• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہر سال مون سون کا موسم شروع ہوتے ہی ملک کے کئی دیہی اور زیریں علاقوں میں خوف کی ایک فضا قائم ہو جاتی ہے۔ بارشیں چاہے پاکستان میں ہوں یا بھارت میں، سیلابوں کا سلسلہ ہمارے پورے زراعتی نظام اور انفراسٹرکچر پر تباہی بن کر نازل ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے کمزور ریاستی ڈھانچے اور ادارے اس کے خلاف کوئی موثر ڈھال بننے میں ہمیشہ ناکام رہتے ہیں۔ پاکستان کے قیام سے اب تک ہمیں 20بڑے سیلابوں کا سامنا کرنا پڑا ہے جن میں 2010، 2011 ، 2012 اور2014کے سیلاب ہماری کمزور معیشت کیلئے سخت نقصان کا سبب بنے ۔ اِس وقت جبکہ مون سون کا موسم نہیں ہے اور ملک میں بارشوں کا بھی کوئی سلسلہ جاری نہیں، دریائے چناب میں نچلے درجے کا سیلاب آنے سے ملتان کے نشیبی علاقوں کی 20سے زائد بستیاں زیر آب آ گئی ہیں جس سے سینکڑوں ایکڑ اراضی پر تیار گندم کی فصل تباہ ہو چکی ہے جبکہ آلو، اروی، اسٹابری کیساتھ آم کے باغات کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔ کورونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈائون اور معاشی پہیہ جام ہونے کیساتھ سیلاب کی تباہی پریشان کن ہے۔ دریا کے نشیبی علاقوں میں پانی کے کٹائو سے متعدد گھر تباہ ہو چکے ہیں، متاثرہ بستیوں کے مکینوں کی بڑی تعداد گھروں میں پھنس کر رہ گئی ہے۔ کسی بھی قدرتی آفت سے نمٹنے کیلئے اُس کے آنے کا انتظار نہیں کرنا چاہئے بلکہ ممکنہ خطرے کے پیش نظر پیشگی حفاظتی انتظامات کیے جانے چاہئیں۔ ہر سال ملک کے کسی نہ کسی حصے میں سیلاب کی وجہ سے غریب کسانوں اور ہاریوں کا مالی اور جانی نقصان ہوتا ہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ حکومت ایسے علاقوں میں جہاں سیلاب کا خدشہ موجود رہتا ہے پکے حفاظتی بند بنائے تاکہ روز روز ہونے والی سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچا جا سکے۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین