• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’ کووڈ 19‘‘ یعنی کورونا وائرس دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک تباہی مچا رہا ہے۔ اِک قیامت کا سا منظر ہے، لاشیں ہیں، افراتفری اور بے بسی ہے۔ اِس وائرس کی لپیٹ میں آکر ہزاروں افراد جان گنوا چُکے ہیں، تو اس سے متاثر ہونے والوں سے اسپتال بَھرے ہوئے ہیں۔ اِس عالمی آفت نے جہاں انسان کو اِس کی اوقات یاد دلائی ہے، بے بسی اور لاچارگی کا سبق دیا ہے، وہیں اِس میں دنیا کے لیے بہت سے پیغامات بھی ہیں۔

افواہوں کے بیچ ایک’’سچّی افواہ‘‘

دنیا کو کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں افواہوں سے بھی مقابلہ کرنا پڑ رہا ہے۔ بالخصوص سوشل میڈیا جہاں عوام کو اِس موذی مرض کے حوالے سے بھرپور آگاہی دے رہا ہے، وہیں اس نے افراتفری پھیلانے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ یہی وجہ ہے کہ کئی ممالک نے افواہ سازوں کے خلاف سخت اقدامات کیے ہیں۔ البتہ اِس سارے قصّے میں ایک’’ سچّی افواہ‘‘ کو بے حد سراہا بھی جارہا ہے۔ یہ چین کا واقعہ ہے۔ ڈاکٹر لی ،ووہان کے مرکزی اسپتال میں آنکھوں کے ڈاکٹر تھے۔ اُنہوں نے گزشتہ برس30 دسمبر کو اپنے دوستوں کو کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے متعلق بتایا، مگر پولیس نے اُنہیں افواہ پھیلانے کے الزام میں گرفتار کر لیا اور پھر تحریری معافی نامے کے بعد ہی اُنہیں رہائی ملی۔ 

تاہم، ڈاکٹر لی کے خدشات درست ثابت ہوئے اور چند ہی روز میں وہاں کورونا وائرس کے مریض سامنے آنے لگے۔ چینی پولیس نے اب اُن پر عائد کردہ تمام الزامات واپس لے لیے ہیں، مگر اس قبل ہی ڈاکٹر لی فروری میں کورونا وائرس کا شکار ہو کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔ اِسی نوعیت کی ایک خبر ایران سے آئی ہے، جہاں سابق وزیرِ صحت، قاضی زادہ ہاشمی نے سماجی رابطے کی ایک ویب سائٹ پر دعویٰ کیا ہے کہ اُنہوں نے گزشتہ برس دسمبر ہی میں ایران کے اعلیٰ حکّام کو مُلک میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ سے آگاہ کر دیا تھا، مگر کسی نے اُن کی بات پر توجّہ نہیں دی۔ ان واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ بعض اوقات حسّاس اطلاعات کو محض افواہ قرار دے کر نظر انداز کر دینا بھی خطرناک ثابت ہوتا ہے۔

اجتہاد کی ضرورت

کورونا وائرس سے جہاں انسانی جانوں کو خطرات لاحق ہوئے، وہیں دنیا کو معاشی اور سماجی طور پر بھی بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اِسی طرح اِس عالمی آفت نے مذہبی معمولات کو بھی نہ صرف یہ کہ بُری طرح متاثر کیا، بلکہ اس حوالے سے سوچ و فکر کے کئی دَر بھی وا ہوئے۔ اسرائیل میں یہودیوں کے تمام عبادت خانوں پر تالے پڑے ہوئے ہیں، تو ویٹی کن سمیت عیسائیوں کے تمام مقدّس مقامات اور چرچز بھی بند ہیں۔ مندروں میں گھنٹیاں بج رہی ہیں اور نہ ہی گوردواروں اور پگوڑوں میں رونق ہے۔ اِسی طرح مسلمانوں کے مقدّس ترین مقامات کو بھی اِس موذی مرض سے محفوظ رکھنے کی کوششیں کی جارہی ہیں ۔ 

