• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ٹرائل کورٹ متاثر نہ ہو، ایڈیٹر انچیف جنگ جیو دوبارہ اسی عدالت آسکتے ہیں، لاہور ہائیکورٹ، درخواست ضمانت خارج

ٹرائل کورٹ متاثر نہ ہو، ایڈیٹر انچیف جنگ جیو دوبارہ اسی عدالت آسکتے ہیں، لاہور ہائیکورٹ


لاہور(نمائندہ جنگ) لاہور ہائیکورٹ کے دور کنی بنچ نے جنگ جیو نیوز کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن کی پلاٹ الاٹمنٹ کیس میں نیب کی طرف سے گرفتاری اور جسمانی ریمانڈ لینے کے خلاف اور ضمانت پر رہائی کی درخواستیں خارج کردیں۔

عدالت نے اپنے ۱۳ صفحات پر مشتمل فیصلہ میں قرار دیا کہ میر شکیل الرحمن کے خلاف معاملہ زیر تفتیش اور ابتدائی مرحلہ پر ہے تاہم میر شکیل الرحمٰن مناسب مرحلے پر ضمانت پر رہائی کی داد رسی کے لیئے رجوع کر سکتے ہیں۔

یہ بھی وضاحت کی جاتی ہے کہ جوآبزرویشنزدی گئی ہیں وہ دستیاب مواد کی بنیاد ہیں اور ہنگامی نوعیت کی ہیں ،چنانچہ ٹرائل کورٹ ٹرائل کے دوران کسی طور سے بھی ان سے متاثر نہیں ہوگی ۔

عدالت نے اپنے فیصلہ میں میر شکیل الرحمٰن کے وکیل بیرسٹر اعتزاز احسن کے دلائل کا تفصیلی حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ وکیل کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ ۳۴سال پرانا ہے اور نیب آرڈینس ۱۹۹۹کے تحت نیب کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا وکیل نے یہ بھی کہا کہ استغاثہ کو میر شکیل الرحمٰن کے خلاف ایک بھی شہادت نہیں ملی اس لیئے ان کی گرفتاری کا کوئی جواز نہیں بنتا۔

وکیل کا یہ بھی کہنا تھا کہ جوہر تاون کے حوالہ سے ایگزیپشن پالیسی کی غلط تشریح کی جارہی ہے وکیل کے مطابق درخوااست گزار کو شکائت کی تصدیق کے مرحلہ پر گرفتار کیا گیا جبکہ احتساب عدالت نے مائینڈ اپلائی کیئے بغیر جسمانی ریمانڈ دیا درخواست گزار عمر رسیدہ اور متعدد بیماریوں میں مبتلا ہے ۔

وکیل کے مطابق درخواست گزار کی گرفتاری ۸ اکتوبر ۲۰۱۹کے ایس و پیز کی خلاف ورزی ہےد رخواست گزار کی گرفتاری زاتی انتقام کی کارروائی ہے کیونکہ مدعا علیہ چیئرمین نیب کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس پر جیو نیوز نےاس پر پروگرام ٹیلی کاسٹ کیا تھا، آئین کے تحت ہر شہری کے بنیادی حقوق کو تحفظ دیا گیا ہے۔

وکیل نے اپنے موقف کی حمائیت میں سندھ ہائیکورٹ کے محمد حنیف وغیرہ بنام نیب اور میاں غلام جیلانی بنام وفاق پاکستان کیسوں کے حوالے بھی دیئے عدالت نے اپنے فیصلہ میں پراسیکیوٹر نیب کے دلائل کا تفصلی حوالہ دیتے ہوئے عدالت نے فیصلہ میں نیب آرڈیننس ۱۹۹۹ کے سیشن ۱۸ بی اور ۱۸ ای کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ درخواست گزار کے خلاف جو انکوائری ہو رہی ہے اس کا مقصد ضروری دستاویزات کا جائزہ لینا ہے۔

