وبا کے تصور کو اپنی کہانی یا ناول میں استعمال کرنے کا ایک اہم اور دلچسپ تجربہ ڈپٹی نذیراحمد نے کیا۔ انہوں نے اپنے ناول’ توبتہ النصوح‘ کی کہانی کے لیے ہیضے کی وبا کو پس منظر کے طور پر استعمال کیا جبکہ کہانی کا اصل موضوع خاندان کی اصلاح،اولاد کی تربیت اور اخلاق کی تہذیب تھا۔’توبتہ ا لنصوح‘ 1874میں شایع ہوا۔یہ اپنے زمانے میں بھی اتنا اہم اور قابل توجہ رہا ہوگا کہ صرف دس سال بعد یعنی 1884 میں اس کا انگریزی ترجمہ لندن سے شایع ہوا۔اس سے قبل 1869میں ڈپٹی نذیر احمد کا ناول’مراۃٔ العروس‘ اور1872 میں ’بنات النعش‘ شایع ہوچکے تھے۔
ناول کا زمانۂ تحریر 1857کے اس ہنگامۂ دارو گیر کے بعد کا زمانہ ہے، جس کو ہندوستانیوں نے جنگِ آزادی اورا نگریز نے بغاوت سے موسوم کیا تھا۔ اس دور میں ہندوستان کی مسلم اشرافیہ اور خاص طور سے یوپی اور مرکزِ ہند یعنی دہلی سے تعلق رکھنے والے مسلم اشراف کن احساسات سے دوچار ہوئے اور ان کے رد عمل کن کن صورتوں میں سامنے آئے، ان کو ذہن میں رکھنا’توبتہ النصوح‘ سے لطف اندوز ہونے اور اس کی معنوی اہمیت کے ادراک کے لیے ضروری ہے۔
مذکورہ عہد میں مسلم اشرافیہ اور اس کے اہل دانش کا ایک طرز ِفکر اور ردعمل تو وہ تھا جو سرسیداحمد خان اوران کے رفقا کے ہاں دیکھنے میں آیا۔سرسید نے جدید تعلیم اور انگریزی ذریعۂ تعلیم کے اختیار کیے جانے کو، نیز مغربی کلچر کے اندازِ نشست و برخاست کو اور ساتھ ہی ساتھ مغربی علوم و فنون کی قبولیت کو مسلمانوں کی تہذیبِ اخلاق کے لیے کارآمدتصور کیا ۔دوسری جانب وہ قدامت پسند حلقے تھے جو مغربی اثرات کو سخت نقصان دہ تصور کرتے تھے اور ان کی پوری کوشش تھی کہ وہ ان اثرات کے آگے بند باندھیں اور اس کے لیے انہوں نے مذہب کا سہارا لیا۔
ڈپٹی نذیر احمد اس تہذیبی بحران کے عین بیچ ایک طرح کی گومگو اور ردّوقبول کی صورتحال سے دوچار تھے۔ان کی پیدائش بجنور کے ایک مذہبی گھرانے میں ہوئی تھی۔خاندانی طریقے کے مطابق ان کو مدرسے کی تعلیم حاصل کرکے کسی روایتی مذہبی پیشے سے وابستہ ہونا تھا مگر دہلی کالج کے پرنسپل سے ایک اتفاقی ملاقات نے ان کو کالج پہنچا دیا۔کالج کی تعلیم کے بعد کچھ عرصہ وہ تدریس سے وابستہ رہے اور پھر انگریز کی ملازمت میں چلے گئے۔1857میں وہ اسی ملازمت میں شامل تھے۔ ملازمت سے فراغت کے بعد جب انہوں نے یکسو ہوکر لکھنے لکھانے کا سلسلہ شروع کیا تو وہ مسلم اشراف خاندانوں کی صورت حال کے حوالے سے سوچ بچار میں مصروف ہوئے۔ایک طرف ان کی روایتی مذہبیت اور شدت پسندانہ طرز ِعمل تھا تو دوسری جانب وہ یہ بھی دیکھ رہے تھے کہ زمانہ اب پہلے جیسا نہیں رہا اور بدلتے ہوئے سماجی رجحانات ان کے طبقے کی اقدار پر بھی اثر انداز ہوں گے۔
