• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کورونا وائرس کے سلسلے میں ذرائع ابلاغ بہت موثر اور مستحسن کردار ادا کررہے ہیں اور احتیاطی تدابیر کے ضمن میں عوام میں شعور اجاگر کررہے ہیںلیکن ایک پہلو بہت تکلیف دہ ہے اور ہے انگریزی کا بے جا استعمال۔ طبی ماہرین اور بعض ٹی وی چینلوں کے میزبان بھی ایک ایسی عجیب و غریب زبان بول رہے ہیں جنھیں صرف انگریزی تعلیم یافتہ لوگ ہی سمجھ سکتے ہیں ۔ یہ زبان آدھی اردو اورآدھی انگریزی پر مبنی ہوتی ہے۔ بعض ڈاکٹرتوگفتگو میں توتھوڑی سی اردو بول کر پورے پورے جملے انگریزی میں بولتے ہیں جس کو عام آدمی نہیں سمجھ سکتا۔کچھ ڈاکٹر اگر بے چاری اردو پر نظرِکرم فرماتے ہوئے اردوزبان استعمال کر بھی لیں تو عوام سے کہتے ہیں کہ ’’پری کاشنری میژرز ‘‘ لیں ، اپنی ’’امینیوٹی ‘‘ کو بڑھائیں ،’’آئسولیشن ‘‘ اور’’ سوشل ڈسٹنسنگ ‘‘کریں ۔ یہ ساری گفتگو بے چاے عوام کے سر پر سے گزر جاتی ہے اور وہ حیران اور پریشان ہوتے ہیں کہ اس گفتگو کا مفہوم کیا تھا اور اب ان حالات میں کرنا کیا ہے۔ ان الفاظ اور تراکیب کے اردو مترادفات موجود ہیں اور رائج ہیں ، مثلاً پری کاشنر میژرز کو’’ احتیاطی تدابیر ‘‘، امیونٹی کو ’’قوتِ مدافعت ‘‘، آئسولیشن کو ’’تنہائی‘‘ اور سوشل ڈسٹنسنگ کو’’ سماجی فاصلہ ‘‘کہنے میں کیا قباحت ہے؟ کیا ہم نے غیر تعلیم یافتہ لوگوں کو اپنے معاشرے سے خارج کردیا ہے؟ کیا انگریزی نہ سمجھ سکنے والوں کو احتیاطی تدابیر کی ضرورت نہیں ہوتی؟

آج ہی ایک ڈاکٹر صاحبہ ٹی وی پر بتارہی تھیں کہ ’’ینگ فی میلز ‘‘ کو کیا کرنا چاہیے۔ اگر اس کو وہ سیدھا سیدھا ’’نوجوان خواتین‘‘ یا ’’لڑکیاں‘‘ کہہ دیتیں تو یہ بات ان لاکھوں خواتین تک بھی پہنچ جاتی جو انگریزی سے نابلد ہیں ۔ ڈاکٹروں اور دیگر طبی عملے کے خلوص پر کوئی شبہہ نہیں ہے اور ہم انھیں سلام پیش کرتے ہیں۔ ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ انگریزی کا استعمال ان کے لیے اس لیے معمول کی بات ہے کہ ان کی تعلیم بھی انگریزی ہی میں ہوتی ہے اور ان میں سے بعض اپنے سماجی حلقوں میں بھی اکثر انگریزی استعمال کرتے ہیں ۔ لیکن یہ ان کی ذاتی زندگی ہے اور اس میں انھیں اختیار ہے کہ وہ جو بھی اور جیسی بھی زبان بولیں لیکن انھیں احساس ہونا چاہیے کہ وہ جن لوگوں سے مخاطب ہیں ان کی اکثریت کو انگریزی نہیں آتی۔ مریضوں سے یا ان کے لواحقین سے بات کرتے ہوئے طبی عملے کو یہ دیکھنا چاہیے کہ ابلاغ ہورہا ہے یا نہیں کیونکہ ہمارے ملک میں بمشکل دس فی صد لوگ انگریزی سمجھ سکتے ہیں، خاص طور معاشی طور پر پیچھے رہ جانے والے یا کم تعلیم یافتہ اور ناخواندہ افراد ایسی زبان نہیں سمجھتے جس میں انگریزی کا بے جا ’’چھڑکاو‘‘ ہو۔ خاص طور پر ذرائع ابلاغ پر ہمیں ایسی آسان اور غیر تکنیکی زبان بولنی چاہیے جو زیادہ سے زیادہ لوگ سمجھ سکتے ہوں۔