بیت اللہ شریف کے طواف کو محدود کر دیا گیا، تو مسجدِ نبویؐ بھی بند ہے۔ مسجدِ اقصیٰ کے دروازے بھی53 برس بعد بند کیے گیے ہیں۔ دراصل ان اقدامات کی وجہ یہ رہی کہ ماہرین کے مطابق کورونا وائرس ایک انسان سے دوسرے انسان میں منتقل ہو سکتا ہے اور عوام کا باہمی میل جول اِس حوالے سے انتہائی خطرناک ہے۔ چوں کہ مسلمان دن میں پانچ بار مساجد میں اجتماعی طور پر نماز ادا کرتے ہیں، اِس لیے یہ سوال زیادہ شدّومد سے سامنے آیا کہ مساجد میں آنے والے نمازیوں کو اس وبا سے کیسے محفوظ رکھا جائے؟ خاص طور پر اجتماعاتِ جمعہ بہت زیادہ زیرِ بحث ہیں۔ گو کہ بیش تر عرب مُمالک میں کورونا وائرس پھیلتے ہی مساجد میں نماز باجماعت کا سلسلہ موقوف کر دیا گیا اور وہاں کے علمائے کرام نے اپنے فتاویٰ میں عوام کو گھروں ہی پر نماز ادا کرنے کی تاکید کی، تاہم پاکستان، بھارت اور بنگلا دیش وغیرہ میں اِس معاملے میں مختلف اور متضاد آرا سامنے آرہی ہیں۔ 

نیز، ان ممالک میں تمام تر پابندیوں کے باجود مذہبی اجتماعات بھی ہو رہے ہیں کہ ان سے عوام کی کئی مذہبی روایات اور تصوّرات منسوب ہیں۔ اسلام نے عالمی آفات اور وبائی امراض کے پھیلاؤ کے ضمن میں واضح احکامات دیے ہیں، تاہم ان احکامات کا جدید دَور میں کس طرح اطلاق ہو، اس پر اہلِ علم میں واضح تقسیم موجود ہے۔ موجودہ حالات میں اِس امر کی ضرورت کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے کہ علمائے کرام اپنی اجتہادی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے عوام کی اِس طرح رہ نُمائی فرمائیں کہ ایک طرف تو وہ پوری یک سوئی سے اسلامی احکامات پر عمل پیرا ہو سکیں، تو دوسری طرف اُن کی جان و مال کی حفاظت بھی یقینی بنائی جاسکے۔

پاک، چین دوستی زندہ باد

ایک ایسے وقت میں جب ہر مُلک کو صرف اپنی پڑی ہے اور کوئی کسی کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھ رہا، ایسے میں پاکستان اور چین نے دوستی کی نئی مثالیں قائم کی ہیں۔ چینی علاقے ووہان میں کورونا وائرس کی وبا پھوٹی، تو وہاں موجود پاکستانی طلبہ کی حفاطت کے حوالے سے بھی سوالات اُٹھے، جو ایک فطری بات تھی۔ تاہم، چین کی اعلیٰ ترین قیادت نے دو ٹوک الفاظ میں پاکستانی عوام کو یقین دہانی کروائی کہ وہ پاکستانیوں کا بھی اپنے شہریوں کی طرح خیال رکھے گی اور پھر ایسا ہی ہوا۔ نیز، پاکستان نے بھی اپنی بساط کے مطابق اس آفت سے نمٹنے کے لیے چین کو تعاون پیش کیا۔ 

چوں کہ چین اِس دوران پوری دنیا سے کٹ گیا تھا اور حالات کی بہتری پر دنیا کو واضح پیغام دینے کی ضرورت محسوس ہوئی، تو بیجنگ میں پہلا جہاز پاکستان ہی کا اُترا، جس کے ذریعے صدرِ مملکت، ڈاکٹر عارف علوی اعلیٰ حکّام کے وفد کے ساتھ وہاں پہنچے۔اور پھر جب کورونا وائرس نے پاکستان کا رُخ کیا، تو چین پہلا اور تادمِ تحریر واحد مُلک ہے، جو پاکستان کی مدد کے لیے دوڑ آیا۔ چین نے نہ صرف یہ کہ طبّی ماہرین کی ٹیمز پاکستان بھجوائیں، بلکہ سرجیکل ماسکس، حفاظتی ملبوسات اور ٹیسٹ کِٹس سمیت دیگر طبّی سامان سے بھرے کار گو جہازوں بھی روانہ کیے۔