اس کا فوری حل تو انہوں نے یہی نکالا کہ اپنے قدامت پسند خیالات پر اور بھی ثابت قدمی کے ساتھ یکسو ہوجائیں۔لیکن ساتھ ہی ساتھ کچھ نہ کچھ تبدیلیاں بھی پیش نظر رکھیں ،خاص طور سے لڑکیوں کی تعلیم کے تصور کے حوالے سے۔ ابتداً وہ سخت تذبذب کا شکار رہے۔انہوں نے لڑکیوں کی تعلیم کی کھل کر حمایت نہیں کی ،لیکن یہ بھی چاہا کہ وہ اقدار کے موجود نظام میں رہتے ہوئے اپنے اندر کچھ نہ کچھ اصلاح ضرور کرلیں۔
’توبتہ النصوح‘ ایک بیانیہ ہے جس کو ایک راوی کی زبان میں تحریر کیا گیا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ اس میں مختلف کرداروں کی گفتگو کو ان کے اپنے الفاظ میں بھی درج کیا گیا ہے۔ ناول کے ابواب ان گفتگوئوں پر مشتمل ہیں۔ پس منظر یہ ہے کہ دہلی میں ہیضے کی وبا پھوٹ جاتی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے شہر میں موت کی گرم بازاری عام ہوجاتی ہے۔ایک خاندان ہے جس کا سربراہ نصوح ،ہیضے کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس سے قبل گھر میں تین اموات اسی وبا کے نتیجے میں ہوچکی ہیں۔
جب نصوح پر وبا کا حملہ ہوتا ہے اور اس کی موت بھی سامنے نظر آرہی ہوتی ہے تو اس کا معالج اس کو ایک خواب آور دوادے کر سلا دیتا ہے ،اس تبصرے کے ساتھ کہ اگر مریض سو کر اٹھ گیا تو سمجھیں بچ گیا، ورنہ لقمۂ اجل بن جائے گا۔نصوح کچھ گھنٹے بعد بیدار ہوجاتا ہے ،البتہ ہیضے کے اس حملے اور عالم ِخواب نے اس کی دنیا بدل دی ہے۔خواب میں اس نے اپنے باپ سے ملاقات کی جس نے بعد از مرگ آزمائشوں سے بیٹے کو آگاہ کیا۔بتایا کہ قبر میں اس پر کیا گزر رہی ہے۔کس قسم کے سوالات کیے جارہے ہیں۔
بظاہر وہ متقی اور پرہیزگار تھا مگر نامۂ اعمال کھلا تو اس میں ہزاروں گناہ اور فروگذاشتیں جواب طلب تھیں۔اور ابھی قیامت کے روز کے سوال ہونا باقی تھے۔ والد کے اندوہناک انجام سے خوف زدہ اور لرزاں و ترساں نصوح بیدا رہوتا ہے اور فیصلہ کرتا ہے کہ وہ اپنے گناہوں سے توبہ کرکے نہ صرف خود دینداری کا راستہ اختیار کرے گا بلکہ گھر کے دوسرے افراد کو بھی دین کے راستے پر لگائے گا۔سب سے پہلے وہ اپنی بیوی فہمیدہ کو اعتماد میں لیتا ہے جو فوراً اس کی تقلید پر آمادہ ہوجاتی ہے ۔
