محمد اکرم خان
ایڈیٹر، جنگ فورم، کراچی
کورونا وائرس کے اثرات پاکستانی معیشت کےلئے نہایت خطرناک نتائج کے حامل ہوں گے ، پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کا بڑا انحصار بیرون ملک سے ترسیلات پر ہیں۔ ایک کروڑ سے زائد پاکستانی روزگار کی غرض سے بیرون ملک ملازمتیں یا کاروبار کررہے ہیں اور وہ اپنی بچتیں اور خاندان کے اخراجات کیلئے ہر ماہ ایک بڑی رقم پاکستان ڈالر کی شکل میں بھیجتے ہیں جو اس وقت لگ بھگ پاکستان کے ایکسپورٹ کے برابر ہے۔
درست معنوں میں دیکھا جائے تو یہ ہی پاکستان کے کمائو پوت ہیں اور پاکستان کی معیشت کا بڑا سہارا ہیں۔ پاکستانیوں کی بڑی تعداد مڈل ایسٹ، برطانیہ اور امریکا میں کاروبار یا ملازمت کے لئے مقیم ہے اور ان ہی خطوں میں کورونا کے سبب سخت لاک ڈائون ہے۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی واپسی سے ترسیلات زر میں کمی کے ساتھ زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی واقع ہوگی۔ پاکستان میں بے روزگاری کی شرح بڑھے گی اس کے ساتھ پاکستانی برآمدات بھی متاثر ہوں گی
ستر کی دہائی تک ملازمت پیشہ اور محنت کش طبقے میں خوش حالی کیلئے ایک ہی اصطلاح استعمال کی جاتی تھی ’’اوپر کی آمدنی‘‘۔ ظاہر ہے معاشرے میں یہ ایک باعزت مقام نہیں جانا جاتا تھا لیکن پھر مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد پاکستان کی معاشی مشکلات بڑھیں خاص کر زر مبادلہ کے حوالے سے شدید خدشات نے جنم لیا تو وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے انسانی وسائل کی برآمدی پالیسی کا آغاز کیا مڈل ایسٹ کے ممالک کے خاص کر دورے کئے اور پاکستانیوں کو وہاں ملازمتیں فراہم کرنے پر آمادہ کیا، ذوالفقار علی بھٹو کے یہ ہی پالیسی اوپر کی آمدنی کی بجائے باہر کی آمدنی کی اصطلاح میں تبدیل ہوئی، کہا جاتا ہے تھا کہ صبح ویزا لو شام کو پرواز کرو، ان ہی بیرون ملک ورکرز کے سبب پاکستان کی معیشت کو سہارا ملا اور یہ سہارا آج تک برقرار ہے۔
آج بھی پاکستان کے زر مبادلہ کا بڑا ذریعہ یہ ہی ترسیلات زر ہیں یہ ڈالر کی شکل میں بیرون مقیم پاکستانی اپنے خاندان کو بچت کرکے روانہ کرتے ہیں، پاکستانی روپے کو ڈالر کے مقابلے میں استحکام کا ذریعہ بھی یہ ہی ترسیلات زر ہیں، تجارتی خسارے کی صورت میں ڈالر کے مقابلے میں یہ ترسیلات زر ہی بڑا سہارا ہیں اور توقع تھی یہ سہارا مزید مضبوط اور مستحکم ہوگا کیوں کہ گزشتہ برس میں نو لاکھ سے زائد افراد ملازمت یا کاروبار کی غرض سے پاکستان سے باہر گئے تھے لیکن اب کورونا وائرس کی وبا نے پاکستان کے اس کمائوپوت کو خطرے سے دوچار کردیا ہے، ستر کی دہائی کی اس پالیسی نے جہاں بیرون ملک آمدنی اور کمائوپوت کی اصطلاح کو جنم دیا وہیں معیشت کو استحکام دینے کےساتھ ایک نئی خوش حال مڈل کلاس کو بھی جنم دیا، درست معنوں میں کہا جائے تو ذوالفقار علی بھٹو ہی پاکستان میں مڈل کلاس کے خالق ہیں، پاکستان کے چھوٹے شہروں، دیہی علاقوں اور شہروں کے مضافات میں اس پالیسی نے ایک نئی خوش حال کمیونٹی کو جنم دیا، جن خاندان کے افراد بیرون ملک ملازمت کی غرض سے گئے ان کے گھروں میں راتوں رات خوش