• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

کورونا کا خاتمہ: پختونخوا کی اپوزیشن جماعتیں وزیراعلیٰ محمود خان کے ہم قدم

دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی کورونا کی وبا نے پنجے گاڑھ رکھے ہیں، حکومت کی جانب سے اگرچہ احتیاطی اور حفاظتی اقدامات کا سلسلہ جاری ہے مگر چونکہ ابھی تک اس بیماری کا کوئی علاج دریافت نہیں ہو سکا ہے اس لئے صورت حال روز بروز سنگین تر ہوتی جارہی ہے، یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ابھی تک چونکہ زیادہ تعداد میں ٹیسٹ نہیں کئے جا سکے ہیں اس لئے کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد بھی فی الوقت کم دکھائی دیتی ہے، اپوزیشن کے بعض حلقوں کی جانب سے تو یہ الزام بھی سامنے آیا ہے کہ حکومت نے جان بوجھ کر ٹیسٹنگ کٹس نہیں منگوائیں تاکہ زیادہ تعداد میں ٹیسٹ نہ ہو سکیں کیونکہ اگر مریضوں کی تعداد بہت زیادہ سامنے آئے گی تو پھر افراتفری پھیلے گی تاہم یہ بھی کہا جارہا ہے کہ چین کی نسبت پاکستان میں کورونا وائرس کی شدت مخصوص موسمی حالات کی وجہ سے کافی کم ہے ان توقعات کا بھی اظہار کیا جارہا ہے کہ موسم کی تبدیلی اور گرمی 25اور 30ڈگری سنٹی گریڈ سے اوپر جانے کے بعد کورونا وائرس کا پھیلاؤ خودبخود ختم ہوتا جائیگا، بہرحال اس وقت کورونا وائرس نے تمام معمولات زندگی کو نہ صرف متاثر بلکہ عملا معطل کررکھا ہے پہلے تو وائرس کی خبروں میں اضافہ کیساتھ ہی حکومت سمیت اپوزیشن جماعتوں نے بھی اپنی تمام سیاسی سرگرمیاں معطل کرنیکا اعلان کیا۔ 

اس کے بعد جب حالات اور بگڑنے لگے تو مجبوراً حکومت کی جانب سے لاک ڈاؤن کا اعلان کیا گیا جس کے نتیجہ میں تمام سرکاری دفاتر، تعلیمی اور کاروباری ادارے، تجارتی اور صنعتی مراکز، دینی مدارس اور شادی ہالز، ہوٹلز اور ریسٹورنٹس حتیٰ کے تفریحی اور سیاحتی مراکز بند کردئیے گئے جس کا مقصد باہمی میل جول کو کم کرکے کورونا وائرس کے خدشات سے نمٹنا تھا اب اس لاک ڈاؤن میں14اپریل تک مزید دو ہفتوں کی توسیع کا اعلان کیا گیا ہے، اگرچہ کچھ اپوزیشن جماعتیں لاک ڈاؤن کی بجائے کرفیو کا مطالبہ کر رہی ہیں لیکن وزیر اعظم عمران خان کرفیو کے نفاد کی مخالفت کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ اس سے غریب مزور اور دیہاڑی دار طبقہ کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو جائیگا اس لئے وہ کرفیو کی بجائے لاک ڈاؤن کے ہی حامی ہیں تاہم وہ ایسے لاک ڈاؤن کی بات کرتے ہیں کہ جس میں نہ صرف کھانے پینے کی اشیا کی دکانیں بلکہ تعمیراتی صنعت بھی کھلی اور چلتی رہے، اگر خیبر پختونخوا کی بات کی جائے تو یہاں بھی لاک ڈاؤن کا سلسلہ جاری ہے، صوبہ بھر کے سرکاری دفاتر، تعلیمی ادارے اور تجارتی مراکز بند پڑے ہیں۔ 

