• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

چینی آٹا بحران: تحقیقاتی رپورٹ نے ٹھہرے پانی میں طوفان برپا کردیا

کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے قومی سیاست اگرچہ کافی حد تک پس منظر میں چلی گئی تھی مگر چینی اور آٹے کے بحران کی تحقیقاتی رپورٹ نے ٹھہرے پانی میں طوفان کی کیفیت پیدا کردی ہے اور اس رپورٹ نے وزیراعظم عمران خان اور دیگر مقتدر حلقوں کیلئے ایک نئے امتحان کو جنم دیا ہے کیونکہ وزیراعظم کے قریبی ساتھیوں اور اتحادیوں کے نام سامنے آنے سے ریاست مدینہ کی ساکھ کو شدید دھچکا لگا ہےجس کا وزیراعظم کو بھی احساس ہو اہے اور انہوں نے ایکشن لیتے ہوئے مخدوم خسرو بختیار سے نیشنل فوڈ سیکیورٹی اور عبد الرزاق دائو د سے صنعت و پیداوار کی وزارت واپس لے لی ہے۔ 

سیکرٹری نیشنل فوڈ سیکیورٹی ہاشم پوپلزئی کو بھی ہٹا دیا گیا ہے۔ اپوزیشن نے ا س کا روائی کو نا کا فی قرار دیا ہے اور نا کا مطالبہ ہے کہ قلم دان تبدیل کرنا کا فی نہیں ہے ۔ انہیں کابینہ سے نکالا جائے۔ ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ وزیراعظم نے پندرہ فروری کو میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کے دوران ایک سوال کے جواب میں جہا نگیر ترین اور خسرو بختیارکو کلین چٹ دیتے ہوئے کہا تھا کہ میں نے چیک کیا ہے وہ چینی بحران میں ملوث نہیں ہیں ۔ اب رپورٹ میں انہیں ذمہ دار قرار دیاگیا ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ یہ رپورٹ بھی مقتدر حلقوں نے لیک کرائی ۔بعد ازاں حکومت نے بھی اسے پبلک کر دیا۔ با بر اعوان کو بھی کا بینہ میں شامل کر لیاگیا ہے۔ 

ایم کیو ایم کے خالد مقبول صدیقی کا استعفیٰ منظور کرلیا گیا ہے اور ان کی جگہ ایم کیو ایم کے امین الحق کو آئی ٹی کا وزیر بنا یا گیا ہے۔وفاقی دارلحکومت کے سیا سی حلقے آنے والے دنوں میں سیاسی تبدیلیوں کی پیش گوئی کر رہے ہیں جس کیلئے صف بندیاں کی جا رہی ہیں تاہم فی الحال ا س محاذ پر فوری پیش رفت کورونا کے چیلنج کی وجہ سے ممکن نہیں ہے۔ کورونا وائرس کاچیلنج ظاہر ہے کہ ایک عالمگیر چیلنج ہے ۔ اس کی ابتدا تو چین سے ہوئی لیکن سخت ڈسپلن اور موثر حکمت عملی سے چین نے اس وبا پر کافی حد تک قابو پالیا ہے اور وہاں زندگی معمول پر واپس آ نا شروع ہوگئی ہے۔چین اب ٹاپ فائیو ملکوں کی فہرست سے باہر آ گیا ہے۔ 

دنیا بھر میں کورونا کے پازیٹو کیسز کی تعداد 12 لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے۔ امریکہ میں کیسز تین لاکھ سے زیادہ ہوگئے ہیں ۔ امریکہ اب سر فہرست ہے جبکہ سپین دوسرے اٹلی تیسرے جرمنی چوتھے اور فرانس پانچویں نمبر پر ہے۔ پاکستان میں بھی کورونا پازیٹو کیسز کی تعداد میں یومیہ اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان میں اگرچہ کیسز کی تعداد ابھی تقریباً چار ہزار ہے لیکن وزارت صحت نے جو رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائی ہے اس کے مطا بق 25اپریل تک یہ تعداد بڑھ کر 50 ہزار تک جانے کا خدشہ ہے ۔ یہ رپورٹ نہایت ہی تشویشناک صورتحال کو ظا ہر کرتی ہے جس پر فکر مندی فطری بات ہے۔ وزارت صحت نے ایک ماہ پہلے ہی وفاقی کابینہ کو یہ سفارش کی تھی کہ ابتدائی مرحلہ میں ہی ہیلتھ ایمر جنسی نافذ کردی جا ئے لیکن یہ سمری مسترد کردی گئی تھی۔ 

کابینہ کے اجلاس کے بعد میڈیا بریفنگ میں معاون خصوصی بر ائے اطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے بتایا تھا کہ وزیراعظم نے یہ سمری اسلئے مسترد کی ہے کہ اس سے خوف وہراس پھیل جا ئے گا۔ اب یہ لگتا ہے کہ وزارت صحت کی رائے درست تھی۔کورونا سے نمٹنے کی حکمت عملی در حقیقت شروع سے ہی کنفیوژن کا شکار نظر آتی ہے۔ لاک ڈائون کے ایشو پر سندھ حکومت کی رائے کو وفاق نے نظر انداز کیا بعد میں وفاق اور صوبوں کو سندھ کی رائے سے اتفاق کرنا پڑا۔ وزیراعظم عمران خان کی غریبوں اور دیہاڑی دار طبقے سے محبت قابل تحسین ہے لیکن وہ کیوں یہ سمجھتے ہیں کہ لاک ڈائون کی تجویز دینے والے غر یبوں یا دیہاڑی داروں کے خدانخواستہ دشمن ہیں ۔ نتیجہ وہی نکلا کہ مکمل لاک ڈائون بھی نہیں ہوا اور غریب دیہاڑی دار فاقہ کشی کا شکار بھی ہوا۔ قیادت کا اصل امتحان بحران میں ہوتا ہے ۔ 

بحران یہ بتا تے ہیں کہ قیادت قوم کی رہنمائی کرنے یا ملک کو چلانے کی اہلیت رکھتی ہے یا نہیں ۔ قیادت کی اہلیت اس کے فیصلوں سے پتہ چلتی ہے۔ بحران میں نہ صرف درست فیصلے ضروری ہوتے ہیں بلکہ بر وقت فیصلے کرنا اس سے بھی زیادہ اہم ہوتا ہے کیونکہ درست فیصلوں میں تاخیر کے مضمرات بہت زیادہ سنگین ہوتے ہیں ۔بحران جب بڑا ہو تو اس سے تنہا حکومت نہیں نمٹ سکتی اس کیلئے پوری قوم کا یکجا ہونا ضروری ہوتا ہے جس طرح دہشت گردی کے چیلنج کا قوم نے متحد ہوکر مقابلہ کیا اور کا میابی حاصل کی۔ پوری قوم نے مسلح افواج اور سیکیورٹی فورسز کا ساتھ دیا۔ اب بھی پاک فوج کورونا سے نمٹنے کیلئے سب سے آگے ہے مگر سیا سی طور پر قومی یکجہتی اور اتحاد کی فضا پیدا کرنا حکومت وقت کی ذمہ داری ہے۔ 

بدقسمتی سے حکومت کو اس محاذ پر ناکامی ہوئی ہے جس کی وجہ وزیراعظم عمران خان خود ہیں۔ وزیراعظم دراصل اپنے رویہ میں بے لچک واقع ہوئے ہیں ۔ انہیں چاہئے تھا کہ وہ پہل کرتے اور آل پارٹیز کانفرنس بلاتے ۔ اپو زیشن لیڈر شہباز شریف کے علاوہ بھی ملک کی قومی سیا سی جماعتوں کے قائدین سے مشاورت کرتے اور مشارت کے بعد حکمت عملی وضع کرتے لیکن ان کا موقف یہ ہے کہ جو بھی ہوجا ئے وہ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف اور بلاول بھٹو سے بات نہیں کریں گے۔وہ اپنے انا کے خول سے باہر نہیں نک سکے اور یوں کورونا کا چیلنج بھی الزام تراشی اور روایتی سیا ست کی نذر ہوگیا۔ 

ٹائیگر فورس بنا نے کے فیصلہ پر اپوزیشن مزید ناراض ہوگئی۔ اب اپوزیشن جماعتیں اپنے طور پر امدادی کا روائیاں کر رہی ہیں اور حکومت اپنے طور پر۔ ملک میں قومی وحدت ، اتحاد اور یکجہتی کی فضا موجود نہیں ہے جو وقت کا تقاضا تھی۔وزیر اعظم بار بار تقاریر کر رہے ہیں لیکن وہ ایک تقر یر میں کہتے ہیں کہ گھبر انا نہیں ہے تو دوسری تقر یر میں وارننگ دیتے ہیں کہ کیسز کی صورتحال تیزی سے خراب ہو رہی ہے۔ عوام اب کس بات کا یقین کریں ۔ ایک جانب لاک ڈائون کی بات کی جاتی ہے اور یہ تلقین کی جاتی ہے کہ نماز جمعہ میں بھی تین سے پانچ افراد سے زیادہ نہ ہوں دوسری جانب کنسٹرکشن سیکٹر کھولنے کا علان کر دیا جا تا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کنسٹرکشن سیکٹر میں سر مایہ کاری کرنے والوں کو ٹیکس کی ایمنسٹی د یدی گئی ہے۔ یعنی ان سے ذر یعہ آمدن نہیں پوچھا جا ئے گا۔ 

ماضی میں عمران خان کا لا دھن سفید کرنے کی مخالفت کرتے رہے ہیں ۔ اب تو ان سے کوئی جرمانہ بھی نہیں لیا گیا۔ بہت سے لوگ اب اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کیلئے تیار ہیں ۔سوال یہ ہے کہ اگر تعمیراتی صنعت کھول دی گئی تو پھر سماجی فاصلہ کیسے برقرار رکھا جاسکے گا۔ اگر روزگار کی بات ہے تو پھر چھوٹی مارکیٹوں میں الیکٹرک ، ہارڈ ویئر ، سینیٹری ، بار بر جیسی دکانیں کیوں بند کی گئی ہیںجہاں ایک وقت میں ایک دو سے زیادہ گاہک نہیں آتے ۔ بات وہی ہے کہ حکومت پالیسی سازی میں کنفیوژن کا شکار ہے ۔ عوام کو یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ہم لاک ڈائون سخت کرنے کی جا نب جارہے ہیں یا نرمی کی جانب ۔ 

سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی حکومتی رپورٹ اور وزیر اعظم کے اعلانات میں تو واضح تضاد نظر آ تا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پالیسی سازی میں اپوزیشن کو شریک کیا جا ئے ۔ وفاق اور صوبے ایک پیج پر ہوں ۔ تمام قومی ادارے ایک پیج پر ہوں ۔ پالیسی میں یکسوئی اور صراحت اور وضاحت لائی جا ئے۔ بے لچک اور ضد کا رویہ ترک کیا جا ئے۔انا اور خود پسندی کے خول سے نکلا جا ئے۔ اس کے بغیر اس چیلنج سے نمٹنا ممکن نہیں ہے ۔جہاں تک چینی اور آٹے کے بحران کی انکوائری رپورٹ کا تعلق ہے تو یہ رپورٹ واقعی چشم کشا ہے۔

تازہ ترین
تازہ ترین