پروفیسر ڈاکٹر سیّد شعیب اختر
یہ امر تاریخی روایت سے ثابت ہے کہ اہلِ عرب اور برّصغیر پاک و ہند کے درمیان تجارتی تعلقات کی تاریخ بہت قدیم ہے۔تاریخ ہند کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ جنوبی ہند کے ساحلوں پر عربوں کی چھوٹی بستیاں تھیں،جن کے ذریعے عرب بندرگاہوں اور جنوب مشرقی ایشیا کی بندرگاہوں کے درمیان رابطہ قائم تھا۔جب عربوں نے اسلام قبول کرکیا اور ایک سلطنت قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے تو ان کی تجارتی سرگرمیوں میں بے حد اضافہ ہوا۔ بنو اُمیہ کے دور حکومت میں بعض عرب تاجر سری لنکا (لنکا) میں وفات پاگئے تو وہاں کے راجہ نے ان کی یتیم لڑکیاں، بیوہ خواتین اور خلیفۂ وقت کے لیے بیش بہا تحائف مشرقی صوبوں کے گورنر حجاج بن یوسف کے پاس روانہ کیے۔یہ سب جہازوں میں روانہ کیا گیا۔
سندھ کے ساحل کے قریب ان جہازوں کو بحری قزاقوں نے لوٹ لیا۔ یہ عرب بندرگاہوں،جنوبی ہند اور سری لنکا میں قائم عرب تجارتی اداروں کے مابین ہمیشہ رکاوٹ کا باعث بنتے اور مال تجارت کی باقاعدہ آمد و رفت میں مشکلات پیدا کرتے تھے۔ حجاج بن یوسف جو کہ عہد اُموی میں بصرہ کا گورنر تھا۔اس نے راجہ داہر کو خط لکھا اور نقصانات کی تلافی کے ساتھ بیوائوں اور یتیم بچوں کی رہائی کا مطالبہ کیا،جس پر راجہ داہر نے اپنی طرف سے معذرت کرلی اور کہا کہ ان تک رسائی میری دست رس سے باہر ہے۔ حجاج بن یوسف کو راجا داہر کے اس جواب سے مایوسی ہوئی اور اس نے راجہ داہر کو سبق دینے اورمظلوموں کی دادرسی کی غرض سے سندھ پر حملہ کرنے کا فیصلہ سنایا۔
حجاج بن یوسف نے اپنے نوجوان داماد محمد بن قاسم (عماد الدین) کی کمان میں چھ ہزار منتخب شامی اور عراقی سپاہیوں پر مشتمل فوج روانہ کی۔اس کے علاوہ تین ہزار اونٹوں پر لدا ہوا سامان حرب اور رسد وغیرہ روانہ کیا۔ ساتھ ہی سامان حرب میں منجنیق (قلعہ شکن) بھی مہم کے ساتھ روانہ کی۔اس منجنیق کو چلانے کے لیے 500 افراد کی اجتماعی قوت درکار ہوتی تھی۔ اس کا نام عروسی تھا۔ مکران سے ہوتا ہوا 712ء میں محمد بن قاسمؒ کا لشکر دیبل کے ساحل پر لنگر انداز ہوا۔
محمد بن قاسمؒ اور راجہ داہر کے سپاہیوں کے ساتھ معرکۂ کفر و اسلام 10 رمضان المبارک بروز جمعے کو ہوا اور بہت ہی مختصر وقت میں اسلام کی قوت کفر پر غالب آگئی۔ سندھ فتح ہونے کے بعد اسے باب الاسلام بننے کا شرف حاصل ہوا۔ دیبل،نیرون کوٹ (حیدر آباد)،الور وغیرہ کی فتح کے ساتھ محمد بن قاسمؒ کے قدم ملتان تک چلے گئے۔محمد بن قاسمؒ نے مفتوح عوام اور رعایا سے روا داری اور حسن سلوک کا عظیم نمونہ پیش کیا۔ ان کی جان و مال کا تحفظ کیا گیا۔ مذہبی رسوم کی مکمل آزادی دی گئی۔ برہمنوں اور بدھ مت کے پجاریوں کے ساتھ مثالی سلوک کیا گیا۔ محکمۂ مال کے عہدے داروں سے مخاطب ہوتے ہوئے محمد بن قاسمؒ نے کہا: ’’عوام اور حکومت کے حصہ ہائے پیداوار کے تعین میں دیانت داری سے کام لیا جائے اور اگر ریاست کا حصہ وصول کرنا ہو تو انصاف کے ساتھ وصول کیا جائے۔ عوام کے ادا کرنے کی اہلیت کے مطابق ان سے محاصل کی تشخیص کرو،باہم اتفاق رکھو اور ایک دوسرے کی مخالفت نہ کرو،تاکہ ملک میں بے چینی کی کیفیت پیدا نہ ہو‘‘۔