تخریب میں تعمیر

اللہ تعالیٰ نے زمین کے باسیوں کو سورج کی تاب کاری سے بچانے کے لیے زمین کو گویا ایک غلاف سا اوڑھا رکھا ہے، جسے’’ اوزون‘‘ کہتے ہیں، مگر ان باسیوں کی جانب سے پھیلائی گئی آلودگی کے سبب اس غلاف میں جگہ جگہ شگاف پڑ چُکے ہیں۔ ماہرین کے مطابق، کورونا وائرس سے دنیا بند ہوئی، کارخانوں کی چمنیوں سے دھواں اُگلنا رکا اور سڑکوں سے گاڑیاں غائب ہوئیں، تو اوزون کی تہہ کی مرمّت بھی شروع ہو گئی۔ اندازہ ہے کہ اگر حالات کچھ ہفتے مزید اِسی طرح رہے، تو اوزون کی تہہ مکمل طور پر مرمّت ہو کر اپنی اصل شکل میں بحال ہوجائے گی۔ پوری دنیا کو سمجھا بُجھا کر یا کسی قانون اور طاقت کے ذریعے بند کروانا ناممکنات میں سے ہے، مگر ایک نظر نہ آنے والے وائرس نے ایسا کروادیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ قدرت کے اِس تحفے کی دنیا مستقبل میں کس طرح حفاظت کرتی ہے؟

صحت کا بجٹ، اول ترجیح

یورپ اور امریکا کے ’’ہیلتھ سسٹم‘‘ کو باقی دنیا کے لیے ایک مثال قرار دیا جاتا ہے اور اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ وہاں شہریوں کو علاج معالجے کی معیاری سہولتیں میّسر ہیں۔ تاہم، کورونا کی شکل میں آنے والی عالمی آفت نے اُن کے صحت کے نظام کو بھی بِٹھا دیا۔ لیکن پاکستان سمیت ترقّی پذیر ممالک میں یہ مسئلہ زیادہ شدّت سے سامنے آیا کہ ان ممالک میں اسپتالوں میں متاثرین کے لیے بیڈز تھے اور نہ ہی وینٹی لیٹرز سمیت دیگر ضروری طبی آلات۔ دراصل، ان ممالک میں عوام کے لیے علاج معالجے کی معیاری سہولتوں کی فراہمی کبھی ترجیح ہی نہیں رہی۔ جو ہوا، سو ہوا، کم از کم آیندہ کے لیے اپنی قومی ترجیحات کا ازسرِ نو جائزہ لیتے ہوئے بجٹ کا ایک معقول حصّہ اس مَد میں رکھنا چاہیے۔

امیر غریب سب برابر

عام طور پر آفات غریب غربا ہی پر ٹوٹتی ہیں اور بالا دست طبقات ان سے قدرے محفوظ رہتے ہیں، مگر کورونا نے تمام طبقات کو برابر طور پر متاثر کیا ہے۔ اس نے امیر غریب، رعایا حاکم، مرد عورت، کالا گورا، مذہبی، غیر مذہبی گویا کہ ہرطرح کی تفریق مٹا دی۔ اگر ہم متاثرین کی فہرست پر نظر ڈالیں، تو اس میں کئی ممالک کے سربراہان یا اعلیٰ حکومتی شخصیات اور نام وَر افراد بھی شامل ہیں۔ برطانوی وزیرِ اعظم، بورس جانسن اور شہہ زادہ چارلس بھی اس کی لپیٹ میں آئے۔ اسپین کی شہہ زادی، ماریا تو اس کا شکار ہو کر انتقال کر گئیں۔نیز، ایران کے 12 اعلیٰ حکومتی عُہدے داروں کو بھی اس کے سبب جان سے ہاتھ دھونا پڑا، جن میں آیت اللہ ہاشم جیسی قدر آور شخصیت بھی شامل ہے، جو ایران کے سپریم لیڈر کی تقرّری کرنے والی کمیٹی کے اہم رُکن تھے۔ اٹلی میں69 پادری کورونا میں مبتلا ہوکر ہلاک ہو چُکے ہیں۔ 