حالی، آسودگی اور معیاری رہائش نے جنم لیا، ان کے مکان بہتر ہوئے، رہا ئشی سہولیات کامعیار بدلا، تعلیم میں تبدیلی آئی، ٹی وی، وی سی آر، فریج جیسی سہولتیں گھر میں میسر آئیں، معیار زندگی میں یہ مثبت تبدیلی دیکھ کر دیگر افراد کو حوصلہ ہوا اور بیرون ملک جانے کے رجحان میں تیزی سے اضافہ ہوا، یہ مڈل کلاس ابھی تک اپنے مستقبل سے مطمئن تھی کہ اچانک کورونا وبا نے جنم لیا اور روشن مستقبل پر تاریک سائے منڈلانے لگے، دنیا بھر کی معیشتوں کی طرح پاکستان کی کم زور معیشت بھی لرزاں ہے، بے روزگاروی ملک میں کیا کم تھی کہ بیرون ملک سے بھی بے روزگاری کا ایک سونامی وطن کی جانب بڑھتا دکھائی دے رہا ہے، معیشت داں خوف سے اندازے لگا رہے ہیں کہ پاکستان کی معیشت کا اب کیا ہوگا، بیرون ملک کی ترسیلات زر تو بڑا سہارا تھیں اگر یہ سہارا برقرار نہ رہا تو ملکی معیشت کو ڈوبنے سے کیسے بچایا جاسکے گا، پاکستان ہر سال بیس ارب ڈالر کی ترسیلات زر وصول کرتا ہے جو ملکی زر مبادلہ کو بڑا سہارا دیتی ہیں، روپےکی قدر کو برقرار رکھتے میں معاون ثابت ہوتے ہیں، ایک کروڑ سے زائد افراد بیرون ملک روزگار میں ہیں یہ بھی تو بے روزگاری دور کرنے میں بڑا اہم کردار ہے، پاکستان کی ترسیلات زر تین بڑے خطوں سے زیادہ وصول ہوتی ہیں، مڈل ایسٹ، یورپ اور امریکا، ان ہی ممالک میں کورونا وائرس کی وبا نے تباہی مچا رکھی ہے اور بڑی مقدار میں لوگ بے روزگار ہو رہے ہیں، اس مضمون میں شامل کئے گئے گرافکس اور اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان کی معیشت کو آئندہ مہینوں میں کس سونامی کا سامنا ہوگا۔
ترسیلات زر: کورونا سونامی کا سامنا
ڈاکٹر ایوب مہر معروف اکنامسٹ ہیں، ایشین ڈیولپمنٹ بینک کے کنسلٹنٹ ہیں اور اقراء یونیورسٹی سے وابستہ ہیں۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے روزگار، ان کے آمدن، ترسیلات زر کے اثرات کے حوالے سے کہتے ہیں کہ کورونا وائرس کے اثرات پاکستانی معیشت کیلئے نہایت خطرناک نتائج کے حامل ہوں گے کیونکہ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کا بڑا انحصار بیرون ملک کی ترسیلات پر ہیں۔ ایک کروڑ سے زائد پاکستانی روزگار کی غرض وغایت سے بیرون ملک ملازمتیں یا کاروبار کررہے ہیں اور وہ اپنی بچتیں اور خاندان کے اخراجات کیلئے ہر ماہ ایک بڑی رقم پاکستان ڈالر کی شکل میں بھیجتے ہیں جو اس وقت لگ بھگ پاکستان کے ایکسپورٹ کے برابر ہے۔ درست معنوں میں دیکھا جائے تو یہ ہی پاکستان کے کمائو پوت ہیں اور پاکستان کی معیشت کا بڑا سہارا ہیں۔
ایوب مہر کے مطابق ایک پاکستانی تو وہ ہیں جو ،اب پاکستانی نہیں رہے، انہوں نے کسی نہ کسی ملک کی شہریت اختیار کر لی ہے تاہم وہ بھی ترسیلات زر پاکستان بھیجتے ہیں۔ دوسرے وہ ہیں جو ملازمت یا کاروبار کے سلسلے میں پاکستان سے باہر گئے ہیں۔ وہ یقیناً کورونا اثر کے نرغے میں آئیں گے اور ایک بڑی تعداد بے روزگار کی صورت میں پاکستان واپس آئے گی۔ دنیا کی بڑی معیشتیں کورونا کے سبب زوال کا شکار ہیں۔ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کا اندازہ ہے کہ ان ملکوں کی شرح نمو منفی ہوگی جس کے سبب بڑی تعداد میں ملازمتوں کے دروازے بند ہوں گے۔ امریکا اور یورپ میں صورتحال بہت بری ہے۔ لاک ڈائون کے سبب کاروبار اور صنعتوں کا پہیہ جام ہوچکا ہے۔ کروڑوں افراد بے روزگاری کا شکار ہوچکے ہیں۔ ایسے میں پاکستانیوں کا وہاں اب کوئی مستقبل نہیں ہے۔
