محمد فاروق دانشؔ
تعلیم ا وراس کے تقاضے ایک سے رہتے ہیں، لیکن ان کی ادائیگی کے مواقعے اور انداز تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ ابتدا میں سکھانے کا تمام تر انداز صرف اور صرف یاد داشت کے ذریعے ممکن تھا۔ استاد کے پاس بھی درسی کتب شایع شدہ حالت میں نہ ہوتی تھیں اور نہ ہی شاگردوں کو بنی بنائی تحریر مل جاتی تھی یاآج کی طرح نوٹس بنانےکے لیے جدید ساز و سامان میسر تھا۔ اس کے باوجود اُس زمانے میںنہ صرف یہ کہ علم کا فروغ ہوا بل کہ اس دورمیںجو کام محض یادداشت کی بنیاد پر کیا گیا ، آج کے دور میں ممکن نہیں۔
ہمیں یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ ہماری روزمرہ زندگی میں کمپیوٹر نے انسانی وسائل کے اختیار کواپنی گرفت میں لے رکھا ہے،انسانی معاشرت سے متعلق تمام شعبے کمپیوٹر ہی کے مرہون منت دکھائی دیتے ہیں ،اس لیےجدید دور کی سہولیات سے بہرا مند ہونے اور جدت کے تمام فوائد حاصل کرنے کےلیےسائنس کے میدان میں حیران کن ترقی کے اصل ثمرات تک دست رس کےلیےکمپیوٹر کی قربت کے سوا کوئی دوسرا چارا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔
موجودہ دور میں جدت پسندی کے رجحانات کو جس انداز سے فروغ ملا ہے، اس کےسبب تعلیم کی اہمیت دو چند ہو گئی ،با شعور حلقے اس نوعیت کی ہر پذیرائی کو تعلیم کے میدان میں ہونے والے حیران کن کام سے منسوب کر رہے ہیں اور ظاہر ہے، سائنس کے میدان میں ہونے والی تعلیمی ترقی ہی نے انسان کو جدت پسندی کے مختلف اسلوب متعارف کرائے اور ترقی کے مقاصد کے حصول کےلیےکمپیوٹر سے منسلک سہولیات سے بہرہ مند ہونے کی ترغیب دی ۔
ایک اصطلاح آئی۔سی ۔ٹی استعمال ہورہی ہے اس سے مراد انفارمیشن اور کمیونیکیشن ٹیکنالوجی ہے۔ اس میں وہ تمام آلات شامل ہیں جو آج کل انفارمیشن اور کمیونیکیشن کےلیے استعمال ہوتے ہیں۔ عام استعمال ہونے والے آلات میں کمپیوٹر ، لیپ ٹاپ ، ملٹی میڈیا ، ہارڈڈسک ، انٹرنیٹ ، مرکزی و ثانوی یاداشتیں،اور کیبل، وائرلیس میڈیا اور نیٹ ورک آلات شامل ہیں۔ موجودہ دور میں یہ ٹیکنالوجی تقریباً تمام شعبہ ہائے زندگی میں استعمال ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ نظام تعلیم میں بھی ان کا استعمال بڑھتا جا رہا ہے۔ یہ طلبہ ، اساتذہ، تعلیمی تحقیق ، تنظیم و انصرام ، تدوین نصاب اور جائزہ سب کے لیے نہایت ضروری ہے۔ آئی۔سی ۔
ٹی کے ساتھ تعلیم کا لفظ بذات ِ خود اپنے اندر ایک دنیا سموئے ہوئے ہے اور اسی کے اندر انفارمیشن اور کمیونیکیشن شاخوں کی صورت میں موجود ہیں۔انفارمیشن اور کمیونیکیشن ٹیکنالوجیز نوجوانوں کی تعلیمی مواد تک رسائی کو آسان بناتی ہیں، یعنی وہ ایک کلک سے آن لائن تعلیمی مواد ، ڈیجیٹل لایبریریوں اور نامور اسکالرز کے لیکچروں تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں اور وہ ان کو چھوٹے سے میموری کارڈ پر کو محفوظ کر سکتے ہیں۔ پھر جب چاہے اس کا مطالعہ ای۔ریڈر کی مدد سے کر سکتے ہیں۔ اس طرح ہم تعلیمی میدان میں نہ صرف آگے بڑھ سکتے ہیں بلکہ معیاری تعلیم کا حصول بھی ممکن ہو جاتا ہے۔