امریکی سینیٹرز، ہارورڈ یونی ورسٹی کے صدر اور ہالی وُڈ کے کئی فنکار بھی اس کی لپیٹ میں آئے ہیں۔ ملکۂ برطانیہ، جرمن چانسلر، کینیڈین وزیرِ اعظم، اسرائیلی وزیرِ اعظم اور تھائی لینڈ کے بادشاہ سمیت کئی ممالک کی اعلی ترین شخصیات کو قرنطینہ کا فیصلہ کرنا پڑا۔ پاکستان کی بات کریں، تو یہاں سندھ کے وزیرِ تعلیم سعید غنی اور کے پی کے اسمبلی کے ایک رُکن بھی کورونا سے متاثر ہوئے ہیں۔اِس صُورتِ حال سے ظاہر ہوتا ہے کہ امراء کو حاصل سہولتیں بھی کبھی ناکافی ہوجاتی ہیں۔اِس لیے دنیا، خاص طور پر پاکستان جیسے ممالک کو آبادی کے کسی مخصوص حصّے کو سہولتوں کی فراہمی پر فوکس رکھنے کی بجائے پوری قوم کو یک ساں اہمیت دینی چاہیے۔ ہم نے دیکھا کہ جو افراد معمولی نزلہ زکام کے لیے بھی لندن اور امریکا جاتے تھے، وہ بھی آج اپنے ہی ملکوں کے نظامِ صحت کے رحم وکرم پر ہیں۔

ریسرچ اور ٹوٹکے

دنیا بھر کے ماہرین کورونا وائرس کے سدّباب کے لیے طبّی تحقیق میں مصروف ہیں کہ جلد سے جلد کوئی دوا تیار کی جاسکے۔ تاہم، پاکستان اس دَوڑ میں دُور دُور تک نظر نہیں آتا۔ اِس افسوس ناک صُورتِ حال نے ہمارے تعلیمی نظام میں تحقیق کے معیار پر سنجیدہ سوالات اُٹھائے ہیں۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن اور وفاقی وزیرِ تعلیم، شفقت محمود کی جانب سے مستقبل میں ٹھوس اقدامات کی بات کی گئی ہے۔ البتہ، ہمارے ہاں ٹوٹکے بازوں کا میلہ لگا ہوا ہے۔ سوشل میڈیا تو اِن دنوں ٹوٹکوں کی منڈی بنا ہوا ہے، لیکن یہ دیکھ کر خوش گوار حیرت ہوتی ہے کہ اِس بار عوام نیم حکیموں کو کچھ زیادہ لفٹ نہیں کروا رہے۔ تاہم، کینیا اور ایران سے افسوس ناک خبریں آئی ہیں۔ کینیا میں 63 افراد نے کورونا سے بچنے کے لیے ڈیٹول پی لیا، جس سے 59 افراد ہلاک ہو گئے۔ اسی طرح کا واقعہ ایران میں بھی پیش آیا، جہاں ڈیٹول پینے سے400 افراد چل بسے، جب کہ ڈھائی ہزار افراد کو تشویش ناک حالت میں اسپتال پہنچایا گیا۔ پاکستان میں سبز چائے کا ٹوٹکا وائرل ہوا، کئی علاقوں میں اِس پر عمل بھی ہوا، مگر پھر بھی بچت ہی رہی۔