طے پاتا ہے کہ آج سے وہ دونوں بچوں کو راہِ راست پر لگائیں گے جن کی تربیت کے بارے میں انہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ناول کے دیباچے میں ڈپٹی نذیر احمد نے ذکر کیا تھا کہ اس ـخاندان میں میاں بیوی کے علاوہ تین بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں ۔ناول میں تینوں بیٹوں ،کلیم،علیم اور سلیم کا ذکر ہے مگر بیٹیوں میں صرف دو مذکور ہوتی ہیں یعنی نعیمہ او رحمیدہ۔اسی طرح دیباچے میں بڑے بیٹے اور بڑی بیٹی کو شادی شدہ اور صاحبِ اولاد بتایا جاتا ہے مگر ناول میں بیٹے کی بیوی اور اولاد کا ذکر نہیں۔
اصلاحِ خاندان کی مہم بچوں کو نماز روزے کا پابند بنانے اور ان کو روایتی مذہبی اطوار اختیار کرنے پر آمادہ کرنے سے شروع ہوتی ہے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ناول کے آخر تک اس مہم کازور عبادات تک ہی رہتا ہے۔ اس کے لیے نصوح اور فہمیدہ نصیحتوں،تلقین اور تبلیغ کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ نصوح چھوٹے بچوں کے سامنے طویل وعظ کرتا ہے ۔دونوں چھوٹے بیٹے علیم اور سلیم اور منجھلی بیٹی حمیدہ تو ان مکالموں اور وعظ و نصیحت کے دوران ہی عبادات کی پابندی اور اصلاح شدہ اطوار کا اقرار کرلیتے اور ان پر کاربند بھی ہوجاتے ہیں۔ البتہ بڑی اور شادی شدہ بیٹی خود سر اور بدزبان ہے ، سسرال سے لڑ جھگڑ کر ایک چھوٹے سے بچے سمیت ماں باپ کے گھر میں آن پڑی ہے ۔ماں کی نصیحتوں کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا بلکہ ماں کی مذہبی نصیحتوں پر وہ غیر ذمہ دارانہ فقرے بازی بھی کرتی ہے ۔
ایسے ہی ایک مکالمے میں جب وہ مذہبی معتقدات کے حوالے سے بعض لاپرواہی کے جملے ادا کرتی ہے تو ماں کا ہاتھ اس پر اٹھ جاتا ہے۔ اس پر نعیمہ آفت توڑ دیتی ہے ،سر پٹختی ہے ،دھاڑیں مارتی ہے اور بچے کو روتا چھوڑ کر خود کو کمرے میں بند کرلیتی ہے ۔بڑی مشکل سے اس کی خالہ زاد بہن اس کو بہلا کر اپنے گھر لے آتی ہے ۔خالہ کے گھر کا ماحول بھی بڑا مذہبی ہے لیکن وہاں اس کی خالہ وعظ و نصیحت کے ذریعے اس پر اثر انداز ہونے کی کوشش نہیں کرتی ، بلکہ چونکہ خالہ کے گھر کا ماحول مذہبی تھا ،لہٰذا نعیمہ ،جوماں کی نصیحتو ں کے مقابل شعائر ِ مذہب کی تکذیب سے باز نہیں آتی تھی، خالہ کے گھر کے مذہبی ماحول سے اس کی قلب ِماہیت ہو جاتی ہے۔ وہ نمازِ پنجگانہ شروع کردیتی ہے۔
شب بیداری اور تہجد گزاری کی اس کو عادت پڑ جاتی ہے۔ تب ایک روز اس کا شوہر اس کو واپس اپنے گھر لے جاتا ہے اور اس کی خانہ آبادی کی صورت نکل آتی ہے۔البتہ نصوح کا بڑا بیٹا علیم سخت نافرمان ثابت ہوا۔ اس نے باپ کے نئے مذہبی خشوع و خضوع کا مذاق اڑایا اور اس کو جنون اور ہیضے کی بیماری کا نتیجہ قرار دیا۔کئی بار منع کرنے پر بھی وہ باپ کے حضور نہیں گیا کہ وہ کسی طور نصیحتیں سننے پر آمادہ نہیں تھا۔ جب باپ کی طرف سے دبائو زیادہ پڑا تو وہ گھر چھوڑ کر بھاگ گیا ۔کلیم کے جانے کے بعدنصوح نے گھر میں بیٹے کے زیرِ استعمال دونوں کمروں کا جائزہ لیا ۔ایک کمرے میں وہ اپنی شعرو شاعری اور شطرنج کی نشستیں آراستہ کرتا تھا جبکہ دوسرے میں اس کی کتابیں رکھی تھیں ۔