لہذا درخواست گزار کو جاری کیا گیا کال اپ نوٹس غیر قانونی قرار نہیں دیا جا سکتا جبکہ درخواست گزار نے اسے چیلنج بھی نہیں کیا عدالت نے لکھا کہ درکواست گزار کے وکلا نے احتساب عدالت کی طرف سے دیئے گئے جسمانی ریمانڈ کے فیصلوں پر سنجیدہ سوال اٹھائے ہیں عدالت نے لکھا کہ درخواست گزار تاحال ریمانڈ پر ہے جبکہ ریکارڈ پر موجود ہے کہ گرفتای کی وجوہات اور موادسے درخواست گزار کو آگاہ کیا گیا جو نیب قانون اور آئین کے تحت ہے احتساب عدالت کے ایڈمنسٹرٹیو جج نے اپنا جودیشل عقل کومطمئن کرنے یا معلومات کی روشنی میں ملزم کا ریمانڈ دیا۔

ریکارد کا جائزہ لینے سے یہ بات سامنے آئی کہ درکواست گزار نے ہدائیت علی وغیرہ سے جنرل پاور ااف اٹارنی لیا اور پھر اراضی کی عبوری ڈویلپمنٹ کی درخواست دی۱۱ جولائی ۱۹۸۶کو سمری منظور کی گئی اور ۵۴ کینا ل اراضی بمعہ دو گلیوں کےمستثنی قرار دی گئی۔

درخواست گزار نے یہ اراضی اپنے بیوی بچوں کو فروخت کر دی عدالت نے لکھا کہ بطور مختار عام درخواست گزار نےجوہر ٹاون میں برلب نہر ۵۴ کینال اراضی کی ایگزمپشن لی اور اسے ۵۸ کینال ۱۸ مرلہ کے بڑے پلاٹ میں تبدیل کر لیا درخواست گزار کی طرف سےیہ تو بتایا گیا کہ اضافی اراضی کی قیمت یا واجبات ادا کیئے گئے یہ نہیں بتایا گیا کہ دو گلیوں پر مشتمل سرکاری اراضی کس قانون یا پالیسی کے تحت کسی کو دی جاسکتی ہے عدالت نے لکھا کہ یہ تسلیم شدہ بات ہے کہ یہ معاملہ ۳۴ سال پرانا ہے ۔

تاہم یہ معاملہ نیب کے دائرہ اختیار میں آتا ہے عدالت نے لکھا کہ درخواست گزار کےوکیل کا کہنا ہے کہ وہ مختلف بیماریوں کا شکار ہے مگر درخواست گزار نے ریکارڈ پر ایساکوئی مواد منسلک نہیں کیا جس سے ثابت ہوکہ یہ بیماریاں اس کی زندگی کے لیئے خطرہ ہیں۔

عدالت نے لکھا کہ جہاں تک چیئرمین نیب کے بارےایک ویڈیو کے حوالے سے پروگرام نشر کرنے کی بنیاد پر درخواست گزار کے خلاف کارروائی شروع کرنے کا الزام ہے تو کسی بھی شخص کو احتساب سے استسثنی حاصل نہیں جبکہ معاملہ جرم کے ارتکاب کا ہو لہذا یہاں آئین کے آرٹیکل ۲۵کی خلاف ورزی کا نہیں بنتا اگر کوئی انکوائری کو دانستہ طور پر ہیمپر کرے گا تو ایسی صورت میں قانون خود دیکھ لے گا ۔

ملک کے معروف سینئر قانون دان بیرسٹر اعتزا ز احسن نے جنگ گروپ اور جیو نیوز کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمن کی نیب میں گرفتاری جسمانی ریمانڈ کے خلاف اور ان کی رہائی کے لیئے دائر درخواستوں پر لاہور ہائیکورٹ کے دو رکنی بنچ کے روبرو نکتہ اٹھایا کہ نیب میر شکیل الرحمن کے خلاف کیس ثابت نہیں کر سکی میر شکیل الرحمن پر جو الزام عائد کیا گیا۔

وہ 34سال پرانا ہےجو ایک سول ٹرانزیکشن تھی اور نیب اسے کرمنل ٹرانزیکشن ثابت نہیں کر سکا پلاٹوں کی خرید و فروخت پر سینکڑوں ہزاروں ٹرانزیکشن ایل ڈی میں ہوتی ہیں یہ بھی اسی طرح کی ایک سول ٹرانزیکشن تھی جس کو نہ تو کسی نے چیلنج کیا اور نہ ہی اس پر کوئی سوال اٹھاہا گیا نیب نے عدالت میں جمع کرائے گئے جواب میں اس بابت ایک لفظ نہیں کہا۔

