• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں نے اپنے گزشتہ کئی کالموں میں کورونا وائرس میں ملکی معاشی صورتحال سے نمٹنے کیلئے پالیسی میکرز کو مشورہ دیا تھا کہ وہ اسٹیٹ بینک کے پالیسی ریٹ میں کمی اور تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں کا فائدہ صارفین کو منتقل کریں جس سے افراطِ زر یعنی مہنگائی میں کمی اور ملکی قرضوں پر سود کی ادائیگی کے بوجھ میں کمی ہوگی اور ایسا ہی ہوا۔ اسٹیٹ بینک نے اپنے پالیسی ریٹ مجموعی 225 بیسز پوائنٹس کی کمی سے 13.25 فیصد سے 11فیصد کردیا جس سے حکومت کو سود کی ادائیگی کی مد میں تقریباً 300 ارب روپے سالانہ کا فائدہ ہوا لیکن مارک اپ کم کرنے سے سرمایہ کاروں نے پاکستانی بانڈز اور ٹریژری بلز میں 13 فیصد منافع پر اپنی سرمایہ کاری کو مارک اپ میں مزید کمی کے خوف سے ملک سے نکالنا شروع کردیا اور دیکھتے ہی دیکھتے 3.2ارب ڈالر کی ہاٹ منی میں کی گئی سرمایہ کاری میں سے 1.7 ارب ڈالر نکل کر بیرونِ ملک منتقل ہوگئے۔ چند ہفتوں میں ڈالر کے اتنے زیادہ اخراج نے پاکستانی اسٹاک ایکسچینج اور روپے کی قدر پر دبائو ڈالا اور پاکستانی روپے کی قدر جو 15 مارچ کو 154 روپے تھی، تقریباً 10 فیصد کم ہوکر 169 روپے تک پہنچ گئی جس سے پاکستانی اسٹاک ایکسچینج میں شدید مندی آئی اور انڈیکس گرکر 28,000 کی سطح پر آگیا جو ہفتے کے اختتام تک 31621 کی سطح پر آگیا۔

کورونا وائرس کے بحران کے پیش نظر ایکسپورٹس کی ادائیگیوں میں تاخیر اور بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی جانے والی ترسیلاتِ زر میں کمی سے بھی ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی آئی جس نے روپے کی قدر پر منفی اثرات ڈالے اور روپیہ غیر مستحکم ہوگیا۔ ان حالات میں 27مارچ کو اسٹیٹ بینک کی منی مارکیٹ میں مداخلت سے انٹربینک میں ڈالر کم ہوکر 165روپے کی سطح پر آگیا تھا جو اب 167روپے کی سطح پر ہے۔ روپے کی قدر میں مسلسل کمی اور ڈالر کے اخراج کی وجہ سے بین الاقوامی سرمایہ کار غیر یقینی صورتحال کا شکار اور اپنی سرمایہ کاری محفوظ بنانے کیلئے متحرک ہیں جو پاکستان اسٹاک ایکسچینج اور ٹریژری بلز میں سرمائے کی منتقلی کا سبب بن رہا ہے۔ معیشت کے طالبعلم کی حیثیت سے میں نے اپنے کالموں میں ہاٹ منی کے ذریعے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے پر تشویش کا اظہار کیا تھا کہ ہاٹ منی میں بیرونی سرمایہ کاری محفوظ نہیں اور مارک اپ اور روپے کی قدر میں کمی کی صورت میں یہ سرمایہ دوبارہ بیرونِ ملک چلا جائے گا، وہی ہوا کہ صرف 12دن میں 600ملین ڈالر ٹریژری بلز اور انویسٹمنٹ بانڈز میں 12سے 13فیصد پر کی گئی سرمایہ کاری ٹی بلز ریٹ میں کمی کی وجہ سے مجموعی 1.7ارب ڈالر بیرونِ ملک منتقل کر دیے گئے جن میں سرفہرست برطانوی، امریکی اور اماراتی سرمایہ کار ہیں، جس نے مقامی مارکیٹ میں پاکستانی روپے کی قدر کو جھنجوڑ کر رکھ دیا جو ڈالر کے مقابلے میں 154سے 15روپے کم ہو کر 169روپے کی کم ترین سطح پر پہنچ گئی تھی جو ٹریژری بلز میں بیرونی سرمایہ کاری کے اخراج کا سبب بنی جس سے صرف ایک ہفتے میں 20مارچ کو اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر 12.68ارب ڈالر سے کم ہوکر 11.98ارب ڈالر پر پہنچ گئے۔ اس موضوع پر پاکستان فاریکس ایکسچینج ایسوسی ایشن کے صدر بوستان علی ہوتی اور سابق سیکریٹری جنرل ظفر پراچہ نے مجھے بتایا کہ انٹرنیشنل پروازوں کی معطلی اور بیرونِ ملک سے آئے ہوئے پاکستانیوں کے لاک ڈائون کی وجہ سے مارکیٹ میں ڈالر فروخت کرنے کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے بھی مارکیٹ میں ڈالر کی کمی محسوس کی جارہی ہے۔ ڈالر کی بڑھتی ہوئی قدر کے مدنظر ہمارے کچھ ایکسپورٹرز نے اپنے ایکسپورٹ آرڈرز کے مقابلے میں بینکوں سے اس امید پر ڈالر کی فارورڈ بکنگ کی تھی کہ مستقبل میں ڈالر 170سے 175روپے تک پہنچ سکتا ہے لیکن ایسا نہیں ہوا اور آج کے ڈالر ریٹس کے مقابلے میں انہیں 15ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے لہٰذا میری ایکسپورٹرز سے درخواست ہے کہ ڈالر اور روپے کے شدید اتار چڑھائو میں سٹے بازی سے گریز کریں۔