یہ کتابیں زیادہ تر شعرو شاعری پر مشتمل تھیں جن میں عشقیہ اور رومانوی شاعری کی بہتات تھی ۔نصوح اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ شاعری ہی فساد کی جڑ تھی ۔بقول مصنف: ’ نصوح ان کتابوں کی جلد کی عمدگی،خط کی پاکیزگی،کاغذ کی صفائی،عبارت کی خوبی،طرز ِادا کی برجستگی پر نظر کرتا تو کلیم کا کتب خانہ اس کو ذخیرہ ٔ بے بہا معلوم ہوتا تھا مگر معنی و مطلب کے اعتبار سے ہر ایک جلد سوختنی اور درید نی تھی ۔۔۔آخر کار یہی رائے قرار پائی کہ ان کو جلا دینا ہی بہتر ہے ۔‘ نصوح کے دوسرے بیٹے علیم نے اصلاح کار باپ کو کتابیں جلاتے دیکھا تو وہ بھی اپنا ’کلیات ِ آتش‘ اور ’دیوانِ شرر‘ اٹھا لایا اور ان کو سپرد ِآتش کردیا ۔ چھوٹے بیٹے سلیم نے بھی ’ واسواخت‘کو آگ میں جھونکنے میں دیر نہیں لگائی۔
اُدھر کلیم گھر سے بھاگ کراپنے دوست مرزا ظاہردار بیگ کے یہاں پہنچا اور اس کے ہاں پناہ کا طلب گار ہوا، لیکن وہاں جاکر معلوم ہوا کہ مرزا کی ساری شان و شوکت محض بناوٹی تھی اور وہ خود کسی لائق نہیں تھا۔وہاں سے جیسے تیسے نکلا تو کلیم میاں فطرت کے چنگل میں پھنس گیا جو نصوح کا چچا زاد بھائی تھا ۔اس نے کلیم کو جھانسا دے کر اس سے اُس گائوں کا بیع نامہ اپنے نام کروا لیا ،جو نصوح نے کلیم کے نام لکھوایا تھا ۔اس کے عوض میاں فطرت نے کلیم کو ایک ہزار روپے دے دیئے۔ اس سے کلیم کی عیاشیوں کا سامان ہوگیا لیکن جلدہی یہ رقم ختم ہوگئی اور کلیم پر قرض چڑھنا شروع ہوگئے ۔جب لوگوں کے تقاضے شروع ہوئے تو اس نے یہاں سے بھی فرار ہونا چاہا لیکن پکڑ میں آگیا ۔
گرفتار ہوکر جب وہ کچہری پہنچا تو اتفاق سے باپ سے سامنا ہوگیا۔ نصوح نے رقم دے کر بیٹے کی جان چھڑوائی لیکن کلیم یہاں بھی باپ کی نصیحتوں سے بپھر کر بھاگ اٹھا ۔ کچھ رقم تو اس نے قرض دینے والوں کی ادائیگیوں میں صرف کی اور باقی پیسے لے کر وہ دولت آباد نامی ریاست کی طرف چل دیا۔اس ریاست کی شہرت ایک خوشحال اور ادب پرور ریاست کی تھی ۔کلیم کا خیال تھا کہ وہ اپنی شاعری کا جادو جگا کر دولت آباد میں اچھی ملازمت حاصل کرلے گا مگر اس کے پہنچنے سے پہلے ہی رئیسِ ریاست کی بد انتظامی کے نتیجے میں یہاں کا نظام بگڑ چکا تھا اور انگریز ریزیڈنٹ نے رئیس کو سبکدوش کرکے اس کے اختیارات ایک کمیٹی کے سپرد کردیے تھے ۔کلیم دربار میں پہنچا تو معلوم ہوا کہ جو کمیٹی ریاست کا نظام چلا رہی ہے اس کے امیر ِمجلس ایک صدرِ اعظم ہیں جو ایک مجلسِ شوریٰ کے ذریعے کاروبارِ ریاست چلارہے ہیں۔ شوریٰ میں بڑے بڑے مولوی پگڑ اورعمامہ باندھے بیٹھے ہیں ۔