جبکہ ہزارہ اور ملاکنڈ میں سیاحتی مراکز بھی بند کرکے سیاحوں کو واپس کیا جاچکا ہے، مساجد میں باجماعت نماز کی ادائیگی اور نماز جمعہ کے اجتماعات پر پابندی عائد ہے، حکومت کی جانب سے جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق مساجد میں امام، موذن اور خادم سمیت صرف پانچ افراد کو باجماعت نماز پڑھنے کی اجازت ہے جس مسجد میں 5سے زیادہ افراد جمع ہوں گے اس امام مسجد کیخلاف قانونی کارروائی ہو گی چنانچہ صوبائی حکومت کے احکامات پر جمعہ کے روز صوبہ بھر میں نماز جمعہ کے اجتماعات اور باجماعت نماز کی ادائیگی روکنے کیلئے مساجد کو تالے لگا کر پشاور سمیت صوبہ کے تمام اضلاع میں مساجد کے باہر پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی، مختلف علاقوں میں پولیس نے نماز کیلئے مساجد کے باہر جمع ہونیوالے افراد کو منتشر کرنے کی غرض سے لاٹھی چارج بھی کیا جبکہ کئی افراد کو گرفتار کیا گیا، یہ حقیقت ہے کہ حکومت کے پاس عوام کو اس وبا سے بچانے کیلئے لوگوں کو ان کے گھروں تک محدود کرنے اور روابط ختم کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں، ایسا صرف ہمارے صوبہ میں نہیں بلکہ دنیا بھر میں یہی طریقہ استعمال ہو رہا ہے لیکن یہ بات انتہائی تشویشناک ہے کہ خیبر پختونخوا کے شہریوں کی بڑی تعداد کو اس امر کا احساس ہی نہیں بلکہ انہوں نے لاک ڈاؤن کو مذاق بنادیا ہے۔

دوسری جانب ملک بھر کی طرح خیبر پختونخوا میں بھی کورونا وبا کی وجہ سے صوبہ بھر کی سیاسی سرگرمیوں پر جمود طاری ہے، مارچ میں جمعیت علمائے اسلام ، مسلم لیگ ن اور عوامی نیشنل پارٹی کی جانب سے جن اجتماعات اور کانفرنسوں کا انعقاد ہونا تھا وہ سب ملتوی کئے جاچکے ہیں، وزیر اعلیٰ محمود خان اپوزیشن کے تمام پارلیمانی رہنماؤں کو فون کرکے انہیں اعتماد میں لے چکے ہیں اور یہ امر خوش آئند ہے کہ اپوزیشن کی طرف سے حکومت کیساتھ ہر قسم کے تعاون کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔

حقیقت بھی یہی ہے کہ اس مرحلہ پر سیاسی دکانیں چمکانے کی بجائے سب کو مشترکہ کوششوں کے ذریعے اس وبا کیخلاف میدان میں نکلنا ہو گا، عوامی نیشنل پارٹی اور مسلم لیگ ن کی طرف سے ٹیلی میڈیسنز سنٹر قائم کئے جاچکے ہیں جو دوسری جماعتوں کیلئے قابل تقلید امر ہے ،جماعت اسلامی کو بلاشبہ یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ وہ سب سے پہلے میدان عمل میں کود پڑی تھی اور اس نے ملک بھر میں الخدمت فاؤنڈیشن کے تحت قائم تمام ہسپتال اور ایمبولنسز کی خدمات پہلے ہی حکومت کو پیش کر رکھی ہیں اور الخدمت کے پلیٹ فارم سے ملک بھر میں امدادی سرگرمیاں بھی جاری ہیں اسی طرح جمعیت علمائے اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمان نے انصار الاسلام کے چالیس ہزار رضاکاروں کی خدمات حکومت کو پیش کرنے کا اعلان کیا ہوا ہے، ساتھ ہی ان کی طرف سے یہ تجویز بھی سامنے آئی ہے کہ دینی مدارس کے لاکھوں طلبا فارغ ہیں ان سے بھی بطور رضا کار کام لیا جاسکتا ہے لیکن اگر خیبر پختونخوا میں بحیثیت جماعت جائزہ لیا جائے تو اس وقت صوبہ کی حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف سرے سے منظر سے غائب ہے کیونکہ اس کی تنظیم سازی کا عمل مکمل نہیں ہوا چنانچہ اس مشکل وقت میں پی ٹی آئی کہیں منظم انداز میں دکھائی نہیں دے رہی ہے جس سے کارکنوں کی مایوسی بڑھ رہی ہے، خیبر پختونخوا میں اس کے چار ریجنل صدور اور کابینہ موجود ہیں جبکہ بعض اضلاع کی تنظیم سازی بھی ہو چکی ہے مگر کہیں بھی تحریک انصاف کی جانب سے امدادی سرگرمیاں نظر نہیں آرہی ہیں جس کے بارے میںپارٹی قیادت کو سوچنا ہوگا۔

تازہ ترین
تازہ ترین