انھوں نے کہا کہ ایگزیمپشن پالیسی کے مطابق لفظ ایوری استعمال ہوا ہے یعنی ہر الاٹی کو الگ الگ ایگزیمپشن دی جائے گی اور متنازعہ اراضی کے سات الاٹیز تھے اس میں میر شکیل الرحمن تو الاٹی تھے ہی نہیں ایگیمپشن پالیسی کے تحت ہر مالک کو تیس فیصد ایگزیمپشن ملے گی اور اس طرح حاکم علی ہدائیت علی سرور قائم علی جہانیاں بی بی حمیدہ بی بی وغیرہ سات الاٹیوں کو پالیسی کے مطابق ایگزیمپشن دی گئی۔

اس لیئے بھی یہ نیب کا کیس نہیں بنتا انھوں نے کہا کہ نیب جس مرضی کو چاھے ملزم یا گواہ بنا لیتا ہے جسے چاھے چھوڑ دیتا ہے اعتزاز احسن نے کہا کہ نیب نے ایسی کوئی سمری پیش نہیں کی جس پر میر شکیل الرحمن کے دستخط ہوں یا میر شکیل الرحمن سےایسی کوئی دستاویز برآمد کی جس سے میر شکیل الرحمن کا جرم ثابت ہو یہ ڈی جی ایل ڈی اے اور اس وقت کے وزیراعلی کے درمیان معاملہ ہے۔

جس کا میر شکیل الرحمن سے کوئی تعلق نہیں اگر کوئی شخص اپنے بیٹے سے کہے کہ مہمان آئے تو اس کا دھیان رکھنا اور اگر وہ بچہ باپ کے کہنے پر مہمان کا دھیان رکھتا ہے اور اس کی آو بھگت کرتا ہے تو اس میں مہمان کا تو کوئی قصور نہیں میر شکیل عمر رسیدہ اور بیمار ہیں، ضمانت پر رہا کیا جائے،میر شکیل کہیں بھاگنے نہیں لگا ۔

نیب کا کہنا ہے کہ میر شکیل الرحمن کو دو سڑکیں بھی الاٹ کر دی گئیں تو یہ 2 سڑکیں پر لگا کر دبئی تو نہیں چلی جائیں گی یہ ایک دستاویزی شہادتوں کا کیس ہےاور نیب نے تمام دستاویزات اپنے پاس رکھ لی ہیں۔

میر شکیل الرحمن تو نیب سے پورا تعاون کر رہے ہیں پھر انھیں پکڑ کر رکھنے کا کوئی جواز نہیں یا ویسے ہی نیب کو انھیں پکڑے رکھنے کا شوق ہے نیب کا کہنا ہے کہ چیئرمین نیب کو ویڈیو لنک پر ساری صورتحال سے آگاہ کیا گیا نیب کے جواب میں کسی ویڈیو لنک کا ذکر نہیں ہے اور میں دعوی سے کہتا ہوں کہ کوئی ویڈیو لنک نہیں تھا۔

نیب کے پہلے جواب میں کہا گیا تھا کہ چیئرمین نیب کے ساتھ فیکس کے ذریعے رابطہ کیا گیا تھا اور اب دوسرا موقف لیا گیا ہے کہ چیئرمین نیب کے ساتھ ویڈیو لینک کے ذریعے رابطہ کیا گیا تھا۔

فیکس ریکارڈ یا ویڈیو لنک ریکارڈ کہاں ہے؟نیب جواب میں تسلیم کر رہا ہے کہ ابھی انکوائری مکمل نہیں ہوئی تو پھر کیسےمیر شکیل کو گرفتار کیا گیا، نیب یہ بھی تسلیم کر رہا ہے کہ میر شکیل پر بزنس مین پالیسی کا نفاذ ہوتا ہے اعتزاز احسن نے کہا کہ میر شکیل الرحمن کے وارنٹ گرفتاری پہلے جاری کئے اور انکوائری بعد میں کی گئی ہے۔