دولت آباد جس کی شہرت سن کر کلیم یہاں آیا تھا اب عملاً صرف انگریز کی ایک کالونی بن چکا تھا ۔بمشکل یہاں کلیم کو اس کی مرضی کے برخلاف فوج میں ملازمت دے دی گئی مگر جلد ہی ایک جنگی مہم میں اس کے گھٹنے پر زخم آئے اور اس کا جسم بڑی حد تک مفلوج ہوگیا ۔فوج کے لیے وہ اب ناکارہ ہوچکا تھا۔ جب سارے راستے مسدود ہوگئے تو وہ واپس دہلی پہنچا ۔باپ کے گھر کے علاوہ کوئی اور جگہ اب اس کے لیے جائے پناہ نہیں رہی تھی ۔اب اس کا آخری وقت بھی آچکا تھا ۔زخم لاعلاج ثابت ہورہا تھا ۔آخری وقت میں اس نے اپنے گناہوں سے تائب ہونے کا اعلان کیا اور کہا کہ اس کو تسلی ہے کہ وہ ندامت کے ساتھ مررہا ہے ۔
اس کو دوسرا اطمینان یہ تھا کہ اس کے آس پاس جو لوگ تھے وہ سب اس کے ہمدرد اور دم ساز تھے جن کی دعائیں اس کو حاصل تھیں۔ تیسرا اطمینان اس کو یہ تھا کواس نے بے راہ روی میں جو ٹھوکریں کھائیں وہ دوسروں کے لیے نمونۂ عبرت رہیں گی ۔یہاں ڈپٹی نذیر احمد کا خیال ہے کہ کلیم کے انجام نے اس کو نصوح اور دوسرے اہل خانہ پر ایک طرح سے برتری دلا دی ۔کلیم مصیبتیں اٹھا کر اس منزل تک پہنچا تھا اور اس نے آفتیں جھیل کر عبرت حاصل کی تھی ۔ چنانچہ ڈپٹی نذیر احمد راوی کی زبان میں فیصلہ سناتے ہیں کہ : ’پس وہ مجتہد تھا اور دوسرے مقلد ، وہ محقق تھا اور دوسرے ناقل ۔اس کا سا انجام خدا سب کو نصیب کرے‘۔کلیم کی جوان موت کے ساتھ ہی نصوح کی اصلاحِ خاندان کی جملہ کوششیں بارآور ہوئیں اور گھر کے سب لوگوں کی اصلاح دینداری کے اُس نقشے پر ہوگئی جو نصوح کے پیش ِنظر تھا اور جس کا شدت سے احساس اس کو ہیضے کی بیماری کے نتیجے میں ہوا تھا ۔
’توبتہ النصوح ‘کی یہ کہانی بڑی فکر انگیز ہے ۔جہاں تک ناول کی خوبیوں کا تعلق ہے اس کی سب سے بڑی خوبی تو اس کی ایک عہد اورایک مخصوص طبقے کے طرز ِفکر کی ترجمانی ہے ۔پڑھنے والا اس سے اتفاق بھی کرسکتا ہے اور اختلاف بھی ،لیکن نذیراحمد نے جو چاہااس کو بالصراحت بیان کردیا ہے ۔دوسری خوبی اس کی زبان ہے۔اب سے کوئی ڈیڑھ سو سال قبل کے دہلی میں متوسط گھرانوں میں جو زبان بولی جاتی تھی ،وہ اس ناول میں دیکھی جاسکتی ہے ۔کیا بڑا کیا چھوٹا، مرد ہو یا عورت ، خواندہ ہو یا ناخواندہ ،سب ہی جو بامحاورہ اردو بولتے تھے اس کو پڑھنا لطف سے خالی نہیں ۔تیسری اہم بات یہ کہ نذیر احمد اپنے کرداروں کی صنّاعی میں بڑی مہارت رکھتے ہیں ۔