مالیاتی اور معاشی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کے باعث بین الاقوامی مندی، تیل کی طلب اور قیمتوں میں 25ڈالر فی بیرل تک ریکارڈ کمی کی وجہ سے بین الاقوامی سرمایہ کاروں اور عالمی فنڈ منیجرز نے کچھ عرصے سونے میں سرمایہ کاری کی لیکن سونے کی قیمتوں میں شدید اتار چڑھائو کے پیش نظر اب اُنہیں سب سے محفوظ سرمایہ کاری ڈالر میں نظر آرہی ہے جس کی وجہ سے وہ ہماری اور خطے کی دیگر مارکیٹوں سے اپنی سرمایہ کاری نکال کر بیرونِ ملک منتقل کررہے ہیں جس کا محفوظ ٹھکانہ امریکی بانڈز اور ٹریژری بلز ہیں حالانکہ اس سرمایہ کاری پر منافع نہایت معمولی ہے لیکن موجودہ حالات میں دنیا میں ڈالر ہی سب سے مستحکم اور محفوظ کرنسی تصور کی جارہی ہے۔میرے بیانیے کو اس لئے بھی تقویت ملتی ہے کہ کورونا وائرس سے پیدا ہونے والے معاشی بحران میں ڈالر کے مقابلے میں دنیا کی تمام کرنسیوں نے اپنی قدر کھوئی۔ مثال کے طور پر (19 مارچ 2020) کو ڈالر کے مقابلے میں برطانوی پائونڈ (1.15 ڈالر) اور یورو (1.6ڈالر) کی کم ترین سطح نے یہ ثابت کردیا کہ موجودہ حالات میں ڈالر ہی مستحکم کرنسی ہے بالخصوص جب امریکہ کے فیڈرل ریزرو بینک نے اپنے پالیسی ریٹ میں ایک فیصد کمی کرکے مارک اَپ صفر کردیا۔ میں یہ وضاحت کرتا چلوں کہ ڈالر کی طلب اور قدر میں اضافے کا رجحان شارٹ ٹرم ہوسکتا ہے لیکن موجودہ حالات میں روپے کی قدر پر دبائو برقرار رہے گا۔

تازہ ترین