یہ ماہِ مبارک رحمت ،مغفرت اور جہنم سے نجات کا ہے۔اس کے شب و روز اللہ کی رحمت سے معمور اور پُرنور ہیں۔ایسے دنوں میں خصوصیت کے ساتھ بڑھ چڑھ کر نیک اعمال،رب کے حضور توبہ و مناجات،دعا اور کثرت سے استغفار کا اہتمام کرنا چاہیے۔اس مقدس مہینے کی سب سے اہم عبادت روزہ ہے۔جو ایک دینی فریضہ اور اسلام کا بنیادی رکن ہے۔
روزے کے حوالے سے رسول اکرمﷺ کا ارشاد گرامی ہے:انسان جو بھی نیک عمل کرتا ہے، اس کا اجر اسے دس گنا سے سات سو گنا تک ملتا ہے، لیکن روزے کی بابت اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ یہ عمل (چونکہ) خالص میرے لیے ہے،اس لیے میں ہی اس کی جزا دوں گا۔ (کیوں کہ) روزے دار صرف میری خاطر اپنی نفسانی خواہشات، کھانا اور پینا چھوڑتا ہے۔ روزے دار کے لیے دو خوشیاں ہیں،ایک خوشی اسے روزہ افطار کے وقت حاصل ہوتی ہے اور دوسری خوشی اسے اس وقت حاصل ہوگی، جب وہ اپنے رب سے ملے گا اور روزے دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے ہاں کستوری کی خوشبو سے زیادہ پاکیزہ ہے۔ (بخاری و مسلم)
مسلمان جب روزہ رکھے تو اسے چاہیے کہ اس کے کانوں کا بھی روزہ ہو، اس کی آنکھ کا بھی روزہ ہو، اس کی زبان کا بھی روزہ ہو، اور اسی طرح اس کے دیگر اعضاء وجوارح کا بھی روزہ ہو، یعنی اس کا کوئی بھی عضو اور جزء اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں استعمال نہ ہو۔ اس کے روزے کی حالت اور غیر روزے کی حالت ایک جیسی نہ ہو، بلکہ ان دونوں حالتوں میں فرق و امتیاز نمایاں اور واضح ہو۔روزے کا دوسرا بڑا سب سے زیادہ باعثِ اجر عمل قیام اللیل ہے۔ قیام اللیل کا مطلب ہے، راتوں میں اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کی بارگاہ میں عجزو نیاز کا اظہار کرنا۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے عبادالرحمن (رحمن کے بندوں) کی جو صفات بیان فرمائی ہیں، ان میں ایک یہ ہے:ترجمہ:’’ان کی راتیں اپنے رب کے سامنے قیام و سجود میں گزرتی ہیں‘‘۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’جس نے رمضان (کی راتوں) میں ایمان کی حالت میں ثواب کی نیت سے قیام کیا، تو اس کے پچھلے گناہ معاف کردیے جائیں گے‘‘۔(صحیح بخاری)
راتوں کا قیام رسول اللہ ﷺ کا بھی مستقل معمول تھا۔ صحابہ کرام ؓ اور تابعینؒ بھی اس کا خصوصی اہتمام فرماتے تھے۔ رمضان المبارک میں اس کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔
رمضان المبارک کا تیسرا بڑا عمل صدقہ و خیرات کرنا ہے۔حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں،نبی کریمﷺ بھلائی کے کاموں میں سب سے زیادہ سخاوت کرنے والے تھے ، آپ کی سب سے زیادہ سخاوت رمضان کے مہینے میں ہوتی تھی۔اس مہینے میں (قرآن مجید کا دور کرنے کے لیے) جب آپﷺ جبرائیل امینؑ سے ملتے تو آپﷺ کی سخاوت اتنی زیادہ اور عام ہوتی جیسے تیز ہوا ہوتی ہے، بلکہ اس سے بھی زیادہ۔(صحیح مسلم)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رمضان المبارک میں عام دنوں کے مقابلے میں صدقہ و خیرات کا زیادہ اہتمام کرنا چاہیے۔ صدقہ و خیرات کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لیے فقراء و مساکین،یتامیٰ و بیوگان اور معاشرے کے معذور اور بے سہارا افراد کی ضروریات پر خرچ کرنا اور اُن کی خبر گیری کرنا،بے لباسوں کو لباس پہنانا، بھوکوں کو کھانا فراہم کرنا، بیماروں کا علاج و معالجہ کرنا، یتیموں اور بیواؤں کی سرپرستی کرنا، معذوروں کا سہارا بننا مقروضوں کو قرض کے بوجھ سے نجات دلانا اور اس طرح کے دیگر ضرورت مند افراد کے ساتھ تعاون و ہمدردی کرنا۔