ایک تو وہ کرداروں کے ناموں ہی سے ان کے مزاجوں اور ان کے اطوار کی وضاحت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ،مثلاً ’مراۃٔالعروس ‘میں دو بہنوں کو بڑی یا چھوٹی کہنے کے بجائے انہوں نے ان کے نام ہی اکبری اور اصغری رکھ چھوڑے تھے۔ اِس ناول میں بھی ان کے کئی کردار اسم با مسمیٰ ہیں۔مسلسل نصیحتوں کے ذریعے اصلاح کرنے والے کا نام انہوں نے نصوح رکھا ہے۔ سمجھدار بیوی کو فہمیدہ کا نام دیا ہے۔ شعرو شاعری پر ملکہ رکھنے والا ،کلیم ہے ۔ظاہرداری اور بناوٹی شخصیت کا مالک مرزا ظاہر دار بیگ ہے۔ جس ریاست میں کلیم اپنی مرادیں پانے کے لیے پہنچتا ہے اس کا نام دولت آباد رکھا گیا ہے ۔
کردار سازی کا یہ ملکہ ہی ہے کہ نذیر احمد اپنے کرداروں کی نفسیات اور بظاہر ایک ہی جیسے کرداروں کے اندر بھی طبیعتوں کے فرق کو پیش نظر رکھ سکتے ہیں ۔کلیم اور نعیمہ دونوں ہی بگڑے ہوئے ہیں ، دونوں ہی نافرمان اور کج حجتی پر مائل ہیں ،لیکن ان دونوں میں بھی نذیر احمدکچھ فرق دکھانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔
’توبتہ النصوح ‘کی چند ایک خامیاں بھی نظر انداز نہیں کی جاسکتیں۔ شروع میں بتایا جاتا ہے کہ کلیم شادی شدہ ہے لیکن ناول میں کہیں اس کی بیوی اور بچوں کا ذکر نہیں آتا۔نصوح کی بیٹیاں بھی تین بتائی جاتی ہیں لیکن بڑی اور منجھلی کے علاوہ چھوٹی ناول میں سامنے نہیں آتی۔ ایک اور بڑی خامی یہ ہے کہ نصوح کے نزدیک اس کے بڑے بیٹے کی تباہی کابڑا سبب اس کی کتابیں ہیں جو عشق و عاشقی کے قصوں اور رومانوی شاعری پر مشتمل ہیں۔ اس کا خیال ہے کہ ’ جب انسان شبانہ روز دادو تحسین کی فکر میں منہمک رہے گا توضرور ہے کہ خود پسندی ، خود بینی ، خود ستائی کے عیوب اس کی طبیعت میں راسخ ہوں‘۔ کہاں ایک طرف تو شعرو ادب سے اتنی نفرت اور کہاں یہ کہ’ توبتہ النصوح ‘میںنذیر احمد کے اپنے بیان میں بھی اور کرداروں کی زبان پر بھی فارسی اور اردو کے مصرعے اور شعر جابجا موجود ہیں۔ ڈپٹی نذیر احمدخود تو اعلیٰ ادبی ذوق کا مظاہرہ اشعار اور محاوروں کی شکل میں کرتے ہیں لیکن ادب اور شاعری ہی کو کلیم کے بگاڑ کا سبب بھی قرار دیتے ہیں۔
جہاں تک اس ناول کا نظری پہلو ہے ، جیسا کہ ابتدا میں کہا گیا کہ ڈپٹی نذیر احمدجس عہد سے تعلق رکھتے تھے وہ بڑے تہذیبی بحران کا دور تھا ۔ان کے سامنے مسلم اشرافیہ کا مستقبل ایک بڑے سوال کی شکل میں موجود تھا۔ ان کا اپنا خاندانی پس منظر مذہبی تھا لیکن پھر انگریز کی ملازمت نے کچھ نہ کچھ ان کو آنے والے تہذیبی چیلنج سے بھی روشناس کردیاتھا۔ وہ سرسید جیسی جرأت کا مظاہرہ تو نہیں کرسکے لیکن وہ ردّو قبول کے ایک عمل سے ضرور گزرے۔ ناول میں گردو پیش کے ہندوستان کا تو کوئی ذکر نہیں ہے سوائے زوال آمادہ ریاست دولت آباد کے ذکر کے ۔ان کی توجہ کا پہلا مرکز دراصل خاندانی نظام ہے ۔
