• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک شوہر نے ملنگ بابا سے کہا ’’حضور بیوی سے بہت تنگ ہوں ،کوئی وظیفہ بتا دیں ‘‘ جواب مِلا’’اگر میرے پاس وظیفہ ہوتا تو میں ملنگ ہوتا‘‘۔بیوی نے انتہائی غصے سے خاوند کو فون کیا’’ ڈرائیور کو نوکری سے نکال رہی ہوں ،اس بیوقوف کی وجہ سے میں آج دوسری بار مرتے مرتے بچی ‘‘ خاوند بولا’’ جانی پلیز اسے ایک موقع اور دو‘‘۔ ایک شخص ڈاکٹر سے کہنے لگا ’’ مجھے عجیب سی بیماری لگ گئی ہے جب بھی میری بیوی بولتی ہے تو مجھے کچھ سنائی ہی نہیں دیتا ‘‘ ڈاکٹر بولا ’’ بیوقوف یہ بیماری نہیں یہ تو اللہ کی رحمت ہے ‘‘ ۔ بیگم نے لاڈ بھرے اندازمیں کہا ’’ دیکھو نا سامنے والے حاجی صاحب صبح دفتر جاتے ہوئے بیوی سے کتنا پیار کرتے ہیں ،تمہارا دل نہیں کرتا ‘‘ شوہر بولا ’’دل تو میرا بھی بہت کرتا ہے مگر حاجی صاحب سے ڈر لگتا ہے ‘‘۔ میکے گئی بیگم کا صبح صبح خاوند کو موبائل میسج آیا’’ اُٹھ بھی جاؤ جانو زیادہ سونا نہیں ، سرف بنا رات کے برتن دھونا نہیں ‘‘ آدھا سویا آدھا جاگا خاوند کچن میں کھڑا ابھی جمائیاں ہی لے رہا تھا کہ بیگم کا دوسرا میسج آگیا ’’ انڈے کچن میں ہی ہیں ڈھونڈ لینا ،پراٹھے کیلئے آٹا اچھی طرح گوندھ لینا ‘‘خاوند ابھی انڈے پکڑے یہی سوچ رہا تھا کہ فرائی یا آملیٹ تو موبائل پھر بجا اور اس بار تھا کہ ’’ لہسن چھیلنے سے پہلے دھو نا نہیں، پیاز کاٹتے وقت بالکل رونا نہیں ‘‘ بہتے آنسوؤں میں پیاز کاٹ کر آملیٹ بناتے خاوند کوپھر میسج آگیا ’’مجھے بھجوا کر موجیں،یہ بہانہ اچھاہے،تھوڑی دیر اور پکاؤ، آملیٹ ابھی کچا ہے ‘‘لیکن گرم گھی کے چھینٹوں سے ہاتھ جلا کر تڑپتے خاوند کو بیگم صاحبہ کا جب یہ ملا کہ ’’جانِ من کیسی لگی میری شاعری بتادینا ، نمک کم ہو انڈے میں تو اور مِلا لینا‘‘تو یہ پڑھتے ہی خاوند کا صبر جواب دے گیا اور پھر اُس نے پہلا اور آخری میسج بھیجا ’’تیری ہر ادا میرے دل کو بھاجاتی ہے، فکر نہ کرو پڑوسن کھانا بنانے آجاتی ہے ‘‘اس کے بعد بیوی کا کوئی اور میسج تو نہ آیا ہاں البتہ چند گھنٹوں کے بعد وہ خود ضرور آگئی۔مگردوستو یہ سب ماضی کی باتیں، مطلب تب کی باتیں جب اپنے ہاں خاوند بیویوں کی 10زبان درازیوں کے بعد جان پر کھیل کر ایک آدھ زبان درازی کا جواب دیدیا کرتے تھے مگر اب وہ وقت کہاں ،اب تو اپنے ملک میں ہوچکی قانون سازی کے بعد خاوند ایسے ہوگئے کہ جیسے ایک بیگم کا چہیتا طوطا خاوند کو دیکھتے ہی جھڈو ،جھڈو کہنے لگ جاتا ، ایک دن تنگ آکر خاوند نے بیگم کو شکایت لگائی تو بیگم نے طوطے کو ایسا کہنے سے منع کر دیا ،اگلے دن خاوند آیا تو طوطا خاموش رہا ، چند منٹ بعد سکھ کا سانس لے کر صوفے پر بیٹھے خاوند کی نظر طوطے پر پڑی تو زیرِ ِ لب مسکرا تا طوطا بولا ’’خودہی سمجھ جا ‘‘ ۔