آج کل پوری دنیا ایک عالمی وبا کی زد میں ہے اور ان حالات میں اسکول، کالج اور یونی ورسٹیاں سب ہی کچھ تو غیر معینہ مدت کے لیے بند ہیں اور اس صورت حال میں ظاہر سی بات ہے کہ ہر صورت نوجوانوںکا نقصان ہو رہا ہے پھر طلب علم رکھنے والے جب زیادہ عرصے گھر پر رہ جاتے ہیں تو جو کچھ سبق یاد ہوتا ہے وہ بھی ذہن سے محو ہو جاتا ہے، اب ہونا یہی چاہیے تھا کہ کوئی ایسا طریقہ نکالا جائے کہ طلبہ کا نقصان بھی نہ ہو اور لاک ڈاؤن کے خاتمے کے بعد وہ اس لایق ہوں کہ اپنے امتحانات کا بہ خوبی مقابلہ کر سکیں۔
آن لائن تعلیمی مواد کے علاوہ آج کل دنیا بھر کی جامعات نے مُوک (MOOC ) کی صورت میں اوپن آن لائن کورس متعارف کروائے ہیں جن میں طالب علم گھر بیٹھے کورسوں میں داخلہ لے سکتے ہیں، کورس کی تکمیل پر امتحان لیا جاتا ہے اور کام یاب طالب علموں کو سرٹیفیکیٹ دیے جاتے ہیں۔ جیسا کہ ہم نے کہا کہ وقت اور حالات کے ساتھ تدریس کے انداز میں بھی نمایاں تبدیلی آتی رہتی ہے اور آنی بھی چاہیے۔
موجودہ دور میں تعلیمی حوالوں سے فاصلاتی نظام تعلیم کا پرچار ہر زبان زد عام ہے اور طلبہ کے رجحانات بھی آن لائن طریقہ تعلیم میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں گوکہ اس طریقہ تعلیم کے منفی رجحانات اور نتائج کی جانب زیادہ دھیان نہیں دیا جارہا ہے مگر چوںکہ تعلیمی اداروں میں مقابلے کا رجحان ،طلبہ کی صلاحیتوں میں اضافے کےلیےآن لائن طریقہ تعلیم کو زیادہ سہل، مفید اور دل چسپ سمجھا جانے لگا ہے اس لیےاس سہولت سے بہرہ مند ہوکر نوجوان اپنے تعلیمی امور میں انقلابی تبدیلیوں کا رخ اختیارکیےہوئے ہیں اور وہ وہ کمالات دکھا رہے ہیں جن کے سبب جدید طریقہ تعلیم کے فوائد کو بھی زیادہ اہم اور عام بنا یا جارہا ہے ،جدید طریقہ تعلیم کے حوالے سے بلا شبہ یہ ایک موثر اور مفید طریقہ ہے اور اس کی پذیرائی نے تعلیمی اداروں کی کار کردگی کو بھی چار چاند لگا دیے ہیں ساتھ ہی طلبہ کا ذوق و شوق تعلیمی میدا ن میں مقابلے کے رجحانات میں اضافے کا سبب بن رہا ہے ایسا کرنے سے طلبہ کا جذبہ تعلیم بھی بڑھے گا اور تعلیمی حوالوں سے مقابلے کا رجحان بھی جدید طریقہ تعلیم کے فروغ کی کوششوں کا بھی باعث بن جائے گا ۔
لاک ڈاؤن کے اِن پر آشوب حالات میں سندھ کے وزیر تعلیم سعید غنی اور ان کی ٹیم نوجوانوں کی تعلیم سے دوری کی بات سے غافل نہیں رہی،وہ وائرس سے نمٹتے نمٹتےاس تگ و دو میں بھی لگے رہے کہ ایسا کیا کیا جائےکہ کالجوں میں داخل ان نوجوانوں کے ہونے والےنقصان کوکس انداز سے پورا کیا جائے۔ سندھ کے سیکرٹری کالجز ڈاکٹر رفیق احمد برڑو کی معیت میں جدید تکنیک کا استعمال کرتے ہوئے سندھ کے کالج طلبہ کے لیے ایک یو ٹیوب چینل ’’سندھ کالج لیکچر ‘‘کی بنیاد ڈالی گئی ۔ اس حوالے سے گھروں میں فارغ بیٹھے پروفیسرز کو اس بات کا پابند کیا گیا کہ وہ طلبہ کا نقصان پورا کرنے کے لیےاپنے اپنے مضامین کے لیکچرز تیار کرکے اس چینل پر ڈال دیں تاکہ ضرورت مند طلبہ باآ سانی استفادہ کرسکیں۔یہ ابتدا ہے اس کام کی جو آگے چل کر آن لائن کلاسز اور دیگر ضروری علوم کا ذریعہ بنے گا۔