سلف صالحین میں اطعامِ طعام کا جذبہ و ذوق بہت عام تھا اور یہ سلسلہ بھوکوں اور تنگ دستوں ہی کو کھلانے تک محدود نہ تھا، بلکہ دوست احباب اور نیک لوگوں کی دعوت کرنے کا شوق بھی فراواں تھا۔ اس لیے کہ اس سے آپس میں پیار و محبت میں اضافہ ہوتا ہے اور نیک لوگوں کی دعائیں حاصل ہوتی ہیں جن سے گھروں میں خیر و برکت کا نزول ہوتا ہے۔رمضان المبارک کا ایک بڑا عمل روزے داروں کے روزے کھلوانا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جس نے کسی روزے دار کا روزہ کھلوایا، تو اسے بھی روزے دار کی مثل اجر ملے گا، بغیر اس کے کہ روزے دار کے اجر میں کوئی کمی کی جائے۔(ترمذی)ایک دوسری حدیث میں ارشاد ہے:ترجمہ:جس نے کسی روزے دار کا روزہ کھلوایا، یا کسی مجاہد کو سامان حرب دے کر تیار کیا تو اس کے لیے بھی اس کی مثل اجر ہے۔ (شعب الایمان)
قرآن مجید کا نزول رمضان المبارک میں ہوا،اس لیے قرآن مجید کا نہایت گہرا تعلق رمضان المبارک سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس ماہ میں نبی کریمﷺ جبرائیل امین ؑکے ساتھ قرآن مجید کا دور کیا کرتے تھے، اور صحابہ کرامؓ بھی اس ماہ میں کثرت سے قرآن مجید کی تلاوت کا اہتمام کیا کرتے تھے، ان میں سے کوئی دس دن میں، کوئی سات دن میں، اور کوئی تین دن میں قرآن مجید ختم کرلیا کرتا تھا۔قرآن مجید کو پڑھتے اور سنتے وقت انسان پر خوف اور رقت کی کیفیت بھی طاری ہونی چاہیے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب پڑھنے اور سُننے والے مطالب اور معانی سے بھی واقف ہوں۔ قرآن مجید کومحض قصص و تاریخ کی کتاب سمجھ کر نہیں پڑھنا چاہیے،بلکہ اسے کتابِ ہدایت سمجھ کر پڑھا جائے۔ آیاتِ وعدو عیداور انذار پر خوب غور کیا جائے۔ جہاں اللہ تعالیٰ کی رحمت و مغفرت اور اس کی بشارتوں و نعمتوں کا بیان ہے، وہاں اللہ تعالیٰ سے اُن کا سوال کیا جائے اور جہاں اللہ کی پکڑ اور اس کے عذاب کا تذکرہ ہو، وہاں اللہ کے عذاب اور اس کی پکڑ سے پناہ مانگنی چاہیے۔
حدیث میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ نبی اکرمﷺ نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے فرمایا، ’’مجھے قرآن پڑھ کر سناؤ‘‘ حضرت ابن مسعودؓ نے عرض کیا: ’’میں آپ کو پڑھ کر سناؤں؟ حالانکہ قرآن تو آپ پر نازل ہوا ہے‘‘۔ آپ ﷺ نے فرمایا، ’’میں اپنے علاوہ کسی اور سے سُننا چاہتا ہوں‘‘چناںچہ حضرت ابن مسعودؓ نے سورۂ نساء کی تلاوت شروع کی جب وہ اس آیت پر پہنچے۔ترجمہ: ’’اس وقت کیا حال ہوگا جب ہم ہر اُمت میں سے ایک گواہ حاضر کریں گے، اور (اے محمدﷺ) ان سب پر آپ کو گواہ بنائیں گے‘‘۔ (سورۃ النساء)تو آپﷺ نے فرمایا، ’’بس کرو‘‘ حضرت ابن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی طرف دیکھا تو آپ ﷺکی دونوں آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ (صحیح بخاری)
اللہ تعالیٰ کے خوف سے ڈرنا اور رونا، اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہے۔ ایک حدیث میں نبی اکرمﷺ نے فرمایا ’’سات آدمیوں کو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنے سائے میں جگہ عطا فرمائے گا، ان میں سے ایک وہ شخص ہوگا جس کی آنکھوں سے تنہائی میں اللہ تعالیٰ کے ذکر اور اس کی عظمت وہیبت کے تصور سے آنسو جاری ہو جائیں۔اللہ تعالیٰ کا خوف ہر مسلمان کے دل میں ہونا چاہیے، اس کا ایک بہترین طریقہ یہ ہے کہ قرآن مجید کی تلاوت تفکر وتدبراور غور و فکر سے کی جائے ، اس کے معانی و مطالب کو سمجھا جائے اور اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلالت کو قلب و ذہن میں مستحضر رکھتے ہوئے قرآن کریم کی کثرت سے تلاوت کی جائے۔