پاکستانیوں کی بڑی تعداد مڈل ایسٹ، برطانیہ اور امریکا میں کاروبار یا ملازمت کیلئے مقیم ہے اور ان ہی خطوں میں کورونا کے سبب سخت لاک ڈائون ہے۔ پاکستانیوں کی کثیر تعداد ذاتی کاروبار یا نجی شعبے کی ملازمت میں ہے۔ بندش کے سبب کاروبار رہا نہیں اور نجی شعبے کے زوال کے سبب اب ملازمتیں بھی نہیں ہیں۔ ایسے افراد کا گزارہ تنخواہ، مراعات اور ہیلتھ انشورنس پر ہوتا ہے۔ اب یہ تینوں میسر نہیں ہوں گی تو ظاہر ہے ان کے پاس پاکستان واپسی کے سوا کوئی راستہ نہیں ہوگا۔ مڈل ایسٹ سے ابھی خبر ہے کہ 6؍ہزار پاکستانیوں کو ملازمتوں سے فارغ کردیا گیا ہے اور وہ واپسی کی فلائٹس دیکھ رہے ہیں۔ پاکستانیوں کی واپسی کا سلسلہ آگے بڑھے گا اور دنیا کے تمام خطوں سے ان کی واپسی شروع ہوگی۔
پاکستان کی معیشت کیلئے یہ ایک بڑا جھٹکا اور نقصان کی صورت اختیار کرے گا۔ مڈل ایسٹ، برطانیہ اور امریکا سے ترسیلات زر کا ستر فیصد انحصار ہے، اس میں نمایاں کمی آئے گی لیکن یہ فوری طور پر محسوس نہیں ہوگی کیونکہ کورونا کی واپسی کی صورت میں وہ اپنی بچتیں ساتھ لائیں گے جس سے فوری طور پر تو ترسیلات زر میں اضافہ معلوم ہوگا لیکن آنے والے آئندہ مہینوں میں ان میں تیزی سے گراوٹ آئے گی اور ایکسپورٹ اور فارن ڈائریکٹ انوسٹمنٹ کم یا نہ ہونے کے سبب بالآخر یہ دبائو زرمبادلہ کے ذخائر اور پھر روپے بھی آئے گا۔
بیرون پاکستانیوں کی واپسی اس وقت مزید ایک ڈرائونا خواب بن جائے گا جب انہیں یہاں اپنے وطن میں ملازمتوں کے دروازے بند اور کاروبار کی راہیں مسدود ملیں گی۔ پہلے بھی بیرون ملک پاکستانی واپس آتے تھے اور یہاں معقول ملازمت اختیار کرتے تھے، اپنے کاروبار کا آغاز کرتے تھے یا پھر اپنا سرمایہ رئیل اسٹیٹ یا سیونگ اسکیموں میں لگا دیتے تھے لیکن اس وقت روزگار کے مواقع نہیں ملیں گے الٹا اسی لاکھ افراد کے بے روزگار ہونے کے خدشات ہیں۔ کاروبار کے ذرائع بھی نہیں ہیں، معیشت سکڑائو کا شکار ہے اور رئیل اسٹیٹ میں بھی جمود ہے۔ آخری راستہ بچت اسکیموں میں سرمایہ کاری کا بچتا ہے، وہاں بھی شرح سود میں مسلسل کمی ہورہی ہے اور امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ اس میں مزید کمی ہوگی۔
صنعتکار شرح سو کو پانچ فیصد تک لانے کا مطالبہ کررہے ہیں اور تیرہ سے نو فیصد تک یہ شرح آچکی ہے، مزید کمی سے بچت کی اسکیمیں منافع بخش نہیں رہیں گی۔ غرض کہ بیرون ملک پاکستانی اور معیشت اب تک کمائو پوت کا کردار ادا کررہے تھے، اب معیشت پر ایک بوجھ بننے جارہے ہیں۔ حکومت کے پاس ایسی کوئی منصوبہ بندی نہیں ہے کہ وہ ان کا سہارا بن سکے، انہیں کہیں کھپا سکے یا انہیں کوئی ریلیف مہیا کرسکے۔ یہ وہ مڈل کلاس ہے جو معیشت یا کورونا وائرس وبا کی چکی میں پسنے جارہی ہے۔ آسمان سے گرے کھجور میں اٹکے کے مصداق بیرون ملک پاکستانیوں کا مستقبل مخدوش دکھائی دیتا ہے۔ نچلا طبقہ تو ریلیف سے کچھ فائدہ حاصل کرلے گا اوپری طبقہ یہ جھٹکا برداشت کرلے گا لیکن واپس آنے والا یہ طبقہ نہ ریلیف حاصل کرسکے گا، نہ اس سونامی کو برداشت کرنے کی صلاحیت رکھے گا۔