یہ امر اس لیے بھی ضروری ہو چلا تھا کہ بہ راہ راست تعلیم نہ ہی سہی، ایسا تو کچھ ہو کہ طلبہ کو ریکارڈد لیکچرز ہی آن لائن دست یاب ہوں کہ وہ بہ وقت ضرورت ان سے استفادہ کر سکیں۔ سرکاری اداروں کے لیے خال خال ایسے منصوبے شروع کیے جاتے ہیں ورنہ تن آسانی کو ہی اصل مقصدٹھہرایا جاتا ہے۔یہ امر باعث مسرت ہے کہ نوجوانوں نے اس چینل کی پذیرائی کی اور اب تک ہزاروں طلبہ اس سے استفادہ کرچکے ہیں۔
حکومت کی جانب سے سرکاری کالجوں کے اساتذہ کو تن خواہوں کے بہ ترین پیکیجز ملے ہوئے ہیں۔اب یہ ان کے لیے لازم ہے کہ وہ تدریس کی وڈیو ریکارڈنگ کے دوران جدید آلات ، تصاویر ،فلم شیٹس اور دیگر ماڈلز کا استعمال کریں تاکہ اپنے سبق کو دل چسپ اور معلوماتی بناسکیں۔ اپنے مضمون کی اچھی تیاری اور بھر پور گرفت کے ساتھ لیکچر تیار کریں تاکہ گھر بیٹھے طلبہ اسے بغیر کسی راہ نمائی کے سمجھ سکیں۔
آج کل اکثر نجی مدارس پرائمری سطح پر کمرہ جماعت کو عصری ٹیکنالوجی سے لیس کر رہے ہیں اور ہر کمرہ جماعت کو پروجیکٹر سے آراستہ کرکے لیپ ٹاپ اور تعلیمی سی ڈیز کی مدد سے اپنے سبق کو بہتر انداز میں پڑھا رہے ہیں۔ اس طرح کی کلاسز کو اسمارٹ کلاس کا نام دیا جارہا ہے۔ بعض تعلیمی ادارے ماہرین کمپیوٹر اور گرافکس و اینیمیشن کی مدد کے ساتھ کتابوں کے روایتی ،سائنسی سماجی علوم اور ریاضی و زبان کے اسباق کو معیاری بنارہے ہیں۔ ان اداروں میں استاد کی تن خواہیں کم لیکن ان کا ورک لوڈ زیادہ ہوتا ہے اس کے باوجود وہ جاں فشانی سے کارہائے نمایاں انجام دیتے ہیں۔ پھر بہتر تنخواہیں لینے والے کیوں اپنے طلبہ کی داد رسی کے لیے اپنی عمدہ کاوشوں کو کام میں نہیں لا سکتے۔
جدت پسندی کے رجحانات کی مکمل پذیرائی کےلیےکمپیوٹر کی تعلیمی اداروں میں موجودگی اورنوجوانوں کو زیادہ سے زیادہ تعلیمی سہولیات کی فراہمی ان کے تعلیمی میدان میں کمالات دکھانے کے شوق کو پروان چڑھا سکتی ہیں ۔ یہ تو ابتدا ہے، آنے والے دنوں میں ایسے ہی اہل افراد ،علم کے فروغ کے لیے کوشاں رہے تو کوئی بعید نہیں کہ انھی سرکاری اداروں سے آن لائن لیکچرز اور کلاسوں کا سلسلہ بھی شروع ہوجائے کہ نوجوان دور افتادہ بیٹھے ہوئے بھی کلاسوں سے استفادہ کرسکیںا ور ترقی یافتہ ممالک کی طرح فوری اپنے اساتذہ سے ویڈیو لنک کے ذریعے اپنے مضامین سیکھ سکیں اور معاشرے کے لائق فرد بن سکیں۔
ان حالات میں ضرورت اس بات کی ہے کہ اس ضمن میں موجود مسائل کو جلد از جلد حل کیا اورنوجوانوں کی جدید تعلیمی طریقوں کے حصول تک دسترس یقینی بنائی جاسکے، ساتھ ہی طلبہ کو بھی چاہیے کہ وہ جدت پسندی کے رجحانات کو اختیار کریں اور تعلیمی میدان میں ہونے والی روز افزوں ترقی کے اسباب جان کر اپنے ملک میں تعلیمی امور کی انجام دہی کے طریقوں اور اسلوب کی بہتری یقینی بنانے میں اپنا بھر پور کرداربھی ادا کریں کہ یہی ہمارا آنے والا کل ہیں اور ہماری امیدوں کا محور و مرکز بھی یہی ہیں۔