• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ جب مَیں ہجرت کرکے مدینہ منوّرہ آئی، تو والد صاحبؓ سخت بخار میں مبتلا ہیں۔ حضرت بلالؓ بھی تکلیف کی شدّت سے مکّے کو یاد کر رہے ہیں۔ مَیں نے رسول اللہ ؐ کو یہ خبر دی،تو آپؐ نے دُعا فرمائی ’’اے اللہ! مدینے کی فضا صحت بخش کردے اور بخار کو یہاں سے منتقل کردے۔‘‘ اُن دنوں بیش تر صحابہؓ بخار کی وبا میں مبتلا تھے، لیکن اس دُعا کے بعد یثرب، جو ’’شہرِ بیمار‘‘ کہلاتا تھا، جزائرِ عرب کا سب سے صحت بخش اور پُرفضا مقام بن گیا۔ اِس حدیث سے سبق ملا کہ کسی بھی وبا سے نجات کے لیے دُعا بہترین نسخہ ہے۔17ہجری کے آخر میں عراق، شام اور مِصر میں طاعون پھیل گیا، جب کہ پورے عرب میں ایسا قحط پڑا کہ لوگ روٹی کے نوالے تک کے محتاج ہوگئے۔خلیفۂ وقت، حضرت عُمر فاروقؓ نے توبہ استغفار کی کثرت اور نمازِ استسقا پڑھنے کا حکم دیا۔ 

آپؓ انتظامی امور کے سلسلے میں شام کی طرف روانہ ہوئے۔ جب تبوک کے قریب پہنچے، تو معلوم ہوا کہ آگے تو طاعون کی وبا پھیلی ہوئی ہے۔ آپؓ نے صحابۂ کرامؓ سے مشاورت فرمائی، تو حضرت عبدالرحمٰنؓ بن عوف نے فرمایا’’امیر المومنین! مَیں نے حضورﷺ سے سُنا ہے کہ جس جگہ وبا پھیل رہی ہو، وہاں نہ جائو اور نہ وہاں سے بھاگو۔‘‘ دیگر صحابہؓ نے بھی اس روایت کی تصدیق کی، جس پر آپؓ نے مزید آگے جانے کا ارادہ تَرک کردیا۔ اس وبا سے حضرت ابو عبیدہؓ بن جراح، حضرت معاذ بن جبلؓ سمیت کئی جلیل القدر صحابہؓ نے وفات پائی۔ حضرت عمرو بن العاصؓ نے کمان سنبھالی، تو طاعون کو آگ سے تشبیہ دے کر فوجیوں کو الگ کرکے دُور دُور تک پھیلا دیا۔اِس واقعے سے پتا چلا کہ وبائی امراض سے بچائو کے لیے حفاظتی تدابیر اختیار کرنا شریعت کی رُو سے مسلمانوں پر فرض ہے۔ ایک وفد حضورﷺ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا، جس میں ایک کوڑھ کا مریض بھی تھا، آپؐ نے نہ صرف یہ کہ اُسے واپس بھیج دیا، بلکہ اُسے گھر میں رہنے کی بھی تاکید فرمائی۔