ڈاکٹر ایوب مہر کا مزید کہنا تھا کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی واپسی سے ترسیلات زر میں کمی کے ساتھ زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی شروع ہوگی۔ پاکستان میں بے روزگاری کی شرح بڑھے گی اس کے ساتھ پاکستانی برآمدات بھی متاثر ہوں گی۔ ایوب مہر کا کہنا ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی ہی پاکستانی برآمدی مصنوعات کے بڑے خریدار ہوتے ہیں خاص کر پاکستانی کھانے، پھل اور ٹیکسٹائل کی مصنوعات کو پسند کرتے ہیں۔ اب جہاں پاکستانی واپس آئیں گے تو پاکستانی برآمدی اشیاء میں بھی کمی آئے گی۔
بیرون ملک پاکستانی اپنے خاندان کا بھی سہارا تھے۔ وہ اپنے خاندان کے افراد کو سیروتفریح کے علاوہ تعلیم کیلئے بھی اسپانسر کرتے تھے اور ان کی بیرون ملک سیٹلمنٹ اور ملازمتوں کے حصول کا اہم ذریعہ بھی تھے۔ اب ان سرگرمیوں میں بھی کمی دیکھنے میں آئے گی۔ لاکھوں پاکستانی ہر سال بیرون ملک ملازمتیں اختیار کرتے تھے جس کے سبب اندرون ملک بے روزگاری کی شرح میں اضافہ دیکھنے میں نہیں آتا تھا، اب یہ شرح بھی تیزی سے بڑھے گی۔ ٹریولنگ کا کاروبار بھی متاثر ہوگا جس سے لاکھوں افراد وابستہ ہیں۔ پاکستان کی بڑی رہائشی اسکیموں میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کیلئے الگ سے کوٹا رکھا جاتا تھا اس کے علاوہ وہ زمین، جائداد میں سرمایہ کاری کو اہمیت دیتے تھے جس کے سبب اس صنعت کو سہارا ملتا تھا۔ اب یہ سہارا کم یا ختم ہونے جارہا ہے۔
نئی پالیسی کی ضرورت
ترسیلات زر کے حوالے سے اسٹیٹ بینک کی رپورٹ میں رواں کلینڈر سال 2020ء میں 23؍فیصد کمی کا ذکر کیا گیا ہے۔ گزشتہ برس اپنی 2019ء میں ترسیلات زر کل ساڑھے بائیس ارب ڈالر تھیں۔ ابتدا میں اس توقع کا اظہار کیا گیا تھا کہ اس برس ترسیلات زر میں اضافہ ہوگا اور وہ گزشتہ برس کے برعکس 25؍ارب ڈالر کو چھو لیں گی لیکن اب کورونا اثر کے پیش نظر اس میں نظرثانی کی جارہی ہے۔ اندیشہ ہے کہ اپریل سے جون کے دوران ترسیلات زر میں 25؍سے 30؍فیصد کمی واقع ہوگی اور تخمینہ کے برخلاف کل ترسیلات زر 20؍سے 21؍ارب امریکی ڈالر کے درمیان رہیں گی۔ اس تخمینہ کے درست ہونے کے شواہد یوں بھی ہیں کہ مارچ 2020ء تک یعنی رواں سال میں جولائی سے مارچ تک 17؍ارب امریکی ڈالر کے برابر ترسیلات زر ہوچکی ہیں۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ پاکستان کے مقابلے میں دیگر علاقائی ممالک جیسے نیپال اور بنگلہ دیش کی ترسیلات زر پر زیادہ برا اثر پڑا ہے۔
اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ان ممالک کے کارکنوں کی بڑی تعداد غیر رسمی شعبے میں چھوٹے کاروبار سے منسلک ہے۔ پاکستان میں کورونا وائرس اور لاک ڈائون کے اثرات ترسیلات زر میں کم رہیں۔ اس کیلئے اسٹیٹ بینک منصوبہ بندی کررہا ہے جس میں پاکستانی بینکوں کی براہ راست رابطے کی خدمات بھی نمایاں فیکٹر ہے تاہم براہ راست ڈیجیٹل چینل کو مزید موثر بنانے کی ضرورت ہے تاکہ بیرون ملک پاکستانی اپنے خاندان کو محفوظ بینکاری کے ذریعے رقوم ارسال کرسکیں۔ ان حوالے سے پاکستانی بینک تمام متعلقہ ممالک میں سرگرمی سے اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں لیکن اس حوالے سے کم تعلیم یافتہ اور ٹیکنالوجی سے ناواقف پاکستانیوں کو آگہی فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک نفسیات بیرون ملک پاکستانیوں اور ان کے خاندان کی یہ بھی ہے کہ وہ اکائونٹ ٹرانسفر کی بجائے نقد رقوم کی ترسیلات اور وصولی کو فوقیت دیتے ہیں یا اسے محفوظ تصور کرتے ہیں۔
اس حوالے سے بھی بینک اپنی خدمات پیش کررہے ہیں۔ کورونا وائرس کے پیش نظر بینکس کو اپنی خدمات مزید موثر بنانے کی ضرورت ہے، ساتھ ہی منافع بخش اور تیز رفتار بھی! جس پر ان کے صارف بھروسہ کرسکیں۔ یہ توقع کی جارہی ہے کہ کورونا وائرس دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی مالیاتی شعبے کو نئی جہت اور نئی شکل فراہم کرنے کا سبب بنے گا اور یقیناً ترسیلات زر بھی اسی زمرے میں آئیں گی اور لوگ اس سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔ اسٹیٹ بینک کے ذرائع بتاتے ہیں کہ ترسیلات زر کے حوالے سے مستقبل میں بینک تمام خدشات سے آگاہ ہے اور اس حوالے سے نئی پالیسی کی تشکیل پر کام کیا جارہا ہے۔
امریکا میں مقیم پاکستانیوں کے خدشات
امریکا میں مقیم سینئر صحافی مشرف خان ’’ایشین ٹائمز‘‘ سے وابستہ ہیں، میامی میں رہائش پذیر ہیں۔ کورونا وبا اور پاکستانیوں پر اس کے اثرات کے حوالے سے کہتے ہیں کورونا وائرس سے اب تک تین سو اکتالیس افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ پاکستانیوں کی بڑی تعداد نیویارک، نیوجرسی، کنکٹیکٹ اور میساچوسیٹس میں مقیم ہے۔ یہ تعداد ان ہی علاقوں کی ہے۔ پاکستانی بڑی تعداد میں ڈیلی ویجز سے وابستہ ہیں اور کاروبار کی بندش کے سبب اکثریت بے روزگار ہے۔ پاکستانی سفارتخانے میں رابطے کا فقدان ہے۔
پاکستانیوں کی خبرگیری کے بجائے میڈیا میں بے سروپا خبر تک اس کی کارکردگی محدود ہے۔ پاکستانیوں کو بے یارومددگار چھوڑ رکھا ہے تاہم مسلم رفاہی اور سماجی تنظیمیں مشکلات کا شکار پاکستانیوں کی دیکھ بھال عمدہ طریقے سے کررہی ہیں۔ غذائی اجناس کی تقسیم کی جارہی ہے اور یہ خدمات بلارنگ و نسل کے انجام دی جارہی ہیں۔ لاک ڈائون کے سبب پاکستانیوں کی آمدنی شدید متاثر ہوگی۔ گزر بسر کیلئے امریکی حکومت فی فرد 12؍سو ڈالر اور فی بچہ 500؍ڈالر مہیا کررہی ہے لیکن اس سے رہائش کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔
ترسیلات زر میں رواں مہینے سے نمایاں کمی واقع ہوگی۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ امریکا میں چالیس فیصد پاکستانیوں کے روزگار متاثر ہوں گے۔ اکثریت نجی شعبے سے وابستہ ہے جس سے بڑی تعداد متاثر ہوگی۔ ہر امریکی کی طرح پاکستانی بھی اس خدشے کا شکار ہے کہ اگلے ماہ کے بلز اب کیسے ادا ہوں گے اور ان کے کاروبار اور ملازمتوں کا مستقبل کیا ہے۔ بے شمار لوگ وطن واپس جانا چاہتے ہیں لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ کورونا تو ہر جگہ ہے، کہیں پیچھا نہیں چھوڑے گا۔