پچھلے ہفتے ازلی وابدی کنوارے اُس شیخو سے ملنے گیا کہ جس کی زندگی کا سب سے بڑا اصول یہی کہ کوئی اصول نہیں ، جس نے سب کچھ کیا مگر شادی نہ کی اور جو خود کہے کہ اگر میں عورت ذات کو جانتا نہ ہوتا تو میں بھی کب کا شادی کر چکا ہوتا ، مجھے دیکھتے ہی اپنے بھتیجے کو پڑھاتا شیخو سلام دعا سے پہلے ہی کہنے لگا ’’تمہاری جمہوریت نے جتنا نقصان خاوند اور صدر کو پہنچایا اتنا تو وہ مارشل لاء کو بھی نہ پہنچا سکی ،اب تو نکاح کرتے ہی بندے کی حالت وہی ہوجائے جو آٹھویں ترمیم کے بعد صدر کی ہو چکی ، اللہ کا شکر کہ میں زن مریدی سے بچ گیا ‘‘ یہ سن کر میں نے خاوندوں کی سائیڈیں لیتے شیخوکو یاددلایا کہ حضور آپ ہی کہا کرتے تھے کہ’’ ہمارے ہاں تو خاوند اور صدر بننے کیلئے بس یہی کوالیفکیشن رہ گئی کہ نبض چل رہی ہو ‘‘اور یہ بھی آپ نے ہی کہا تھا کہ’’ ہمارے خاوند جس نظر سے پرائی بہو بیٹیوں کو دیکھیں ،اس نظر کیلئے انکی اپنی بیگمیں عمر بھر ترستی رہیں‘‘ اور غالباً یہ جملہ بھی آپ کا ہی کہ ’’ ذہانت اور حماقت میں وہی فرق جو فرق گرل فرینڈ اور بیگم میں ‘‘ میری بات کاٹ کر بولا’’تم شاید یہ بھول گئے کہ میں نے یہ بھی کہا تھا کہ ہمارا مردتو بے چارہ آلو بن چکا یعنی ہر کوئی اسے ہر جگہ فٹ کر کے بھی شکایتیں کرتا پھرے ، جبکہ عورت سے برتاؤ بھنڈیوں جیسا ،لاکھ لیس دار ہوں پھر بھی کوئی گلہ شکوہ نہیں ‘‘ ۔ اس سے پہلے کہ شیخو کچھ اور کہتا ، میں نے موضوع بدلا ’’ قبلہ چھوڑیں ان باتوں کو یہ بتائیں کہ بھتیجے کو کیا پڑھا رہے تھے ‘‘ اپنے سامنے پڑی کاپی مجھے پکڑا کر بڑی بے زاری سے بولا ’’ خو دہی دیکھ لو کہ کیا پڑھا رہا تھا ‘‘اورپھر کاپی کے پہلے صفحے پر انگریزی حروف کے اردو میں بنائے گئے شیخو کے جملے دیکھے تو چودہ طبق روشن ہوگئے ، گو کہ زیادہ ترجملے تو ایسے کہ لکھے بھی نہ جا سکیں ،لیکن پھر بھی کانٹ چھانٹ کے بعد نمونے کے طور پر چند جملے حاضرِخدمت ہیں۔He؛ اعظم تو ہر وقت He Heکرتا رہتا ہے They*؛کا ر نے سائیکل والے کو تھلے theyدیا Kill*؛دھیان سے killٹھونکو Bull*؛ ٹھنڈ سے پپو کے Bullپھٹ گئے What*؛ تمہارے ماتھے پر what کیوں پڑ گئے it*؛ مزدو ر کے سر پر itوج گئی Lion*؛ سب Lionبنا کر چلو Key*؛ ایہہ keyکیتا جے۔۔ یہ پڑھ کر نہ مجھ میں کاپی کا اگلا صفحہ پلٹنے کی ہمت تھی اور نہ مزید بیٹھنے کا حوصلہ ، لہذا کاپی شیخو کو پکڑا کر میں نے وہاں سے کھسکنے میںہی عافیت سمجھی ۔
مشاہدے میں آیا ہے کہ جیسے کوئی غریب کبھی اتنا غریب نہیں ہوتا کہ اپنے سسرال کو افورڈ نہ کر سکے ،ویسے ہی کوئی خاوند کبھی اتنا جی دار بھی نہیں ہوتا کہ بیوی کو تھلے لگا لے ، جیسے ابھی تک سائنس سمندری طوفان اور بیوی پر قابو نہ پاسکی ویسے ہی ٹیکنالوجی نے ثابت کر دیا کہ بیوی وہ ’’ اسکروڈرائیور ‘‘ جو ہر وقت خاوند کے پیچ ڈھیلے کرتی رہے ، جیسے ہر کامیاب مر دکے پیچھے ایک عورت ،ویسے ہی ان کامیابیوں کا مزا کرکرا کرنے کے