اعتزاز احسن نے عدالت سے استدعا کی کہ نیب سےمیر شکیل سے انکوائری کی تمام کارروائی کی ویڈیو ریکارڈنگ منگوا لی جائے اور سوال نامہ لینے دینے کی بات سامنے آجائے گی کیونکہ نیب اپنی کارروائی کی ویڈیو ریکارڈنگ کرتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ نیب تحقیقات جاری رکھے ہم یہ نہیں کہتے کہ انکوائری ختم کر دی جائے ہم تو انکوائری میں تعاون کر رہے ہیں مگر نیب کے غیر قانونی عمل کی وجہ سے میر شکیل کو مقدمہ سے ڈسچارج کیا جانا چاھئے اعتزاز احسن نے عدالت کو آگاہ کیا کہ نیب کا کہنا ہے کہ میر شکیل الرحمن کو اضافی زمین دی گئی تو میر شکیل نے اضافی زمین کی رقم ایل ڈی اے کو ادا کر رکھی ہےجب میر شکیل کو زمین الاٹ کی گئی تب وہاں کوئی سڑک نہیں تھی وہ ایک میدان تھا۔

نیب میر شکیل الرحمن کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کر سکا اور نہ ہی ان کے خلاف کوئی کیس بنتا ہے اعتزاز احسن نے کہا کہ نیب جو الزام عائد کر رہا ہے اگر اسے مان لیا جائے تو اس پر ایل ڈی ایکٹ کے تحت سزا موجود ہے اور سابق چیف جسٹس پاکستان مسٹر جسٹس ثاقب نثار کا فیصلہ ہے کہ جہاں دو قوانین کا اطلاق ہو تو وہاں کم سزا والا قانون لاگو ہوگا اعتزاز احسن نے کہا کہ میر شکیل الرحمن کہیں بھاگ نہیں چلے ۔

نیب جن سڑکوں کا الزام عائد کر رہا ہے وہ پر لگا کر دبئی نہیں چلی جائیں گی اس لیئے میر شکیل الرحمن کی ضمانت منظور ہونی چاھیئے اعتزاز احسن نے کہا کہ میں اپنے موقف پر قائم ہوں کے میر شکیل الرحمن کے وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے مائنڈ اپلائی نہیں کیا گیا انکوائری لاہور میں چل رہی تھی اور وارنٹ اسلام آباد سے جاری ہو رہے تھے اور نیب نے اپنے جواب میں اسے تسلیم بھی کیا ہے اعتزاز احسن نے کہا کہ نیب ایسی کوئی دستاویز سامنے لے آئے جس میں میر شکیل الرحمن نے کوئی غیر قانونی رعایت مانگی ہو۔ میر شکیل الرحمان کبھی درخواست نہیں دی کہ انہیں دو گلیاں الاٹ کر دی جائیں۔

نیب کے پاس کوئی ثبوت ہے تو پیش کریں یا ایسی کوئی درخواست سامنے لے آئے۔حقیقت یہ ہے کہ میر شکیل الرحمن نے جو سوال نامہ خود اپنے لیئے اپنی صفائی پیش کرنے کے لیئے تیار کیا تھا نیب نے وہ بھی رکھ لیا نیب خود تسلیم کر رہا ہے کہ ابھی انکوائری مکمل نہیں ہوئی اعتزاز احسن نے کہا کہ کہ ایفا مرتضی کیس میں بھی یہی معاملہ اعلی عدلیہ کے سامنے آیا تھا کہ وارنٹ پہلے جاری ہوئے انکوائری بعد میں ہوئی اور اعلی عدلیہ نے اس کا سخت نوٹس لیا میر شکیل الرحمن کے ساتھ بھی یہی ہوا وارنٹ پہلے جاری کر دیئے اور انکوائری بعد میں کی جارہی ہےْ

انھوں نے کہا کہ قانون عدالت کو ملزم کی نہ صرف ضمانت لینے کا اختیار دیتا ہے بلکہ گرفتاری کا عمل غیر قانونی ہونے پر ملزم کو چھوڑنے کا بھی اختیار دیتا ہے یہ عدالت کی صوابدید ہے کہ وہ محض بانڈ پر ملزم کو ریلیز کر دے احتساب عدالت کو چاھیئے تھا کہ وہ میر شکیل الرحمن کا دوسری مرتبہ جسمانی ریمانڈ دینے سے پہلے ان کی حراست کے قانونی پہلووں کا جائزہ لیتی مگر احتساب عدالت نے مائنڈ اپلائی کیئے بغیر جسمانی ریمانڈ دیا اور میرا موقف بھی یہی ہے کہ عدالت نے مائنڈ اپلائی نہیں کیا میر شکیل کی طرف سے امجد پرویز نے اپنے دلائل میں کہا کہ وزیر اعلی سے کبھی بھی ایگزمپشن نہیں مانگی گئی پالیسی میں یہ بھی ہے کہ ایگزمپشن پر نزدیک نزدیک پلاٹ الاٹ کئے جا سکتے ہیں برلب نہر میر شکیل الرحمن کی پہلے سے 33کنال اراضی موجود تھی ۔