دنیا کی تاریخ قدرتی آفات سے بَھری پڑی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ ہر کچھ عرصے بعد عالمی سطح پر وبائی امراض حملہ آور ہوتے رہے ہیں۔794ہجری میں دمشق اور 833ہجری میں قاہرہ میں ایک ایسی وبا پھیلی کہ جس نے آدھی آبادی کو لقمۂ اجل بنا دیا۔ 1347ء سے 1351ء تک کے چار سالوں میں’’ بلیک ڈیتھ‘‘ نے 10کروڑ افراد کی جان لی۔ پندرھویں صدی اور پھر سولہویں صدی میں ایک بار پھر یورپ اور ایشیاء میں خوف ناک وبا اور مُہلک بیماریوں نے تباہی مچائی۔ 1720ء میں طاعون نے ہزاروں لوگوں کو موت کے گھاٹ اُتارا، تو 1896ء میں ہندوستان میں طاعون سے 15 لاکھ لوگ مارے گئے۔ 1801ء میں زرد بخار نے 50ہزار سے زیادہ یورپی فوجیوں کو ہلاک کیا۔ 1888ء سے 1997ء تک مویشیوں کے طاعون سے کئی لاکھ لوگ مرگئے۔ 2003ء میں سارس فلو، 2009ء میں سوائن فلو، اس سے پہلے 1918ء سے 1920ء تک اسپینش فلو نے 10کروڑ افراد کو موت کے منہ میں دھکیلا۔ پہلی جنگِ عظیم کے بعد امریکی فوجیوں کا جہاز نیویارک میں لنگر انداز ہوا۔ یہ فوجی ہسپانوی فلو کا شکار تھے، یوں نیویارک کے پچاس لاکھ میں سے 30لاکھ باشندے اس کی لپیٹ میں آگئے اور پھر یہ پوری دنیا میں پھیل گیا۔

مسلمانوں سمیت تمام اہلِ کتاب کا ایمان ہے کہ خوشی غمی سب اللہ ہی کی طرف سے ہے، خواہ وہ انفرادی ہو یا اجتماعی۔ سورۃ الروم کی آیت 41کے ضمن میں مفسرّین نے لکھا ہے کہ جب حدود اللہ کی پامالی اور اخلاقی ضابطوں کی خلاف ورزی معمول بن جائے۔ نافرمانی، ظلم و زیادتی، سود، رشوت، دھوکا، فریب، غیبت، منافقت، بدکاری، عریانیت و فحاشی قوموں کا وطیرہ بن جائے، تو پھر اللہ کی جانب سے سزا و تنبیہہ کے طور پر ارضی و سماوی آفات کا نزول ہوتا ہے کہ شاید لوگ ان آفات کو دیکھ کر گناہوں سے باز آجائیں۔ اللہ اور اس کے نبیوں ؑکی نافرمانی پر بہت سی قومیں نیست و نابود کردی گئیں۔ جنھوں نے خدائی دعوے کیے، اُن پر بھی قہرِ الٰہی نازل ہوا اور اُنہیں رہتی دنیا تک عبرت کا نشان بنا دیا گیا۔ نمرود خود کو خدا کہتا تھا، لیکن ایک چھوٹا سا مچھر اُس کی موت کی وجہ بنا۔ جب تک زندہ رہا، اُس کے سَر پر جوتوں کی بارش ہوتی رہتی تھی کہ یہی وقتی سکون کا ایک ذریعہ تھا۔ فرعون کی لاش بھی باعثِ عبرت ہے۔

آج کا انسان بھی خود کو سب سے زیادہ طاقت وَر سمجھنے لگا ہے۔اعلیٰ انسانی اوصاف بُھلا کر حیوانوں کی طرح زندگی گزارنا باعثِ فخر سمجھا جانے لگا ہے۔ اخلاقی قدروں کی پامالی کا یہ حال ہوا کہ مغربی معاشرے میں 40فی صد اولاد ناجائز، 50 فی صد خواتین کی نظروں میں نکاح غلامی کی زنجیر، ہم جنس پرستی قانوناً جائز، عریانی و فحاشی تفریح قرار پائی۔ کتّوں اور بلیوں کا خون تو مقدّس، لیکن افغانستان، کشمیر اور فلسطین وغیرہ کے مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جارہی ہے۔ خود ہمارے ہاں سودی لین دین، جھوٹ، فریب، غیبت، منافقت، ظلم و ناانصافی، کم تولنا، ملاوٹ کرنا، بدکاری اور فحاشی و عریانی وبا کی شکل اختیار کر چُکی ہے، یہاں تک کہ’’ میرا جسم، میری مرضی‘‘ جیسے جاہلانہ کلمات بھی بلند ہو رہے ہیں۔ ایسے میں اللہ تعالیٰ نے ہلکی سی جھلک دِکھائی کہ’’نہ جسم تیرا ہے اور نہ ہی مرضی تیری چلے گی۔‘‘ اگر یہ جسم تیرا ہی ہے، تو پھر کس کے خوف سے تُو نے اسے قرنطینہ کرلیا ہے۔ اگر تیری ہی مرضی ہے، تم تو کبھی منہ ڈھکنے کی قائل نہ تھی، اب کیوں ماسک پہن لیا؟ اللہ نے ایک حقیر سے کیڑے کے ذریعے ہمیں متنبّہ کردیا کہ یہ جسم، جس پر ہم اتنے نازاں ہیں، ہمارے پاس اللہ کی امانت ہے، وہ جب چاہے، لمحوں میں اسے ایسا کردے کہ اپنے بھی جسم سے خوف کھانے لگیں۔ 