برّصغیر پاک و ہند کی تاریخ میں مسلم حکومت کا قیام درحقیقت اسلامی تاریخ کا ایک سنہرا اور زریں باب ہے۔ سندھ کی فتح سے برّصغیر میں مسلمانوں کو ایک اوّلین مقام میسر آیا۔عرب مجاہدین اس ملک میں آباد ہوئے اور ان میں بعض نے مقامی خاندانوں میں شادیاں کیں۔ فوجی چھائونیاں قائم کی گئیں،جو بعد میں پُررونق شہروں اور علوم و فنون کے مراکز میں تبدیل ہوگئے۔ سندھ میں مسلم حکومت بنو امیہ کے زوال تک قائم رہی۔ فتح سندھ سے مسلمانوں اور ہندوئوں کے درمیان ثقافتی روابط کے لیے راہ ہموار ہوئی۔ عربوں کی اہم ترین علمی دریافت یہ تھی کہ انہوں نے اعشاری اعداد کا نظام رائج کیا اور جب یہی نظام اہل یورپ کے پاس پہنچا تو اسے عربوں کے عددی نظام کا نام دیا گیا۔
تقریباً پون صدی کے بعد بغداد میں عباسی خلیفہ ہارون الرشید کے دور حکومت میں مسلم ثقافت کی ترقی ہوئی۔ علم نجوم پر ہندوستانی کتابیں مثلاً مدہانتا جسے اہل عرب ’’عاص سندھ ہند‘‘ کا نام دیتے ہیں،عربی زبان میں ترجمہ کی گئی۔ اسی طرح آیورویدک کتابوں پر مشتمل ادویات کی کتابوں کا ترجمہ کیا گیا۔سندھ میں مسلم حکومت کے قیام نے سندھ اور ارد گرد کے علاقوں میں اسلام کی نشر و اشاعت کے لیے راستہ ہموار کیا۔
ایک اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کا حق تسلیم کیا گیا۔ ان کی عبادت گاہوں کو بالکل نہ چھیڑا گیا۔ انہیں اپنے شخصی قوانین کے نفاذ، مذہبی اداروں، مقامی اور قومی معاملات پر اپنا نظم و نسق قائم کرنے کا مکمل اختیار دیا گیا۔ سندھ اور ملتان نے عرب سیاحوں،ادیبوں اور مبلّغین اسلام کو بھی اپنی طرف متوجہ کیا۔ان لوگوں نے اپنی سرگرمیوں کے دائرے کو پنجاب،بلوچستان تک کے علاقے میں پھیلایا جو آنے والے بعد کے دور میں سندھ میں مسلمان مبلّغین اورعلماء کے لیے پرکشش ثابت ہوا۔
عربوں کے ہاتھوں سندھ اور ملتان کی فتوحات سے جنوب مشرقی ایشیا کے ساحلی علاقوں میں بعض عرب آباد ہوئے ۔جب کہ بعض عرب مسلمان فتح سندھ سے قبل مالا بار اور سری لنکا کے علاقوں میں آباد ہوگئے تھے۔ آٹھویں اور نویں صدی عیسوی میں عربوں کی بحری تجارتی شاہ راہ بنگال کے ساحل کے ساتھ واقع تھی۔غرض کہ برّصغیر میں اسلام کی نشر و اشاعت کی کہانی حقیقتاً ان لاتعداد مجاہدین، اولیاء اللہ اور صوفیائے کرامؒ کی رہین منت ہے، جنہوں نے خدمتِ انسانیت اور دین کی اشاعت کے لیے اپنی زندگیاں وقف کردی تھیں۔ لوگوں کو اسلام کی طرف مائل کرنے میں دو اہم عوامل نے ان مقدس بزرگوں کا ساتھ دیا۔
ایک تو ہندومت میں ذات پات کے گروہی نظام نے جو عربوں کی آمد سے قبل یہاں کے معاشرے میں رائج تھا اور جن پر سختی کے ساتھ عمل کیا جاتا تھا۔ دوسرے ان بزرگ انسانوں کی اپنی سادہ طرزِحیات، نیک اور قابل تقلید زندگی نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ یہاں کے ذات پات کے غیر منصفانہ نظام نے ہندوئوں کو ایک دوسرے سے مکمل طور پر الگ طبقوں میں تقسیم کردیا تھا۔ چنانچہ ان لاکھوں مصیبت زدہ عوام کے لیے اسلام امید کا پیغام لے کر اس خطّے میں وارد ہوا، جس کی روشنی سے سرزمین ہند کے کفار متاثر ہوئے اور اپنا صدیوں پرانا مذہب چھوڑ کر حلقۂ اسلام میں داخل ہوئے اور یہی درحقیقت اسلام کے توحید و مساوات کا پیغام تھا۔