گفتگو میں انگریزی الفاظ کے بے جا استعمال سے ابلاغ کا دائرہ محدود ہوجاتا ہے ۔ بلکہ طبی عملے کے انگریزی کے استعمال سے مریضوں کا کیا حال ہوتا ہے اس کا اندازہ یوں لگائیے کہ بعض اوقات اس سے مریض یا اس کے لواحقین بات کو بالکل نہیں سمجھتے اور پھر ڈاکٹر صاحبان مریضوں پر ناراض ہوتے ہوئے بھی پائے جاتے ہیں کہ ہماری ہدایات (بلکہ ہماری ’’گائیڈ لائنز‘‘) پر عمل کیوں نہیں کیا۔ اس طرح کی آدھی اردو اور آدھی انگریزی بولنے سے کبھی کبھی ایسی عجیب صورت حال پیدا ہوتی ہے جو بیک وقت الم ناک بھی ہوتی ہے اور مضحکہ خیز بھی ۔ ڈاکٹروں کی انگریزی نما اردو کے سلسلے میں چند واقعات پیش کرنے سے شاید طبی عملہ اس مسئلے کو دوسرے زاویے سے دیکھ سکے۔

ایک واقعہ تو ایک ڈاکٹر صاحب نے اپنی کتاب میں لکھا ہے ۔لکھتے ہیں کہ ایک مریض کو انجکشن لگنا تھا لیکن کسی طبی وجہ سے انجکشن لگانا ممکن نہ تھا ۔ڈاکٹر صاحب اپنے معاونین کو یہ ہدایت دے کر چلے گئے کہ ’’فلاںمیڈیسن بائی مائوتھ دے دو، اب بائی مائوتھ ہی رہ جا تا ہے‘‘(یعنی دوا منھ کے ذریعے دے دو) ۔ ڈاکٹرکے جاتے ہی مریض کے لواحقین نے رونا پیٹنا مچادیا ۔ جب پریشان ہوکر عملے نے پوچھا کہ کیوں رورہے ہیں، کیا ہوگیا؟ تو جواب ملا کہ ابھی تو ڈاکٹر صاحب کہہ کر گئے ہیں کہ ’’بے موت ‘‘ ہی مارا جائے گا۔جو لوگ ’’بائی مائوتھ‘‘ کو ’’بے موت‘‘ سمجھتے ہوں ان کے ساتھ انگریزی ملی زبان بولنااگر ظلم نہیں تو توہین آمیز ضرور ہے۔

دوسرا واقعہ ہمارے ایک عزیز کے ساتھ پیش آیا۔ ان کے ایک واقف کوطبیعت خراب ہونے پر اسپتال میں داخل کیا گیا۔ کچھ دیر بعد مریض کا بیٹا حواس باختہ بھاگتے ہوئے ہمارے عزیز کے پاس پہنچا کہ خدا کے لیے ہمارے ساتھ اسپتال چلیے، ڈاکٹر کہہ رہے ہیں کہ ہمارے والد کو کوئی خوف ناک بیماری ہوگئی ہے۔وہ صاحب اسپتال پہنچے تو ڈاکٹروں نے بتایا کہ ’’کورونری ڈیزیز کاڈائوٹ ہے، آرٹریز بلاک ہوسکتی ہیں، ابھی توڈائگنوس کررہے ہیں ، کارڈیو گرام وغیرہ نکلے گا تو ایس سرٹن کریں گے کہ نیچر اوف ڈیزیز کیا ہے اور کتنا ہزرڈس ہے‘‘۔

وہ بے چارے عام سے کاروباری لوگ تھے۔ تعلیم کم تھی۔سمجھے کہ ابا کوخدا جانے کتنی ہی نامعلوم بیماریاں لاحق ہوچکی ہیں۔ اگر ڈاکٹر سادہ زبان میں یہ کہہ دیتے کہ ’’دل کی بیماری کا شک ہے،دل کی رگیں بند ہوسکتی ہیں،ابھی تو تشخیص کررہے ہیں، مشین سے دیکھیں گے تو معلوم ہوگا کہ اصل بیماری کیا ہے اور کتنی خطرناک ہے‘‘ تو ان کا کیا بگڑ جاتا؟

اگرڈاکٹروں کو اتنی اردو بھی نہیںآتی تو کیوں نہ انھیں میڈیکل کالجوں میں ’’ آسان اردو بول چال‘‘ کے کورس کرائے جائیںورنہ مریض سے پہلے ان کے لواحقین کو دل کا دورہ پڑنے کا امکان رہے گا۔

تازہ ترین