• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

وفاق اور سندھ اختلافات بھلا کر امدادی سرگرمیاں تیز کریں

کورونا وائرس کا پھیلائو اور اس سے ہونے والی اموات میں آئے روز اضافہ ہورہا ہے اس کے ساتھ ساتھ وفاقی اور صوبائی حکومت کورونا وائرس کے پھیلائو کو روکنے کی حکمت عملی کا دعویٰ کررہےہیں جبکہ حکومت سندھ نے کورونا وائرس کے پھیلائو کو روکنے اور سماجی رابطوں کو ختم کرنے کیلئے 14اپریل تک لاک ڈائون کا اعلان کر رکھا ہے یا سندھ حکومت نے گرچہ 14اپریل کے بعد لاک ڈائون ختم کرنے یا لاک ڈاؤن میں نرمی کا اشارہ دیا ہے تاہم اس کا دار و مدار حالات پر ہوگا جبکہ حکومت نے جمعہ کوسندھ میں دن بارہ بجے سے ساڑھے تین بجے تک مکمل لاک ڈائون کیا تھااس دوران جمعہ کی نماز پڑھنے اور پڑھانے پر ضابطہ اعلان کی خلاف ورزی کے تحت 450 مقدمات قائم کئے گئے جس سے علماء میں اضطراب پایا جاتا ہے۔ 

حکومت کے دعویٰ کے مطابق لاک دائون سے کورونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے میں مدد ملتی ہے۔ دوسری جانب لاک ڈائون کے سبب لاکھوں مزدور، دکاندار، چھاپڑی فروش، یومیہ اجرت پر کام کرنے والے افراد بے روزگار ہوگئے ہیں اور ان کے گھروں میں فاقوں کی نوبت آگئی ہے۔ عوامی نیشل پارٹی کے صوبائی صدر شاہی سید نے کہا ہے کہ حکومت جلد از جلد لاک ڈائون سے بے روزگار ہونے والے افراد کیلئے پالیسی ترتیب دے صرف وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کے علاقے جامشورو میں 25ہزار کوئلہ کان کن بے روزگار ہو چکے ہیں یہ حقیقت ہے کہ لاک ڈائون جہاں سودمند ثابت ہو رہا ہے تو دوسری طرف وہ معاشی مسائل بھی پیدا ہو رہے ہیں۔ لاک ڈائون کے خلاف چھوٹے اور بڑے تاجروں کا احتجاج جاری ہے۔ 

اس ضمن میں تاجروں کے وفد نے وزیراعلیٰ سندھ سے ملاقات کی جہاں وزیراعلیٰ سندھ نے تاجروں کے وفد سے کہا کہ وہ اپنی کابینہ اور سینئر ممبران سے مشاورت کے بعد فیصلہ کریں گے کہ کیا برآمدگی سے تعلق رکھنے والی صنعت کو ایکسپورٹ آرڈر کے پیش نظر کوئی سہولت دی جا سکتی ہے۔ یہ کہیں کورونا وائرس کی روک تھام میں نقصانات کا سبب نا بن جائے ہم طبی ماہرین سے بھی مشاورت کرینگے۔ اجلاس میں شرکت کرنے والوں میں سراج قاسم تیلی، میاں زاہد، محمد علی عبا، زین بشیر اور دیگر شامل تھے۔ حکومتی ٹیم میں سعید غنی، امتیاز شیخ، ناصر شاہ و دیگر وزیراعلیٰ کے ہمراہ تھے۔ چھوٹے تاجروں کے رہنمائوں نے وزیراعلیٰ سندھ سے کہا کہ انہیں ملازمین کو تنخواہیں دینے کیلئے قرض دیا جائے۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ صوبہ بھر میں انہیں کتنی تنخواہیں ادا کرنی ہے وہ رقم بتائی جائے تاکہ اس پر غور کیا جائے چھوٹے تاجروں نے دن میں چار تا پانچ گھنٹے دکانیں کھولنے کا بھی مطالبہ کیا۔ 

