خدا کی اس خوبصورت دھرتی میں انسانوں کے آنے جانے کا سلسلہ روز اول سے جاری ہے، ہر دور میں ایسے ذہین و فطین لوگ جنم لیتے ہیں جو اپنے سالہا سال کے تجربوں کا نچوڑ باقی دنیا کیلئے کتابی شکل میں چھوڑ جاتے ہیں، یہ انمول کتابیں پڑھنے والوں کو اپنے سحر میں جکڑلیتی ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ یہ دانا اور فلسفی لوگ قدرت کا انمول تحفہ ہوتے ہیں ، تاریخ گواہ ہے کہ جن علم دوست انسانوں نے ان فلسفیوں کے علم و تجربے پر عمل کیا، وہ زندگی کی دوڑ میں کامیاب ہوئے۔میں اپنے گزشتہ کالموں میں موجودہ پاکستان کے تاریخی شہر ٹیکسیلا سے تعلق رکھنے والے عظیم قدیمی فلسفی کوٹلیا چانکیہ کی کتابوں ارتھ شاستر اور چانکیہ نیتی پر تبصر ہ پیش کرچکا ہوں، اس عظیم فلسفی نے ہزاروں سال قبل جو باتیں اپنی حیرت انگیز کتابوں میں تحریر کیں، آج جدید دنیا میں بھی ان سے استفادہ کیاجارہا ہے اور چانکیہ جی سے منسوب مختلف عالمی ادارے ریسرچ اور دیگر خدمات میں مصروف عمل ہیں۔آج جب میں عوامی مقامات پر درج یہ اعلانات پڑھتا ہوں کہ خبردار ، کیمرے کی آنکھ دیکھ رہی ہے تو مجھے برطانوی ہندوستان سے تعلق رکھنے والے نامورانگلش مصنف جارج آرویل کا خیال آتا ہے جس نے سات دہائیاں قبل اپنے شہرہ آفاق ناول1984 میں سی سی ٹی وی کیمروں کے ذریعے لوگوں کی نگرانی کا طریقہ متعارف کرایا تھا، یہ دوسری جنگ عظیم کے بعد کا زمانہ تھا جب اخبارات اور ریڈیو کی مقبولیت کے بعد ٹیلی وژن رفتہ رفتہ لوگوں کے گھروں میں اپنی جگہ بنانے کی کوشش کررہا تھا۔ جارج آرویل کا تحریر کردہ ناول 1949ء میں شائع ہوا جسے آج ستر سال گزرجانے کے باوجود دنیا بھر میں نہایت انہماک سے پڑھا جاتا ہے۔ میں اس ناول کابڑے عرصے سے مطالعہ کرنا چاہ رہا تھا لیکن اپنی گوناگوں سیاسی و سماجی مصروفیات کی بنا پر مکمل پڑھنے کیلئے وقت نہیں نکال پارہا تھا، حالیہ دنوں میں کورونا بحران کی وجہ سے مجھے گھر میں وقت گزارنے کا موقع ملا تو میں نے یہ ناول مکمل پڑھنے کی ٹھانی۔اس ناول کو پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ خدا نے قلم کی طاقت کا صحیح استعمال کرنے والوں کو زبردست تخلیقی صلاحیتوں سے نوازا ہے، وہ نہ صرف آنے والے وقت کو بھانپ لیتے ہیں بلکہ اپنی مستقبل شناسی کی خداداد صلاحیت کی بدولت لوگوں کوبروقت خبردار بھی کردیتے ہیں۔ مصنف نے اپنے زمانے سے 35سال بعد کی منظرکشی کی ہے کہ 1984کے عالمی منظرنامہ پر تین سپر ریاستیں چھائی ہوئی ہیں جنہیں یورشیا، مشرقی ایشیا اور اوشیانا کا نام دیا گیا ہے، یہ خیالی ریاستیں ایک دوسرے سے متصادم رہتی ہیں، ناول کا ہیرو ونسٹن سمتھ اوشیانا کے شہر لندن کا باسی ہے جہاں پر بِگ برادر کی زیرقیادت دی پارٹی کی سخت گیر حکومت قائم ہے،عوامی مقامات پر جگہ جگہ نصب پوسٹرز پر درج ہے کہ بگ برادر دیکھ رہا ہے،حکومتی ادارے ٹیلی وژن کی ا سکرین کے ذریعے ہر شہری کی حرکات و سکنات پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں، عوام کو حکومتی ایجنڈے پر گامزن رکھنے کیلئے خوشنما الفاظ کی آڑ میں برین واشنگ کی جاتی ہے۔ بگ برادر کے دوراقتدار میں اوشیانا میںمختلف وزارتیں قائم ہیں جو اپنے نام کے برعکس منفی سرگرمیوں میں ملوث ہیں، مثلاََ وزارت برائے سچائی تاریخ کو مسخ کرنے ، بے بنیاد پروپیگنڈا اورعوام کے سامنے حقائق کو تروڑ مروڑکر پیش کرتی ہے،اسی طرح وزارت برائے محبت کا کام لوگوں پر تشدداور ظلم و ستم کرنا ہے، وغیرہ وغیرہ۔یہ ناول 1949ء میں لکھا گیا تھالیکن مصنف کے تخیل کی پیداوار بے شمار چیزیں آج اکیسویں صدی میں حقیقت کا روپ دھار چکی ہیں جن میں سیکورٹی کے سی سی ٹی وی کیمرے سرفہرست ہیں۔ ناول کا اختتامی باب پڑھنے کے بعد میرے ذہن میں اچانک کچھ خیالات آگئے۔کیا آج کی سپرطاقتیں تیسری دنیا میں بسنے والوںکا دل پیار و محبت سے جیتنے کی بجائے بے بنیاد پروپیگنڈا اور زور زبردستی کے طریقے اختیار نہیں کررہیں؟ کیا آج بھی جھوٹ، خوشامد اور ذاتی پسند ناپسند کی بنیاد پر اہم فیصلے کرنے کا رواج نہیں؟یہ ایک حقیقت ہے کہ خدا ہر دور اورہر علاقے میں ایسے لوگ اتارتا ہے جن پر اس کا خاص کرم ہوتا ہے، یہ لوگ کبھی ستاروں کی چال بتانے والے جوتشیوں کی صورت میں منظرعام پر آتے ہیں اور کبھی اپنی تحریروں کے ذریعے مستقبل سے خبردار کرتے ہیں، چندرگپت موریا جیسے سمجھدار لوگ چانکیہ جی کی ذہانت سے استفادہ کرتے ہوئے عظیم الشان سلطنت کی بنیادیں رکھ دیتے ہیںتو مغربی ممالک کے سائنسدان جارج آرویل کے ناول میں پیش کردہ ایجادات کو عملی جامہ پہنادیتے ہیں۔ہمارے اپنے ملک میں مستقبل شناسی اور سیاسی بصیرت جیسی خداداد صلاحیتوں کے حامل بے شمار افرادموجود ہیں، تاہم یہ ہمارا قومی المیہ ہے کہ ہم ایسے بہترین انسانوں کی قدر ان کے دنیا سے جانے کے بعد کرتے ہیں لیکن پالیسی سازی کے عمل میں انہیں نظرانداز کردیتے ہیں۔اس سلسلے میں میری یہی عرض ہے کہ پالیسی سازی کے عمل میں دانشور، لکھاری اور صحافیوں کی رائے کو مقدم جانا جائے، ہمارے حکمراں معاشرے کے ایسے خاص لوگوں کو سامنے لائیں جو مسائل کا حل اپنی سمجھداری اور تجربے سے حل کرنے کے قابل ہوں، اس کیلئے ضروری ہے کہ ناتجربہ کار دوستوں کو نوازنے کا سلسلہ بند کیا جائے، اگرموجودہ حکمراں ایساکرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو مجھے یقین ہے کہ ہر میدان میں کامیابی ان کے قدم چومے گی اور وہ بھی تاریخ میں اپنا نام سنہری حروف سے لکھوانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ اکتیس دسمبر 2019ء کو جیونیوز پرنشرکردہ ایک پروگرام میں معروف خاتون آسٹرولوجسٹ نے ستمبر 2020ء میں عالمی منظرنامےمیں طاقت کا توازن منتقل ہونے کا ذکر کیا تھا، آج کورونا بحران سے پیداکردہ عالمی حالات ستاروں کی چال دیکھنے والوں کی تائید کررہے ہیں، ہمیں بھی اپنے آپ کو تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال کیلئے تیار رہناچاہئے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)