ڈاکٹر حفیظ پاشا
کورونا وائرس نے پوری دنیا میں تباہی اور بربادی مچارکھی ہے ۔ اس کے معاشی اثرات 1930 ء کی دہائی کے عظیم مالیاتی بحران سے بھی زیادہ ہوسکتے ہیں۔ آئی ایم ایف توقع کررہی ہے کہ 2020 ء میں عالمی جی ڈی پی تین فیصد تک گر جائے گا۔ عالمی تجارتی تنظیم نے خبردار کیا ہے کہ عالمی تجارت کا حجم 32 فیصد تک کم ہوسکتا ہے۔ آئی ایل او کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں 195 ملین ملازمتیں ختم ہوسکتی ہیں۔
پاکستان کو وائرس کا پھیلائو داخلی اور عالمی، دونوں سطحوں پر متاثر کرے گا۔ اس سے پہلے پاکستان کی معیشت آئی ایم ایف کے امدادی پیکج کی مدد سے آہستہ آہستہ بحال ہونا شروع ہوگئی تھی۔ اب اس کی شرح ِ نمو میں سنگین گراوٹ آسکتی ہے جس کے نتیجے میں بے روزگاری، غربت اور بھوک میں اضافہ ہوگا۔ عالمی بنک نے سائوتھ ایشین اکنامک فوکس کی رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا ہے کہ پاکستانی معیشت کی شرح نمو منفی میں رہے گی۔ اس رپورٹ کے مطابق 2019 ء میں منفی 1.3فیصد ، جبکہ 2020-2021 ء میں ایک فیصد رہے گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جی ڈی پی کی شرح نمو 2019-2020 ء کے بڑے حصے میں منفی رہے گی۔
برآمدات اور نجی سرمایہ کاری میں کمی اور اخراجات کو دیکھتے ہوئے یہ خدشہ عین ممکن دکھائی دیتا ہے ۔ سب سے زیادہ خطرے کی زد میں دیہاڑی دار مزدور اور چھوٹے اور درمیانے درجے کے بزنس میں کام کرنے والے ہیں۔ لاک ڈائون اور جی ڈی پی میں آنے والی گراوٹ کے نتیجے میں پانچ ملین افراد بے روزگارہوسکتے ہیں۔ اس سے قومی بیروزگاری کی شرح بڑھ کر 14 فیصد ہوسکتی ہے۔ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والے افراد کی تعداد بیس ملین تک پہنچ سکتی ہے ۔ اس کے نتیجے میں ملک کی کم و بیش نصف آبادی غربت کا شکار ہوجائے گی۔
آئی ایم ایف نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ان معروضات کی وجہ سے ملکوں میں سماجی بے چینی میں اضافہ ہوگا۔ نہ صرف صحت کی سہولیات کو وسعت دینا پڑے گی بلکہ بے روزگاری کو بڑھنے سے روکنے کے لیے امدادی سرگرمیاں بھی شروع کرنا ہوںگی ۔ حکومت نے پہلے ہی بارہ ملین گھرانوں کے لیے 12000 روپے فی خاندان امدادی رقوم کی فراہمی کا پرواگرام شروع کردیا ہے۔ وفاقی حکومت نے ریلیف پروگرام کے لیے 1,200 بلین روپے مختص کیے ہیں۔
اسٹیٹ بنک آف پاکستان نے نجی شعبے میں کاروبار کرنے والوں کے لیے رعایتی نرخوں پر قرضوں کی فراہمی کا پروگرام بنایا ہے تاکہ وہ اگلے تین ماہ تک اپنی کاروباری سرگرمیاں جاری رکھ سکیں اور اُن کے پاس اپنے ملازمین کی تنخواہیں دینے کے لیے رقم موجود ہو۔ یہ اقدامات کامیابی سے آگے بڑھانے ،اور اگر ضرورت پیش آئے تو ان کے حجم میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہم سب معیشت کی جلد بحالی کے لیے دعا گوہیں۔