اپنے دیگر ناولوں میں وہ عورتوں کی تعلیم کے مسئلے سے الجھے نظر آتے ہیں ۔اس سلسلے میںبھی وہ زیادہ آگے نہیں جاسکے۔زیادہ سے زیادہ انہوں نے یہی چاہا کہ ُاس وقت موجود پدرسری نظام (patriarchy) کے دائرے میں رہتے ہوئے عورتو ںکی سوجھ بوجھ اور استعدادمیں اضافے کا کوئی راستہ تجویز کرسکیں۔البتہ ’توبتہ النصوح ‘میںوہ اس سے بھی ذرا پیچھے رہے۔ انہوں نے یا تو نصیحتوں کا سہارا لیا ہے یا پھر انہوں نے نصوح کی زبان سے اس کی بیوی فہمیدہ کو ’گلستان‘پڑھوا کر سنائی۔ وہ بھی اس طرح کہ نصوح پڑھنے سے پہلے سطروں کی سطروں پر سیاہی بھی پھیرتا رہا۔ اس طرح صرف تین چوتھائی کتاب ہی فہمیدہ کو سنائی جاسکی،جبکہ کتاب کا ایک چوتھائی حصہ جو نصوح کے خیال میں’واہیات‘ اور ’فحش باتوں‘ پر مشتمل تھا، نصوح نے بیوی کو پڑھ کر سنانا مناسب نہیں سمجھا۔
آج اس چیز کو پڑھنا خاصہ حیران کن اور مضحکہ خیز نظر آسکتا ہے، لیکن تاریخ کا مطالعہ تضحیک کی عینک کے بجائے تنقید کی عینک سے کیا جائے تو یہ بات قابل فہم بھی ہے کہ تبدیلیاں برسوں سے ٹھہرے ہوئے سماجوں میں عموماً سست رفتار ی سے وقوع پذیر ہوتی ہیں اور خاص طور سے اشراف کے طبقے قدروں کی تبدیلیوں میں سخت مزاحمت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔’توبتہ النصوح ‘بالکل روایتی طرز کا ناول ہے جو سکہ بندقدامت پسند حلقوں کے لیے بھی قابلِ قبول تھا۔
چنانچہ ’ بہشتی زیور‘ کے خالق مولانا اشرف علی تھانوی نے جن ستّر کتابوں کو شرفِ قبولیت بخشا تھا، اس فہرست میں صرف ایک ہی ناول شامل تھا اور وہ’ توبتہ النصوح‘ تھا۔اور جو تیس کتابیں ان کے نزدیک قابل مذمت تھیں، ان میں بیشتر شعری مجموعے اور دیگر ادبی کتابیں شامل تھیں ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ مولانا اشرف علی تھانوی کی اس ممنوعہ کتابوں کی فہرست میں بھی ڈپٹی نذیر احمد کے دو ناول ’مراۃٔ العروس‘اور ’بنات النعش‘ شامل تھے کیونکہ ان میں تھوڑی بہت عورتوں کی تعلیم کی بات کردی گئی تھی۔
’توبتہ النصوح‘درپیش تہذیبی بحران کے مقابل ہندوستان کے قدامت پسند مسلم طبقۂ اشراف کی اپنے بچاؤ کی ایک کوشش کا مرقع ہے۔یہ ایک بہت ہی محدود کوشش تھی جو محض خاندان کی اصلاح سے غرض رکھتی تھی اور اس کے بھی محرکات محض ڈر ،خوف اور گناہ کے احساسات تھے ۔ وسیع تر معاشرتی تناظر میں یہ کوشش کسی بڑی تبدیلی کا ذریعہ نہیں بن سکتی تھی۔