• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شعور راوی ہے اور ریاضتیں شاہد کہ میرا میر شکیل الرحمٰن سے تعارف جدوجہد اور محنت نے کرایا اور بھٹو سے میں آشنا اس کے حاسدین اور مخالفین کی محبت سے ہوا۔

سیاست کے جس ذوالفقار علی بھٹو اور صحافت کے جس میر شکیل الرحمٰن کو میں جانتا ہوں انہوں نے مکھی پر مکھی نہیں ماری۔ انہوں نے جدتیں، نئی راہیں اور اپنے وقت کے چیلنجوں کیلئے رہنمائیاں متشکل کیں۔ بھٹو ایوان میں عام آدمی کیلئے انسانی حقوق کا نقارہ بنا اور سیاسی میدان میں عام آدمی کو معتبر بناکر سیاست کو ڈرائنگ رومز اور بالا خانوں سے نکال کر سوچ اور عمل کی شاہراہ پر لایا۔ میر کلمہ حق اور کلمہ خیر کی پاداش میں عام آدمی اور پسے ہوئے طبقے کی اشرافیہ کے وزن تلے دبی بات کو سر بازار لایا ہے۔

آج مجھے اس صریر خامہ اور باز گشت کو تحریک دینے پر مجبور میر جاوید رحمٰن کے سانحہ ارتحال نے بھی کیا۔ جاوید رحمٰن کے متعلق میں کیا کہوں، ناقدان سخن اور صحافت کے استادوں کا کہنا ہے کہ وہ قواعد و ضوابط اور فنی محاسن کو وہ طرز اور تقویت دیتے گویا ان کا ہر نیا تجربہ فن صحافت میں ایک نیا اضافہ ہوتا۔ کوئی پابند سلاسل ہو اور اس کا شفیق بھائی اور مضبوط بازو انہی دنوں بچھڑ جائے تو اس درد کی تصویر وہ بےگناہ قیدی ہی بتا سکتا ہے جو کسی کی حسد کی آگ، انا کی پیاس اور بدلے کی خواہش کے سبب پس دیوار زنداں ہو۔ میں یہ نقشہ سپرد قلم کرنے سے بہرحال قاصر ہوں۔ میں اتنا جانتا ہوں کہ جب میں گزشتہ ایک عشرہ ایک معاصر کا کالم نگار تھا تب بھی یہ کہتا ’’پاکستان میں جنگ و جیو پہلے سے دسویں نمبر تک ہیں اس کے بعد کوئی دوسرا گیارہویں سے شمار ہوتا ہے جسے ہم دوسرا یا تیسرا کہنے پر مجبور ہیں‘‘۔ قارئین باتمکین سے شیئر کرتا چلوں۔ بات ہے 2008کے لگ بھگ کی میں ایک اخبار کا اداریہ نویس تھا اور میں جس سینئر کی جگہ لے رہا تھا اس کا کہنا تھا کہ ’’کچھ سیکھنا ہے تو جنگ کا اداریہ پڑھنا معمول بنا لو‘‘ بعد ازاں میں جب ایک اور نظریاتی و تاریخی اخبار میں بطور کالم نگار گیا تو اداریہ جنگ ہی کا پڑھا، 6سال مسلسل بطور تجزیہ کار اسی بڑے گروپ کے چینل سے منسلک رہا مگر رہنما چینل جیو ہی کو ماننا لازم ٹھہرا۔ میں ہی نہیں‘ جب موجودہ وزیراعظم 22سالہ جدوجہد میں مصروف تھے تب وہ بھی فرمایا کرتے تھے ’’میں جیو کو سلام پیش کرتا ہوں جیو تو ایسے‘‘۔

ہمارے ہاں المیہ ہے کہ نکیل اقتدار جب جب بھی کسی کے ہاتھ لگا تو وہ قول و فعل کے تضاد کا پہاڑ بنا یا یو ٹرن کا دلدادہ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ آج بھی محترم سربراہ حکومت اپنے دست مبارک میں بلائیں اور انائیں سنگ سنگ لئے پھر رہے ہیں۔ معاملہ نیب کا ہو یا احتساب کا، کورونا لاک ڈاؤن ہو یا سندھ سے وفاق کی معاونت، 18ویں ترمیم یا بنی گالا اراضی کا احوال، کرکٹرز کا یا اقوالِ ریلوکٹوں کا، معاملہ کسی شیخ مجیب کا ہو یا شیخ رشید کا، سرکار کا اپنا ہی نقطہ ہوتا ہے جو نجانے کیا ہوتا ہے۔ کل میڈیا آب حیات تھا اور آج کباب میں ہڈی۔ تبدیلی گئی تیل لینے!