خاندانی نظام کے لیے خطرے کی گھنٹی

لاک ڈاؤن کے دَوران یہ جملہ خاصا وائرل ہوا کہ’’گھر پر رہنے والا مرد بھی ساس سے کم نہیں ہوتا۔‘‘ شاید اِس جملے کا پس منظر لڑائی جھگڑے کے وہ واقعات ہیں، جو اِس دَوران بہت سے گھروں میں دیکھے گئے۔ فرانسیسی وزیرِ داخلہ کا کہنا ہے کہ’’ لاک ڈاؤن کے دَوران پیرس میں گھریلو تشدّد کے واقعات میں 36فی صد اضافہ ہوا۔‘‘ باقی یورپ کی بھی یہی کہانی ہے۔ چین سے خبر آئی کہ وہاں لاک ڈاؤن کے ڈیڑھ ماہ میں 300 جوڑوں نےآپس میں جھگڑا کر کے طلاق لے لی۔ پاکستان میں صُورتِ حال بہتر ہے، صرف لاہور سے ایک رپورٹر نے خبر دی کہ گھروں میں پڑے رہنے کی وجہ سے شہریوں میں چڑچڑاہٹ بڑھ گئی۔ شاید پاکستانی گھرانوں میں سکون کی ایک وجہ یہ بھی ہو کہ یہاں کے مَرد، مغربی مَردوں کی نسبت کھانا پکانا کم جانتے ہیں اور ہوٹل بند ہیں، اِس لیے گھر پر کسی شور شرابے کے بغیر پڑے رہنا ہی ان کے لیے واحد آپشن ہے۔ ویسے گھر تو سکون کی جگہ ہوتے ہیں، والدین اور بچّے جب اکٹھے ہوتے ہیں، تو اُن کی خوشی دیدنی ہوتی ہے، مگر اس کے باوجود ہنگاموں کی خبریں معاشرے کے لیے نیک شگون نہیں۔

قومی ہیروز

ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کے بارے میں عام طور پر منفی رائے کا اظہار کیا جاتا ہے، مگر حالیہ آفت کے دَوران ان کا ایک مثالی امیج اُبھر کر سامنے آیا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب محاورتاً نہیں، بلکہ عملاً کوئی کسی کا نہیں، حتیٰ کہ خونی رشتے بھی غیر ٹھہرے ہیں، یہ ڈاکٹرز اور دیگر طبّی عملہ ہی ہے، جو اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر کورونا وائرس کے مریضوں کے علاج معالجے میں مصروف ہے۔ جی ہاں! بات جان ہتھیلی پر رکھنے ہی کی ہے۔

خاص طور پر پاکستان جیسے ممالک میں، جہاں حفاظتی لباس تو ایک طرف رہا، ڈاکٹرز کو مخصوص ماسک تک بروقت فراہم نہ کیے جاسکے اور قوم کے یہ ہیرو اسی حالت میں اپنی فرائض سَر انجام دے رہے ہیں۔ ڈاکٹرز کو کئی مقامات پر سیلوٹ کیے گئے، مگر سچ تو یہ ہے کہ’’ڈاکٹرز کو سیلوٹ نہیں، حفاظتی سوٹ چاہیے۔‘‘ یہ جملے پڑھتے ہوئے یقیناً گلگت بلتستان کے جواں سال، ڈاکٹر اُسامہ ریاض کا چہرہ آپ کی نگاہوں میں گھوم رہا ہوگا۔ جو’’پڑی بنگلہ‘‘ نامی مقامی پر قائم قرنطینہ مرکز میں ایران سے آنے والوں کا علاج کرتے ہوئے خود کورونا وائرس کا شکار ہو کر انتقال کر گئے۔

پاکستانی اتنے بُرے بھی نہیں

شاید یہ احساسِ کم تری کا معاملہ ہے یا پھر واقعی ان واقعات میں کچھ صداقت بھی ہے، جن کی وجہ سے پاکستانیوں کے بارے میں منفی رائے رکھی جاتی ہے اور جہاں موقع ملتا ہے، اُنہیں کوسنے ہی ملتے ہیں، مگر حالیہ عالمی آفت کے دَوران پاکستانیوں نے ثابت کیا ہے کہ انسانی خدمت میں وہ کسی سے پیچھے نہیں۔ پاکستانی تارکینِ وطن کا اِس حوالے سے عالمی میڈیا میں بھی چرچا ہو رہا ہے۔ جب ووہان میں کورونا وائرس نے سَر اُٹھایا،تو اچھے خاصے مضبوط اعصاب کے افراد پر بھی لرزہ طاری ہو گیا، مگر چین میں موجود ایک نوجوان پاکستانی ڈاکٹر نے خود کو ووہان میں کورونا سے مقابلے کے لیے پیش کر دیا۔ اٹلی میں پاکستانی کمیونٹی نے چندہ کرکے ہزاروں یوروز حکومت کے فنڈ میں جمع کروائے، جب کہ اسپین میں تو پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور نے کمال ہی کر دیا۔ طبّی عملے کے لیے اپنی گاڑیاں وقف کر دیں، جس پر وہاں اُس کی خُوب ستائش بھی کی جارہی ہے۔

