سماجی فاصلے سے غیر اخلاقی میل جول کی حوصلہ شکنی ہوئی۔ لاک ڈاؤن سے پیدا ہونے والی مشکلات نے دنیا کے مختلف حصوںمیںریاستی ظلم و جبر کا شکار مظلوم انسانوںکا احساس اجاگر کیا۔ کیا ہی اچھا ہو کہ دنیا اب مقبوضہ کشمیر ،فلسطین اور دنیا کے دیگر مقامات پر ظلم کی چکی میںپسنے والے محکوم انسانوںکو جبر سے نجات دلوانے کے لئے سنجیدہ اقدامات اٹھائے۔کرونا وائرس نے بہر حال آرٹیفیشل زندگی کا خاتمہ کردیا ہے ۔اس وبا کی روک تھام کے لئے اٹھائے گئے اقدامات خاص کر لاک ڈاؤن کے باعث ہی لوگوںنے یہ جان لیا کہ ہفتے میں دو، تین بارگھر سے باہر ڈنر کرنا اور پیسوںکا زیاںکرنا ضروری نہیں۔سیروسیاحت کے لئے سال میںایک، دو باہر کسی دوسرے ملک جانا لازمی نہیں۔ چھٹی کے دن بازاروںاور شاپنگ مالز میں گھومنے اور مہنگے کپڑے اور جوتے خریدے بغیر بھی زندگی گزاری جاسکتی ہےبلکہ اب ہمدردی کے جذبات پروان چڑھ رہے ہیںاور آڑوس پڑوس کی خبر گیری کی جارہی ہے۔ خدا ترس لوگ لاک ڈاؤن کے دوران سڑکوںاور گلیوںمیں ضرورت مند لوگوںکو راشن دے رہےہیں۔کرایہ داروںکے کرایہ معاف کئے جارہے ہیں۔یہ بات ذہن نشین ہونی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کبھی بھی انسان کو اس کی طاقت،برداشت اورحیثیت سے زیادہ آزمائش میں نہیں ڈالتا۔ موجودہ حالات میںپاکستان کی بات کی جائےتو افسوسناک صورتحال سامنے آتی ہے۔حکومت اب تک لاک ڈاؤن اور اعلانات سے آگے نہیںبڑھ سکی ہے۔کرونا وائرس کی روک تھام کے لئے فرنٹ لائن پر برسر پیکار طبی عملے کی تنخواہوںکے علاوہ دیگر مراعات دینے سے ان کی اس نازک مرحلے پر حوصلہ افزائی ہوگی۔ تعلیمی اداروںمیںطویل چھٹیوںکے باعثطلبا کا تعلیمی حرج ہورہا ہے، موجودہ دور میںتعلیم کی اہمیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیںہے اس لئے تمام سرکاری و نجی تعلیمی اداروںمیں آن لائن ایجوکیشن سسٹم لوگو کرنے لئے کئے انتظام کرنا چاہئے۔ موجودہ حالات میںعوام کے معاشی مسائل بڑھ گئے ہیں اور ان کو مشکل صورتحال سے نکالنے کے لئے ٹھوس اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ ملازمت پیشہ افراد کو روزگار کا تحفظ چاہئے۔ مزدور طبقے کو گھر میںبیٹھ جانے سے مختلف مسائل نے گھیر لیا ہے ان کی داد رسی کرنی چاہئے۔ عوامی سطح پر کچھ تنظیمیںاور مخیر حضرات غریب طبقوںکی امداد کررہے ہیںمگر کچھ عاقبت نا اندیش لوگ اس موقع پر انسانیت کی خدمت کرنے کی بجائے لوگوں کو لوٹنے میں مشغول نظر آتے ہیں۔ ناجائز منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی کی جارہی۔ پیسہ کمانے کے لئے غیر معیاری ماسک اور سینی ٹائزر بیچا جارہا ہے۔ ان لوگوں نے سرجیکل ماسک، این 95 ماسک، سرجیکل دستانے اور سینی ٹائزرز کی مصنوعی قلت پیدا کرکے ان کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ کردیا ہے۔ دنیا بھر میں لوگوں میں انسانیت کا جذبہ بیدار ہورہا ہے، غیر مسلم کروڑوں، اربوں ڈالر اس وبا سے متاثرین کے لئے خرچ کررہے ہیں، ایک بھارتی ہندو مالک مکان نے اپنے 80 مکانوں کا ایک ماہ کا کرایہ معاف کردیا، ٹاٹا، مکیش امبانی، بل گیٹس اور دیگر کروڑوں روپے عطیہ کرچکے لیکن مسلم معاشرے میں اب تک ایسی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ ہمارے معاشرے میں جہاں لاک ڈائون سے ہزاروں لاکھوں لوگ متاثر ہوئے ہیں وہیں ایسے لوگ بھی ہیں جو غیر مستحق ہوتے ہوئے بھی راشن وغیرہ کے حصول میں سرگرداں نظر آتے ہیں۔ یہ قابلِ مذمت رویہ ہے، اس کی حوصلہ شکنی ہونی چاہئے تاکہ مستحقین کو ان کا حق ملے۔ایک اور بات بھی قابل غور ہےکہ کرونا وائرس پر قابو پانے کے لئے دنیابھر میںکوششیںہورہی ہیںمگر مسلم دنیا خاموش ہے حالانکہ ہمارے پاس طب نبوی کا ذخیرہ ہے۔ مسلم سائنسدانوںاور طب کے ماہرین کے نادر نسخے موجود ہیں۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ حضرت محمد ﷺ نے واضح طور پر یہ ارشاد فرمایا ہے کہ کلونجی میں موت کے سوا ہر مرض کی شفا موجود ہے اور شہد میںشفا ہے۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ ہمارے مسلم ڈاکٹرز اور حکما کلونجی اورشہد پر کرونا وائرس کے حوالے تحقیق کیوں نہیں کرتے؟ ۔ اگر وہ کلونجی اورشہداور اس طرحکی دیگر قدرتی اشیا پر اس حوالے سے تحقیق کی جائے تو کرونا وائرس سمیت خطرناک مرض کے علاج میں قابل ذکر پیش رفت ہوسکتی ہے۔ آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب پر رحم و کرم فرمائے اور پوری دنیا سے اس وباکا خاتمہ کر کے انسانیت کو اس بڑی پریشانی سے نجات عطافرمائے ۔آمین
تازہ ترین