ایک سابق ایم این اے و ایم پی اے و جیالا اور موجودہ انصافی کہتا ہے کہ نجی محفلوں میں قبلہ عمران خان بھٹو کی تعریفیں کرتے ہیں۔ مجھے کہنے لگے ’کمال لیڈر تھا میں تو حیران ہوں!‘ خیر حیران تو میں بھی ہوں مؤرخ سے مخالف تک نے ذوالفقار علی بھٹو کو زندہ رکھا ہے کہ اس کا سیاسی جمال ہی اس کا کمال تھا (حالانکہ راوی بھٹو کا مخالفین سے ’غیر سیاسی‘ برتاؤ بھی بتاتا ہے مگر مجموعی سیاسی و جمہوری و عوامی کردار کے سامنے چھپا بھی جاتا ہے) اور حیران اس پر بھی ہوں کہ اگر مؤرخ ضمیر سمیت زندہ رہا اور غیر لوٹا مخالف قلم پکڑے گا تو محترم عمران خان کی ’’22 سالہ تحریک‘‘ اور حکومتی پیچ و خم کی تصدیق میں کیا کچھ لکھے گا؟

پچھلے دنوں میرا ایک واجبی سا کالم میرے دوستوں کی طبیعت پر جب گراں گزرا اور انہوں نے مجھ پر تنقیدی تیر و نشتر کی بارش کی تو مجھے ایک ڈین، ایک شعبہ کے صدر اور ایک لٹریچر لور دوست کا فون آیا، تینوں کا کہنا تھا کہ ہم نے نوٹس کیا ہے کہ میر صاحب کی مخالفت وہ جرنلسٹس کر رہے تھے جن کا جنگ میں کام کرنے کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکا یا جو جنگ کے سنگ چل نہ پائے۔ ہم خاموش رہے اور عدم کی یہ بات عرض کردی ’’کون ہے جس نے مے نہیں چکھی؍ کون جھوٹی قسم اٹھاتا ہے؍ میکدے سے جو بچ نکلتا ہے؍ تیری آنکھوں میں ڈوب جاتا ہے‘‘۔ فی الوقت تاریخ مجھے یہ سمجھا رہی ہے کہ تاریخ ہی مجھے بتائے گی کہ جناب عمران خان میر شکیل الرحمٰن کے کم از کم موجودہ نیب مقدمہ اور ستم پر برملا اظہار پشیمانی کریں گے۔ پھر صداقت عامہ یہ بھی تو ہے سچ زیادہ دن زیر عتاب اور زیر نقاب نہیں رہ سکتا ہے! وقت بہت کچھ سمجھا اور سکھا دیتا ہے۔ بھٹو تو بھٹو تھا، ہم نے ان گنہگار کانوں سے بینظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کی تعریفیں آمر ضیاء الحق کے دست راست جنرل حمید گل سے بھی سنیں۔ شریفین اور زرداری بھی کل نالاں ہوئے تھے میر شکیل سے۔ آج وہ اور بلاول جنگ و جیو کی تعریف کر رہے ہیں۔

میں جب کبھی تعصب کی عینک اتار کر دیکھوں تو نظر آتا ہے کہ اخلاقی اقدار مولانا مودودی اور سیاسیات قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کی درکار ہے۔ صبر اور تدبر بینظیر سا، تحمل زرداری سا، اصولی سیاسی تغیر نواز شریف سا، لرننگ بلاول بھٹو سی چاہئے۔ آج 4اپریل، بھٹو کے بچھڑ جانے والے دن کالم تحریر کرتے وقت خیال آیا کہ بلاول کو تاریخِ بھٹو سے اور سیکھنا ہوگا۔ بہرحال اس کورونا الرٹ میں سندھ عملاً باکمال ٹھہرا اور بھٹو یاد آیا!

تازہ ترین