’’العوام کالانعام‘‘

عربی مقولہ ہے کہ’’العوام کالانعام ‘‘ یعنی عوام تو جانوروں کی مانند ہوتے ہیں۔‘‘ اس مقولے میں درحقیقت عوامی شعور کی کمی کی طرف اشارہ ہے، گویا اس طرح کے افراد بھیڑ بکریوں کی مانند ہی ہوتے ہیں۔آزمائش کی اِس گھڑی میں یہ بات بہت واضح طور پر محسوس کی جا رہی ہے کہ عوام ستّر برسوں میں بنیادی معاملات کے حوالے سے بھی شعور وآگاہی کی اس کم سے کم سطح پر نہیں پہنچ سکے، جس سے نیچے کا تصوّر بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ساری دنیا چیخ رہی ہے کہ کورونا وائرس کے مریض سے دُور رہیں، کیوں کہ یہ وائرس ایک انسان سے دوسرے میں منتقل ہوجاتا ہے، مگر اس کے باوجود خیر پختون خوا کے ایک گھرانے نے نہ صرف یہ کہ ایسے مریض کو گاؤں والوں سے چُھپایا، بلکہ ڈاکٹرز سے بھی غلط بیانی کی، جس کی وجہ سے پورے گاؤں اور طبّی عملے کو قرنطینہ کا سامنا کرنا پڑا۔ 

یہ اپنی نوعیت کا واحد واقعہ نہیں، دیگر علاقوں سے بھی ایسی ہی کہانیاں سُننے میں آ رہی ہیں۔ حیران کُن بات تو یہ ہے کہ کورونا کے مریض اسپتالوں سے بھی فرار ہو رہے ہیں اور جب اِس کی وجہ پوچھی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ’’ ڈاکٹر خواہ مخواہ ڈرا رہے ہیں۔‘‘ حکومت نے لاک ڈاؤن کا اعلان کیا، مگر اس کے باوجود بہت سے لوگ اسے سنجیدہ نہیں لے رہے، وہ اب بھی اسے امیروں کے چونچلے قرار دیتے ہیں۔ دنیا بھر میں کورونا سے ہزاروں افراد مر چُکے، مگر پاکستان میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں، جو اسے اب بھی ڈراما سمجھتے ہیں۔ طبّی ماہرین کی جانب سے جو احتیاطی تدابیر بتائی جارہی ہیں، انہیں بھی عوامی سطح پر بہت سیریس نہیں لیا جارہا۔ یہ حالات و واقعات عوامی شعور کی خوف ناک تصویر پیش کر رہے ہیں۔ جو قوم اپنی جان اور اپنی صحت کے حوالے سے بھی سنجیدگی اختیار کرنے پر آمادہ نہ ہو، اس سے کسی اور چیز کی توقّع کیسے رکھی جاسکتی ہے؟

آن لائن ٹیکنالوجی

کورونا وائرس جیسی عالمی آفت نے دنیا کو ٹیکنالوجی کی اہمیت کی طرف بھی متوجّہ کیا ہے۔ سب سے کٹ کر گھروں تک محدود رہنا اِس آفت سے بچاؤ کا واحد ذریعہ قرار پایا ہے، مگر بہت سے کام ایسے ہیں، جنہیں روکا بھی نہیں جاسکتا۔ سو، لاک ڈاؤن کے عرصے میں آن لائن یا گھروں پر رہتے ہوئے کام کی ضرورت اور افادیت کا پہلی بار بڑے پیمانے پر تجربہ ہوا۔ ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر کے کروڑوں افراد اپنے ضروری کام کاج آن لائن کر رہے ہیں۔ پاکستان میں بھی بہت سے اداروں کے ملازمین نے گھروں پر رہتے ہوئے اپنے فرائض سَر انجام دیے۔ ہمارے ہاں اس حوالے سے ابھی بہت کام کرنا باقی ہے، لیکن آن لائن کام کی جانب بہرحال اچھا سفر شروع ہو گیا ہے۔

تازہ ترین