• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک، دو، تین، چار، سرگودھا کی فضا میں ایک ہواباز پرواز کے دوران کچھ گن رہا تھا ”کیا گن رہے ہو ؟“ زمین سے کنٹرولر نے وائرلیس پر پوچھا۔
”بھارتی ہنٹر اور کیا“ فضا سے فلائنگ آفیسر مسعود نے کہا۔
”اچھا اچھا“ کنٹرولر نے کہا ”میں سمجھا تھا شاید پرندے گن رہے ہو“
یہ گنتی عالمی فضائی معرکوں، تاریخ اسلام اور تاریخ پاکستان کا ایک بے مثال سنہرا باب بن گئی۔ پاک فضائیہ کے سکواڈرن لیڈر (اس وقت اور بعد میں ایئر کموڈور) محمد مسعود عالم (ایم ایم عالم) نے یہ ناقابل یقین باب صرف اور صرف 30سیکنڈ میں لکھ ڈالا۔ چار بھارتی ہنٹر مار گرائے۔ ہم نے اس اصل اور عظیم ہیرو کی کیا قدر کی ؟ چند روز قبل ایک ٹی وی چینل پر ایم ایم عالم کی شدید علالت کی خبر ملی اور پھر حسب روایت اور بے حس معاشرے کی روایت کو زندہ رکھتے ہوئے ان کے انتقال کی خبر آئی۔ ہمارے وہ سیاسی لیڈرز جن کو اٹھتے بیٹھتے پاکستان اور عوام کا غم کھائے جا رہا ہے کسی نے کوئی بیان نہ دیا  سوائے ایک دو رہنماؤں نے ان کے انتقال پر افسوس کا اظہار کیا۔ کسی کو اتنی فرصت کہاں کہ وہ ایم ایم عالم کی دوران علالت حالت ہی پوچھ لیتے۔ ایم ایم عالم روڈ پر پلازے بنا کر اربوں روپے بنانے والے اور ٹیکس چوروں کو کیا پتہ جس سڑک پر بیٹھ کر کاروبار کر رہے ہیں، وہ کس اصل ہیرو کے نام کی سڑک ہے جو ساری عمر ایک پیسہ بھی نہ کما سکا۔ لاہور کارپوریشن کو یہ توفیق نہ ہوسکی، وہ شہر کی قیمتی ترین سڑک پر کسی کونے پر بھی ایم ایم عالم کی تصویر یا اس کے کارناموں کے بارے میں لکھ دیتی۔ کسی حاکم وقت نے کبھی سوچا کہ جو شخص ساری عمر فضائیہ کے مختلف ایئر بیس میں زندگی کے دن پورے کرتا رہا، اس کو ایک کوارٹر بھی اس سڑک پر دے دیتے۔ وہ خود دار انسان تھا۔ چند ماہ پہلے کی بات ہے کہ پنجاب یونیورسٹی میں بہت بڑا اسٹوڈنٹس کا اجتماع تھا۔ بقول ڈاکٹر سید مجاہد کامران وی سی کہ اس اجتماع میں کم از کم 15ہزار سٹوڈنٹس شریک تھے۔ ہم بھی وہاں موجود تھے۔ میاں محمد نوازشریف خطاب کر رہے تھے اور اپنے قومی ہیروز کا ذکر کر رہے تھے۔ اچانک انہوں نے پوچھا کہ نوجوانو! تم جانتے ہو کہ ایم ایم عالم کون تھا ؟ 15ہزار اسٹوڈنٹس میں سے کسی کا بھی ہاتھ نہ کھڑا ہوا۔ مجھے سخت دکھ ہوا۔ میرا گھرانہ فوجی ہے اور میرے خاندان کے دو آفیسر 1965 کی جنگ میں شہید ہوئے ہیں اور میرے والد بھی برٹش آرمی میں تھے لہٰذا مجھے 1965 کی جنگ میں حصہ لینے والے فوجیوں اور ان کے کارناموں سے شروع سے دلچسپی رہی ہے۔ اس بنا پر میں کبھی کبھی ایم ایم عالم سے بات چیت کرتا رہتا تھا۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ جنرل نیازی جنہوں نے ڈھاکہ ہتھیار پھینکے  ایک روز قبل کہا تھا کہ میری لاش سے گزر کر بھارتی فوجی ڈھاکہ داخل ہوں گے اور اگلے روز ہتھیار پھینک دیئے اور وہ اپنا شملہ اونچا کرکے لاہور کینٹ کی سڑکوں پر اکثر سیر کیا کرتے تھے اور پاکستان کا شملہ انہوں نے نیچا کر دیا تھا۔ بہرحال کئی برس قبل میں نے میر خلیل الرحمن میموریل سوسائٹی (جنگ گروپ) کے ایک سیمینار میں ایم ایم عالم کو مدعو کیا۔سیمینار کے اگلے روز ہی اپنی خواہش پر انہیں لاہور ایئرپورٹ پر چھوڑنے گیا۔ انہوں نے لاہور آتے ہی اپنی واپسی اسلام آباد کی بجائے بہاولپورکرا دی۔ صبح جب میں انہیں فائیواسٹار ہوٹل کے کاؤنٹر پر چیک آؤٹ کرانے گیا تو ہوٹل کا بل صرف 17سو روپے تھا جس میں کمرے کا کرایہ 1400 روپے اور باقی چائے وغیرہ کا بل جبکہ اس سیمینار میں آنے والے ملک کے سیاسی رہنما اور ایک قوم پرست لیڈر کا بل ایک رات کا ہم نے 25ہزار روپے ادا کیا۔ ایک طرف یہ ایماندار لوگ ؟ جب میں نے انہیں کہا کہ آپ نے کچھ کھایا پیا نہیں تو انہوں نے کہا کہ کوئی چیز مفت مل رہی ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ تمام کسر نکال دیں۔ آج ہمارے سیاسی رہنما کیا کر رہے ہیں اس قوم کے ساتھ  اس ملک کے ساتھ  تمام کسریں پوری کی جارہی ہیں  عوام اور ملک کے پیسے کو لوٹا جا رہا ہے  یہ ہمارے اصل لیڈر ہیں جو اس ملک کو بے دردی کے ساتھ لوٹ رہے ہیں۔
راستے میں انہوں نے مجھے دو خواہشوں کا اظہار کیا ایک تو ایم ایم عالم روڈ دیکھنے کا اور دوسرا دو کلو مٹھائی لینے کا۔
خیر ہم نے پہلے مٹھائی لی  دکان پر بہت تکرار کرنے کے باوجود انہوں نے مجھے پیسے نہیں دینے دیئے۔ اس کے بعد ہم ایم ایم عالم روڈ پر آ گئے۔ یہ سڑک اس زمانے میں بھی مہنگی تھی اور آج تو وہاں پر دکانیں چارہزار سے دس ہزار روپے سکوائر فٹ کے حساب سے فروخت ہوتی ہیں۔ ان کی خواہش پر سڑک کا دومرتبہ چکر لگوایا اور ہم ایئرپورٹ روانہ ہوگئے۔ راستے میں مجھے کہتے ہیں تم پنجابی لوگ بڑے ظالم ہو  میں نے کہا کیا ہوا ؟ انہوں نے ایک خط دکھایا جو بی اے کی طالبہ کا تھا اور بہاولپور میں زیرتعلیم تھی وہ ایم ایم عالم کے کارناموں سے متاثر تھی اور ایم ایم عالم ان سے شادی کرنا چاہتے تھے اور آپس میں وہ باتیں بھی کرتے تھے۔ انہوں نے اس کے والدین سے بات کی مگر انہوں نے انکار کر دیا اور کہا کہ ہم غیر راجپوتوں میں شادی نہیں کرتے۔ یہ بتاتے ہوئے وہ دکھی ہوگئے  یہ مٹھائی وہ اسی لڑکی کی خواہش پر لے کر جا رہے تھے۔
انتقال سے دو ماہ قبل میں نے ان کا ایک انٹرویو کیا جس کی کچھ تفصیلات تو شائع کر دیں اور کچھ نہیں ہوسکیں۔ جب میں نے انہیں فون پر پنجاب یونیورسٹی کا واقعہ سنایا تو ہنس پڑے اور کہنے لگے ”ارے بھائی آج ہیرو تو وہ ہے جو لوٹ مار کرے  دولت اکٹھی کرے  گانے والے  فلم میں کام کرنے والے  کرکٹ کے کھلاڑی اور فٹ بال کے کھلاڑی ہیرو ہوتے ہیں  ہم کہاں ہیر و  اب قوم کو ہمارے جیسے ہیروز کی ضرورت نہیں“ ہیرو تو واقعی قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر فیصل کریم کنڈی ہیں جنہوں نے کنڈی لگا کر 7ارب کا پلازہ 36کروڑ میں لے لیا وہ بھی قسطوں میں اور فہمیدہ مرزا ہیں جنہوں نے 50ہزار کے قرضے معاف کرالئے۔
ہمارے کرکٹ کے ہیروز نے جو کچھ کیا جس طرح جوا اور دیگر برائیوں میں نام کمایا۔ ملک کا نام روشن کیا پھر بھی وہ ہمارے ہیرو ہیں۔ ایک ہیرو تیس سیکنڈ میں چار بھارتی جہاز گراتا ہے،دوسرا ہیروسات ارب کا پلازہ 36کروڑ میں حاصل کرلیتا ہے، ہیرو کون ہوا؟وہ اصل ہیرو جو دنیا میں پاکستان کا نام روشن اور ایک نیا ریکارڈ بنا کر گمنامی میں مر گیا، وہ بھلا کہاں کا ہیرو تھا ؟ وہ تو اصولوں پر لڑتا رہا اس لئے اس کو پس پردہ کردیا گیا۔
تازہ ترین