• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اور جب تمہارے پاس ایسے لوگ آیا کریں جو ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں تو (اُن سے) کہو تم پر سلام ہے۔ خدا نے اپنی ذات (پاک) پر رحمت کو لازم کر لیا ہے کہ جو کوئی تم میں سے نادانی سے کوئی بری حرکت کر بیٹھے پھر اس کے بعد توبہ کرلے اور نیکوکار ہو جائے تو وہ بخشنے والا مہربان ہے۔ (سورۃ الانعام آیت54)

کیا یہ لوگ نہیں جانتے کہ خدا ہی اپنے بندوں سے توبہ قبول فرماتا اور صدقات (و خیرات) لیتا ہے اور بےشک خدا ہی تو یہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔ (سورۃ التوبہ آیت104)

توبہ کے دروازے ہمیشہ سے کھلے ہیں۔ رحمت کے در کبھی بند نہیں ہوئے۔ یہ معاملہ بندے اور اللہ کے درمیان براہِ راست ہے۔ اس میں حکومت، علما یا کسی اور ادارے کی طرف سے دن منانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ رمضان کا مبارک مہینہ ہر سال کی طرح رحمتیں برکتیں اور مغفرتیں لے کر آ رہا ہے۔ اُمّتِ مسلمہ کو اپنے جیّد علما سے اس کڑی آزمائش میں اجتماعی رہنمائی کی توقعات تھیں اور اب بھی ہیں۔ پوری انسانیت اس وقت ایک لامتناہی کرب سے گزر رہی ہے۔ نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر وہ علمائے کرام جن کے سینے تعلیمات قرآن سے منور ہیں، جن کے ذہن اسوۂ حسنہ اور احادیثِ رسولؐ سے جگمگا رہے ہیں۔ اہلِ ایمان اُن کی طرف دیکھ رہے تھے اور ہیں، کہ وہ اُن کی رہنمائی کریں کہ گزشتہ 15صدیوں میں جب جب ایسی وبائیں آئیں، دشمنوں کی یلغار ہوئی تو اُس وقت کے اماموں، اولیا اور مفتیوں نے امت کو کیا راہ دکھائی۔ ہمارے سائنسدانوں، ریاضی دانوں اور اطبا نے بیماریوں کا علاج کیسے کیا۔

مسجدوں، مدرسوں اور خانقاہوں سے ماورا ہو کر دیکھیں۔ مناظر بہت اعصاب شکن ہیں۔ حکمران بےبس ہیں۔ منتخب صدور، وزرائے اعظم، بادشاہ ناکام ہو رہے ہیں۔ وہ جنہیں واحد سپر طاقت ہونے کا زعم تھا وہاں سب سے زیادہ بےکسی ہے۔ وہ جو کسی ایک امریکی کی ہلاکت پر مجبور و کمزور ملکوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتے تھے وہاں روزانہ سینکڑوں امریکی لقمۂ اجل بن رہے ہیں۔ پینٹاگون کے جدید ترین ہتھیار کچھ نہیں کر سکتے۔ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی سفارت کاری کوئی چال نہیں چل سکتی۔ قرونِ وسطیٰ سے احیائے علوم اور روشن ادوار کا دعویٰ کرنے والا یورپ ہر روز ہزاروں تابوت زمین میں اتار رہا ہے۔ صحت کا بہترین نظام جس سے اہل یورپ کی عمریں دراز ہو رہی تھیں، زمین بوس ہو چکا ہے۔ وہ ترکی کو یورپ کا مردِ بیمار کہتے تھے، اب پورا یورپ بیمار ہے۔

کیا یہ ہولناک مناظر، امریکہ و یورپ میں یہ سماجی ابتری، انسانی جانوں کی ارزانی، عالمِ اسلام کے علما، دینی مدارس، یونیورسٹیوں اور تحقیقی اداروں کو دعوتِ تحقیق نہیں دیتے ہیں۔ اُنہیں صرف اِس رمضان نہیں آئندہ محرموں، رمضانوں، ربیع الاوّلوں، شوالوں کو پیشِ نظر رکھ کر جائزہ نہیں لینا چاہئے کہ یہ کرب و بلا کے طویل ہفتے گزرنے کے بعد دنیا کن تحفظات، تصورات اور عقائد کا سامنا کر رہی ہوگی۔ ہمارے خطے میں، عالمِ اسلام میں اور پوری کائنات میں انسان کو رہنمائی کی ضرورت نہیں ہوگی۔ مذہب اور سائنس میں براہِ راست کشمکش تو شروع ہو چکی ہے کہ ہلاکتوں سے بچنے میں دُعا کام آئے گی یا دوا۔ اور اللہ تعالیٰ نے اگر ہماری یہ آزمائش شروع کی ہے تو اس کی مشیت کیا ہے۔ وہ انسانوں سے کس عمل کی توقع کر رہا ہے۔ ملوکیت، جمہوریت، آمریت سب کی بنیادیں لرز رہی ہیں۔ سرحدوں کو بےمعنی، پاسپورٹ ویزے کو بےوقعت بنانے والی یورپی یونین میں سرحدوں اور قوموں کی شناخت پھر اُبھر رہی ہے۔ خفیہ ایجنسیوں کا استعمال پھر بڑھ رہا ہے۔ اطلاع کی آزادی پھر مسدود ہو رہی ہے۔

ہمیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ ہم ایک نوجوان ملک ہیں۔ 60فیصد آبادی 15سے 30سال کے درمیان کی ہے۔ جسم توانائیوں سے بھرپور ہیں۔ صرف ہمارے ہاں ہی نہیں ایشیا کے اکثر ممالک میں یہ شرح آبادی ہے۔ یعنی ایشیا جوان ہے۔ اکثر مسلم ریاستیں جوان ہیں۔ مسلمانوں کی بڑی تعداد پانچ وقت نماز کے لیے وضو کرتی ہے۔ طہارت کا خیال رکھتی ہے۔ اس لیے قضا ہماری طرف اتنے پھیرے نہیں لگاتی جتنے امریکہ، اٹلی، اسپین، فرانس، برطانیہ و جرمنی میں لگا رہی ہے لیکن ایشیائی ممالک اور بالخصوص پاکستان میں معاشی ڈھانچہ بہت کمزور، معاشرتی تضادات بہت زیادہ ہیں۔

امریکہ، یورپ میں کھلبلی مچی ہوئی ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اُن کے تھنک ٹینک، یونیورسٹیاں اور تجربہ گاہیں دن رات مصروف ہیں۔ ایسی رپورٹیں روزانہ آرہی ہیں جن میں اپنے سسٹم کی خرابیوں کی نشاندہی کی جا رہی ہے۔ خبردار کر رہے ہیں کہ آئندہ چار پانچ سال میں شیرازہ کیسے بکھرے گا۔ شیرازہ بندی کے لیے کیا کرنا ہوگا۔ کس ملک نے اس آفت کا بروقت تدارک کیا۔ لاک ڈائون کی پابندی کہاں سختی سے ہوئی۔ احتیاطی تدابیر جہاں نہیں ہوئیں، مارکٹیں، میخانے کھلے رہے، چرچ میں اجتماعی عبادت ہوتی رہی وہاں نتیجہ کتنا بھیانک نکلا۔ وہ یہ نہیں دیکھ رہے کہ آئندہ کس پارٹی یا شخص کی حکومت ہوگی۔ وہ یہ جائزہ لے رہے ہیں کہ اب کون سا اقتصادی، سماجی، صحت کا نظام زندگی کو زیادہ تحفظ دے سکے گا۔ روزگار کی ضمانت کس ڈھانچے میں زیادہ ہوگی۔

محققین کہتے ہیں کہ یہ عالمگیر وبا انسانوں کے بہترین اور بدترین دونوں کو بیک وقت سامنے لا رہی ہے۔ فوری طور پر ساری دنیا میں احتجاج رک گیا تھا مگر اب لاک ڈائون کی نرمی کے ساتھ احتجاجی ریلیاں شروع ہو رہی ہیں۔ جب یہ لاک ڈائون اپنے تاریخی اور منطقی انجام کو پہنچے گا تو قوی اندیشہ ہے کہ بیروزگاری کی آندھیاں چھتیں اُڑا رہی ہوں گی۔ معیشتیں ماتم کر رہی ہوں گی۔ کارپوریشنیں دیوالیہ ہو رہی ہوں گی۔ غربت کی لکیر آسمان چوم رہی ہوگی۔ واشنگٹن، نیویارک، دہلی، ممبئی، منیلا، ٹوکیو، لاہور، کراچی، قاہرہ کی شاہراہیں احتجاجیوں سے بھری ہوں گی۔ سرمایہ دارانہ جمہوری نظام کا جنازہ نکل رہا ہوگا، تو کیا قیادت بوڑھے امریکہ اور یورپ سے نکل کر جوان ایشیا میں منتقل ہو سکے گی۔ کیا بیجنگ عالمی دارالحکومت بننے کی اہلیت رکھتا ہے۔ کیا وہ اپنے رہن سہن، معمولات اور کھانے پینے میں تبدیلیاں لانے کو تیار ہے۔ کیا عالمِ اسلام میں بھی کوئی دانائے راز نظر آتا ہے؟

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین