• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مرتّب:جمیل یوسف

صفحات: 344 ،قیمت: 700 روپے

ناشر: دوست پبلی کیشنز، اسلام آباد۔

زمانے کی تیز رفتاری نے کئی ایسی قدیم اور عُمدہ روایات کُچل کر رکھ دی ہیں، جوتہذیب کی علامات شمار کی جاتی تھیں۔ ایسی ہی ایک تہذیبی علامت خطوط نگاری بھی تھی،جو موجودہ عہد آتے آتے ’’ای میل‘‘کی شکل اختیار کرچُکی ہے۔اگرچہ پیغام رسانی کی ترسیل کا تیز تر ذریعہ بھی ہے،تاہم کہاں وہ خط لکھنے کے لیے لفافہ خریدنا، تحریر کو خوش خط بنانا، مخاطب کے لیے خُوب سوچ سمجھ کر الفاظ منتخب کرنا،متن پر غور کرنا،اُسے روانہ کرنا،پھر جواب کا انتظار کرنااور بالآخر خط کا جواب پالینا۔

کبھی کبھی جواب پڑھتے پڑھتے حضرتِ داغؔ دہلوی کی سی کیفیت طاری ہوجاناکہ؎’’اُنہوں نے خط تو بھیجا پر سمجھ میں کچھ نہیں آتا …کہ سو سو طرح کا ہر بات میں پہلو نکلتا ہے‘‘۔’’خطوط بنام جمیل یوسف‘‘لُطف فراہم کرنے والی کتاب ہے کہ جن ادبی مشاہیر سے جمیل یوسف صاحب کی خط و کتابت رہی ،کم و بیش ایسے تمام خطوط اُنہوں نے دیدہ زیب انداز میں شایع ہونے والی زیرِ نظرِکتاب میں اپنے قارئین کے حوالے کر دیے ہیں۔

خود صاحبِ کتاب کُہنہ مشق شاعر اور ادیب ہونے کے علاوہ سرکاری ملازم بھی رہے ہیں۔ ’’غزل‘‘ اُن کی غزلوں کا مجموعہ ہے۔ ’’موجِ صدا‘‘، ’’گُریزاں‘‘، ’’بابر ؔ سے ظفرؔ تک‘‘، ’’پریوں کے دیس میں ‘‘ کے خالق جمیل یوسف کی زیرِ تبصرہ کتاب، خطوط نگاری کی دُنیا میں ایک خوش گوار اضافہ ہے۔

تازہ ترین