• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وفاقی حکومت کی جانب سے گوادر پورٹ کو پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے کے تحت آپریشنل کرنے کے فیصلے پر کئی اقتصادی ماہرین اُمید ظاہر کر رہے ہیں کہ اس سے نہ صرف کمزور ملکی معیشت جو موجودہ عالمی کورونا بحران کے سبب شدید معاشی گرداب کی لپیٹ میں ہے، پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے بلکہ اس سے گوادر اور متعلقہ شاہراہوں پر کاروبار اور روزگار کے نئے مواقع پیدا ہونے سے صوبہ بلوچستان کی مقامی آبادی کی پسماندگی دور ہونے میں بھی مدد ملے گی۔ وزیراعظم کے مشیر تجارت عبدالرزاق داؤد نے بتایا ہے کہ پاکستان نے افغانستان پہنچانے کے لیے گوادر پورٹ سے اشیائے خوراک کی بڑی مقدار درآمد کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ کورونا کی وبا پھوٹنے کے بعد لگائے گئے لاک ڈاؤن اور پاکستان کی مغربی سرحد بند ہونے سے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے 6ہزار کنٹینرز کراچی کی بندرگاہ پر موجود ہیں جبکہ 2ہزار کنٹینر راستے میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ طورخم بارڈر پر 4سو کنٹینرز جبکہ چمن بارڈر پر 16سو کنٹینرز موجود ہیں۔ واضح رہے کہ افغانستان کو، لینڈ لاکڈ اسٹیٹ ہونے کے باعث، اشیائے خورونوش و دیگر سامان کی زیادہ تر ترسیل پاکستان کے راستے ہی ہوتی ہے لیکن کورونا کی عالمی وبا پھیلنے سے یہ سلسلہ رُک گیا تھا۔ اسلام آباد نے ہمسایہ و دوست ملک ہونے کے ناطے مشکل کی اس گھڑی میں تجارت کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا ہے تاکہ کابل کو کورونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے ساتھ غذائی اشیا کی فراہمی جاری رکھنے میں مدد مل سکے۔ وزارتِ تجارت نے افغانستان کیلئے16ہزار ٹن ڈی اے پی درآمد کرنے اور ورلڈ فوڈ پروگرام کے 5لاکھ ٹن گندم کے کارگو کو اجازت دی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ چین سے آنیوالے بحری جہاز بھی گوادر پر آف لوڈ کیے جائیں گے۔ خوش آئند امر یہ ہے کہ افغان ٹریڈ کے ذریعے آخرکار گوادر بندرگاہ بھی فعال ہو جائے گی۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں0092300464799

تازہ ترین