اسکارف کے مخالفین بھی اب اسے پسندیدہ قرار دے کر اوڑھنے کی ترغیب دے رہے ہیں۔ اسلام نے قدرتی آفات سے متعلق واضح ہدایات دی ہیں۔ رسول اللہؐ نے فرمایا’’ اللہ کی رضا کے بغیر مومن کو کوئی بھی بیماری، تکلیف حتیٰ کہ کانٹا بھی نہیں چُبھتا اور اللہ تعالیٰ اس کی تکلیف یا بیماری کو اُس کے لیے باعثِ ثواب بنا دیتے ہیں، اُس کے گناہوں کو مِٹا دیتے ہیں، لیکن یہ اُسی وقت ممکن ہے کہ جب عاجزی و انکساری کے ساتھ ربّ کے حضور توبہ استغفار کرے، صبر و استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے حرفِ شکایت زبان پر نہ لائے ‘‘(فتح الباری132/1)) کیا کسی میں اِس وبا سے لڑنے کی طاقت اور ہمّت ہے؟ یقیناً نہیں، تو پھر کیا ہمیں’’کورونا سے ڈرنا نہیں، لڑنا ہے‘‘ جیسے متکبّرانہ نعروں سے پرہیز نہیں کرنا چاہیے؟بلاشبہ’’ توکّل علی اللہ‘‘ ہر مسلمان کے ایمان کا حصّہ ہے، لیکن حضورﷺ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ’’اونٹ کا گھٹنا باندھو، پھر توکّل کرو۔‘‘ یعنی اسباب سے بے نیازی توکّل نہیں، چناں چہ شرعی تعلیم اور انسانی عقل حفاظتی اور احتیاطی تدابیر کی ترغیب دیتی ہے۔

لاک ڈائون کے سبب عوام کی ایک بڑی تعداد نانِ شبینہ کی محتاج ہوگئی ہے، اُن میں ایسے سفید پوش بھی ہیں، جو کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا گوارا نہیں کرتے، جب کہ اس کے برعکس، ایک بڑی تعداد پیشہ وَروں کی ہے۔ مُلک میں صاحبِ ثروت لوگوں کی بھی کمی نہیں۔ پچھلے سال زکوٰۃ کی مَد میں صرف بینکس نے 7؍ارب روپے کی کٹوتی کی، جب کہ ایک اندازے کے مطابق سال بھر میں اللہ کی راہ میں 30ارب سے زیادہ رقم خرچ کی گئی۔ اِن دنوں ایثار، قربانی، ہم دردی اور بھائی چارے کے مظاہرے کی ضرورت ہے۔اِس ضمن میں سب سے پہلے اپنے خاندان، پھر پڑوسیوں اور محلّے کے بارے میں معلومات لیں، شاید کہیں کوئی سَرجُھکائے آپ کی امداد کا منتظر ہو۔

تازہ ترین