لئے ہر وقت خاوند کے سر پر سوار ایک بیوی بھی ، جیسے اگر کرکٹ سے کوڑا کرکٹ نکال دیں تو کرکٹ بہتر ہو جائے گی ویسے ہی اگر بیویوں کی زبان کو بجلی پید ا کرنے پر لگا دیا جائے تو لوڈ شیڈنگ کا سرے سے ہی خاتمہ ہوجائے اور مشاہدہ یہ بھی بتائے کہ جیسے جمہوریت کے اصلی دشمن خود جمہوری رہنما ایسے ہی شادی کے سب حقیقی مخالف خود شادی شدہ ، ہمارا ایک بڑا ہی سیانا خاوند نما دوست جس کی گفتگو سن کر بندہ متاثر ہو نہ ہو بالغ ضرور ہوجائے ،جو بچپن سے ہی ایسا کائیاں کہ ایک بار اسکول میں استاد نے جب پو چھا’’ ٹیپو سلطان کس جنگ میں شہید ہوئے‘‘ تو جواب دیا’’ اپنی آخری جنگ میں‘‘ ، سوال ہوا ’’دریائے سندھ کہاں بہتا ہے ‘‘ جواب آیا ’’ زمین پر ‘‘پوچھا گیا کہ ’’ آٹھ لوگوں میں 3آم کس طرح تقسیم کر و گے ‘‘ توبولا ’’ ملک شیک بناکر ‘‘اور جب کہا گیا کہ شمشیر زن کو جملے میں استعمال کرو تو کہنے لگا ’’میری امی وہ زن جسکی زبان شمشیر کی طرح ‘‘، جس کا کہنا ہے کہ ’’ خاوند کی زندگی تو ایسی کہ جیسے دو کنال کی کوٹھی پانچ مرلے پر ‘‘، جس کاماننا ہے کہ ’’ عورت کی سب سے بڑی محافظ اسکی بدصورتی اور طلاق کی سب سے بڑی وجہ شادی ‘‘ ،جس کا تجربہ بتائے کہ ’’بہت کم عورتیں اپنی شکل اور بہت کم مرد اپنی حرکتوں سے اپنی اصلی عمر کے لگتے ہیں اور عورت کو پہلا مرد اور مرد کو آخری عورت ہمیشہ یاد رہتی ہے ‘‘ ، جس کامشاہدہ کہ’’ شادی تو عورتوں کو مردوں میں برابر تقسیم کرنے کا نام مگر مسلمان اب اس میں بھی ڈنڈی مارنے لگ گئے ‘‘ ،جو بڑے یقین سے کہے کہ’’اگر چاند پر چہل قدمی کرتے ہوئے نیل آرمسٹرانگ نیچے غور سے دیکھ لیتے تو اُنہیں دیوارِ چین کیساتھ مولانا طاہر اشرفی اور عابدہ پروین بھی ضرور نظرا ٓ جاتے‘‘اور جسکی تحقیق کا نچوڑ یہ کہ ’’ مرد عورت کا پشتو ترجمہ‘‘، ہمارے اسی سیانے خاونددوست کی خواہش کہ ’’ کاش خاوندوں کیخلاف قانون سازی کرنے والوں کے والدین شادی ہی نہ کرتے ‘‘ چند دن پہلے ملا تو کہنے لگا ’’میری بیوی پیداہونے کے دو سال بعد جب نہ بولی تو پھر میری ساس اسے ایک پیر کے پاس لے گئی اور پھر اس پیر کی دعا سے یہ بولنے لگ گئی‘‘ یہ کہہ کر وہ رکا اور پھر دھمکی آمیز لہجے میں بولا ’’پہلے تو میں صرف اس پیر کی تلاش میں تھا لیکن اب میں ان خواتین و حضرات کو بھی ڈھونڈ رہا ہوں کہ جنہوں نے حکومتِ پنجاب کی قانون سازی میں یہ شقیں بھی شامل کروا دیں کہ بیوی پر ہاتھ اُٹھانے والے خاوند کو نہ صرف 2 دن گھرسے باہر رہنا پڑیگا بلکہ اسے ٹریکروالا کڑا بھی پہننا ہوگا‘‘ ۔ ہمارے اسی دوست کی پاکستان کے ہر مرد وزن سے یہ درخواست کہ چونکہ ان شقوں کا خالق خاوندوںاور بیویوں کا مشترکہ دشمن ہے، لہذ ا سب خاوند اور تمام بیویاں مولانا فضل الرحمن کے کندھے سے کندھا ملا کر اس چھپے دشمن کو تلاش کریں۔۔ مگر یاد رہے۔ صرف کندھے سے کندھا ملا کر۔
تازہ ترین