فرض کر لیا جائے کہ میر شکیل الرحمن کے کے ذمہ کوئی واجبات ہیں تو ان کی وصولی کا طریقہ کار موجود ہے مگر نیب کا پھر بھی کوئی عمل دخل نہیں بنتا اور میر شکیل الرحمن کے خلاف ایسی کوئی شہادت موجود نہیں کہ انھوں نے ایل ڈی اے کے کوئی واجبات ادا کرنے ہیں امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کی نیب نے غیر قانونی طور پر میر شکیل کو طلبی کے نوٹس بھجوائے، اس سے قبل جب کیس کی سماعت شروع ہوئی تو نیب کے پراسیکیوٹر فیصل بخاری نے عدالت کو بتایا کہ یہ معاملہ 2019سے زیرالتوا ہے نیب نے ایل ڈی اے تمام ریکارڈ منگوا کر چھان بین کے بعد میر شکیل کو 5مارچ کے لیئے طلب کیا۔

پراسیکیوٹر نیب عدالت میں تاریخیں اور سنہ غلط بتاتے رہے جس پر عدالت نے نوٹس لیتے ہوئے انھیں صحیح طور پر دلائل دینے کی ہدائیت کی ۔پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ میر شکیل الرحمن کو 5مارچ 2019کے لیئے طلب کیا اس پر عدالت نے کہا کہ ریکارڈ پر تو مارچ 2020لکھا ہے جس پر پراسیکیوٹر نے سوری کہہ کر تصیح کی تاہم وہ بار بار عدالت میں تاریخ آوٹ سنہ غلط بتاتے رہے اور عدالت ان کی توجہ اس جانب مبذول کراتی رہی پراسیکیوٹر نے کہا کہ میر شکیل الرحمن کو 26 سوال دیئے گئے۔

میر شکیل نے نیب کے تمام سوالات سے انکار کیا سابق وزیراعلی میاں نواز شریف نے غیر قانونی طور پر میر شکیل الرحمن کو 54 پلاٹ الاٹ کیئے اس پر عدالت نے کہا کہ آپ کبھی 56پلاٹ کہتے ہیں تو کبھی 54کہتے ہیں پراسیکیوٹر نے کہا کہ چیئرمین نیب نے میر شکیل الرحمن ۔میاں محمد نواز شریف اور ایل ڈی اے کے ذمہ دار افسروں کے خلاف انکوائری کی منظوری دی 12 مارچ کو میر شکیل الرحمن نے جب نیب کے سوالنامہ کا جواب دینے سے انکار کیا تو چیئرمین نیب کو ویڈیو لنک کے ذریعے تمام حقائق سے آگاہ کیا گیا تھا۔

جس کے بعد ان کے وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے پراسیکیوٹر نے کہا کہآج کل تو سپریم کورٹ میں اور حکومتی فیصلے بھی ویڈیو لنک کے ذریعے ہوتے ہیں، نیب پراسکیوٹر کے مطابق کیس کی تمام کارروائی چیئرمین نیب کے علم میں ہے اور انکی ہدایات پر تحقیقات کی جا رہی ہیں،میر شکیل نے میاں نواز شریف کی ملی بھگت سے غیر قانونی طور پر پلاٹوں پر ایگزمپشن حاصل کی، نیب پراسکیوٹر کا کہنا تھا کہ میر شکیل کو پالیسی کیخلاف ایک طرح پورا بلاک الاٹ کیا گیا۔

میر شکیل کی نہر پر 33 کنال زمین تھی، تاریخ میں ایل ڈی اے، سی ڈی اے، ڈی ایچ اے کسی بھی ہائوسنگ سوسائٹی نے سڑکوں کو پلاٹ میں شامل نہیں کیا۔

ملکی تاریخ کا یہ پہلا کیس ہے جس میں کسی کو غیر معمولی رعایت دی گئی ہے، نیب پراسکیوٹر نے کہا کہ احتساب عدالت نے بھی قرار دیا ہے کہ معاملے کی مزید انکوائری کی ضرورت ہے4 جون 1986ء کو ملزم نے ڈی جی ایل اے کو ایگزمپشن دینے کی درخواست دی،180 کنال کی زمین کے عوض ایک ہی درخواست دی گئی جس میں میر شکیل الرحمن نے عبوری تعمیر کی اجازت مانگی تھی مگر میر شکیل کو ایگزمپشن بھی دے دی گئی۔