وزیراعلیٰ سندھ نے تاجروں سے ملاقات کے دوران 15اپریل کے بعد لاک ڈائون کو آسان بنانے کا بھی اشارہ دیا جبکہ وزیراعلیٰ سندھ نے فیکٹریاں کھولنے کیلئے ایس او پیزتیار کرنے کی بھی ہدایت دیدی ہے دوسری جانب وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے عوام کو ریلیف دینے، امدادی اشیاء اور رقوم پہنچانے کے دعویٰ کئے ہیں تاہم عوامی حلقوں کے مطابق حکومتی دعویٰ کے برعکس انہیں کسی قسم کا کوئی ریلیف نہیں دیا گیا نہ ہی امداد ملی۔صوبائی اور وفاقی حکوتوں کے ایک دوسرے کے ساتھ عدم تعاون اور ایک دوسرے پر تنقید کے سبب عوام امداد سے محروم ہے وفاقی حکومت کی طرح سندھ حکومت نے بھی امدادی سرگرمیوں کے حوالے سےاپوزیشن کو اعتماد اور رابطے میں نہیں لیا جبکہ امدادی کاموں میں تاخیر کا ذمہ دار سندھ حکومت نے وفاقی حکومت کو قرار دیا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ وفاق اور سندھ اختلافات بھلا کر متاثرین کو امداد کا سلسلہ جاری رکھے۔ سندھ حکومت کے ترجمان مرتضیٰ وہاب کے مطابق حکومت سندھ نے پندرہ سے بیس لاکھ افراد کی مدد کرنی تھی جس کے لیے وفاقی حکومت سے مستحقین کی تصدیق کے لیے اسٹیٹ بنک، ایف بی آر، نادرا ،پی ٹی سی ایل کا ڈیٹا منگوایا گیا تھا تاکہ مستحقین کی تصدیق ہو وہ ڈیٹا وفاق نے فراہم نہیں کیا جسکی وجہ سے امدادی کاموں میں تاخیر ہوئی غیر جانبدار حلقے صوبے اور وفاق کے درمیان اس موقع پر چپقلش اور عدم تعاون کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھ رہے اور عوام میں بھی یہ طرز عمل مایوسی کا سبب بن رہا ہے ادھر سندھ حکومت نے قرنطینہ کی جانچ اور گنجائش میں مزید اضافے کے لیے چھ ٹیسٹنگ مشینوں اور تین لاکھ کیٹس کی منظوری دی ہے اس ضمن میں سندھ حکومت کی کاوشیں قابل ستائیش ہیں صوبے میں غیر سرکاری تنظیموںکی جانب سے امدادی سرگرمیاں جاری ہیں۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ وفاقی، صوبائی حکومتوں کے ساتھ ساتھ غیر سرکاری تنظیموں کے درمیان بھی رابطوں کا فقدان ہے جس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ امداد بری طرح ضائع ہو رہی ہے کسی کے پاس کوئی ڈیٹا نہیں ہے جس کی وجہ سے اصل مستحقین کی بڑی تعداد امداد سے تاحال محروم ہے۔ 

وفاقی حکومت کے احساس پروگرام اور ٹائیگر فورس کے ذریعے امداد دینے کے عمل پر تقریباً تمام سیاسی، مذہبی جماعتیں معترض ہے۔ جے یو آئی، مسلم لیگ (ن)، پی پی پی، پی ایس پی، جماعت اسلامی، اے این پی نے اس عمل کو سیاسی قرار دیا ہے۔ پی پی پی کے رہنما سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے کہا ہے کہ ٹائیگر فورس کے ذریعے امداد دینے کے عمل سے یہ واضح پیغام دیا گیا ہے کہ عوام پی ٹی آئی میں آئے خود وزیراعظم کہہ چکے ہیں کہ حکومتی امداد آپ کے ذریعے عوام تک پہنچے گی تو آپ کو اپنے سیاسی حلقوں میں فائدہ ہوگا۔ پی ایس پی کے سربراہ مصطفیٰ کمال نے ٹائیگر فورس کے ذریعے امداد کی تقسیم کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ٹائیگر فورس ایک سیاسی فورس نظر آتی ہے، ٹائیگر فورس کی جگہ ڈیڑھ لاکھ افراد پر مشتمل بلدیاتی فورس کو فعال بنا کر امدادی کام لیا جائے۔ 

یو سی چیئرمین کو اپنے علاقے کی مکمل معلومات ہونی چاہئے۔ وزیراعظم کو چاروں وزرائے اعلیٰ کے ساتھ بیٹھ کر حکمت عملی بنانی چاہئے۔ وزیراعظم عمران خان، فضل الرحمن، اسفند یار ولی، بلاول بھٹو اور شہباز شریف کو فون کریں اور مشترکہ حکمت عملی بنائیں، ادھر لاک ڈائون کے سبب بہت سے مسائل بھی جنم لے رہے ہیں جس میں آٹے کی قلت اور اجناس کی قیمتوں میں اضافہ، پھل، سبزیوں کی قیمتوں میں اضافہ شامل ہے حکومت کو اس جانب بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

تازہ ترین
تازہ ترین