نیب پراسکیوٹر کا کہنا تھا کہ ایل ڈی اے نے پلاٹ الاٹ کرتے ہوئے 2 سڑکیں بھی شامل کر دیں،میر شکیل ڈی جی ایل ڈی سے خواہش کا اظہار کیا کہ انھیں ایک ہی بلاک میں زمین پر ایگزمپشن دی جائے، اس وقت کے وزیر اعلی نے ایگزمپشن پر منظوری دی نواز شریف نے سمری منظور کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ میر شکیل کو خصوصی رعایت دی جائے۔

نیب پراسکیوٹر کا کہنا تھا کہ نواز شریف نے منظوری دیتے ہوئے کہا کہ اس کیس کو دوبارہ مثال نہ بنایا جائے، میر شکیل کو 14 جولائی 1986ء میں ایگزمپشن دی گئی، نیب پراسکیوٹر کا کہنا تھا کہ ریکارڈ کے مطابق میر شکیل کی اراضی مختلف جگہوں پر واقع تھی۔

اصول کے مطابق میر شکیل کو جہاں جہاں اسکی جگہ واقع تھی وہیں ایگزمپشن پر پلاٹ ملنے چاہئیں تھے، مگرخصوصی رعایت کے ذریعے ایک ہی بلاک میں 54 کنال زمین الاٹ کر دی گئی، جسٹس سردار نعیم نے استفسار کیا کہ کیا پالیسی میں ایسا ہے کہ سڑک بھی ایگزمپشن میں شامل کر دیا جائے؟

پراسیکیوٹر نے کہا کہ کسی بھی ہائوسنگ سوسائٹی میں ایسا نہیں ہوتا، سڑک ہمیشہ سڑک ہی رہتی ہے، پراسیکیوٹر نے دستاویزات پڑھنا شروع کیں تو عدالت نے کہا کہ آپ صرف متعلقہ بات ہی بتائیں دوران سماعت پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ درخواست گزار نے الزام لگایا کہ ان کے خلاف کارروائہ بدنیتی پر مبنی ہے اور حوالہ سے چیئرمین نیب کی ایک ویڈیو اور ڈی جی نیب لایور کی ڈگری کے بارے جیو پر پروگرامز کا حوالہ دیا گیا۔

پراسیکیوٹر نیب نے کہا کہ چیئرمین نیب کے ویڈیو سے متعلق معاملہ مجاز عدالت مسترد کر چکی ہے جبکہ ڈی جی نیب لاہور کی ڈگری کو بھی سپریم کورٹ درست قرار دے چکی ہے اس لیئے درخواست گزار کا بدنیتی والا الزام درست نہیں عدالت نے فریقین کے تفصیلی دلائل سننے کے بعد میر شکیل کی ضمانت کی درخواستیں خارج کر دیں میر شکیل الرحمن اور ان کی اہلیہ شاہینہ شکیل کی درخواستوں میں کہا گیا کہ نیب نے میر شکیل الرحمن کی 34سال پرانے ایک ایسے معاملہ میں اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے گرفتار کیا جو سراسر سول ٹرانسزیکشن کا معاملہ ہے اور وہ نیب کے دائرہ اختیار میں بھی نہیں آتا۔

نیب نے اپنے ہی ایس او پیز اور حکومت کی بزنس پالیسی کی خلاف ورزی کرکے میر شکیل الرحمن کو گرفتار کرکے ان کا جسمانی ریمانڈ لیا نیب نے میر شکیل الرحمن پر جو الزامات عائد کیئے وہ سراسر بے بنیاد ہیں میر شکیل الرحمن اپنے موقف کی بنیاد پر مبنی ثبوت لے کر نیب کے دفتر میں گئے مگر شکایت کی تصدیق کے مرحلہ پر ہی انھیں گرفتار کر لیا اور ان کو صفائی کا موقع بھی نہیں دیا گیا لہذا عدالت نیب کی کارروائی کو کالعدم اور قانون کے برعکس قرار دے کر درخواست گزار کو فوری طور پے نیب کی غیر قانونی حراست سے آزاد کرنے کا حکم دے ۔

تازہ ترین