سرور کائنات،ہادی عالم،امام الانبیاء ،سیدالمرسلین،خاتم النبیین،حضرت محمدﷺکے رفیق ِ سفر و حضر،یارِغار ومزار، خلیفۂ اول، سیدنا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی پیاری بیٹی سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا حضور اکرم ﷺ کی زوجۂ محترمہ اور امہات المومنینؓ میں بلند مقام کی حامل ہیں۔ان کا لقب صدیقہ اور حمیرا ہے ،کنیت ام عبداللہ ہے، یہ کنیت خود حضور ﷺ کی تجویز فرمائی ہوئی تھی۔اس کی تفصیل یہ ہے کہ عرب میں کنیت رکھنا شرافت کا معیار اور علامت سمجھی جاتی تھی ،ایک دن انہوں نے نبی اکرمﷺ سے عرض کیا کہ عرب کی عورتیں کنیت سے مشہور ہیں،آپ ﷺ میری بھی کوئی کنیت تجویز فرمادیں ،اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: اپنی کنیت عبداللہ کے نام کی نسبت سے ام عبد اللہ رکھ لو۔ واضح رہے کہ حضرت عبداللہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھانجے تھے۔
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نبی ﷺ کے اعلان نبوت کے چار سال بعد پیدا ہوئیں، اس طرح انہیں یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ یہ پیدائشی مسلمان تھیں۔ یہ ایک ایسا اعزاز ہے کہ جوحضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو اسلام کی ان برگزیدہ شخصیات کی فہرست میں داخل کردیتا ہے، جن کے کانوں نے کبھی کفروشرک کی آواز تک نہیں سُنی،سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا انتہائی ذہین تھیں اور انہیں یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ علمی طور پر صحابیاتؓ میں سب سے بڑی فقیہہ تھیں۔ نبی ﷺ نے نکاح سے پہلے انہیں دو مرتبہ خواب میں دیکھا کہ وہ ریشمی کپڑے میں ملبوس ہیں، کوئی شخص آپ ﷺ سے کہتا ہے کہ یہ آپﷺ کی زوجۂ محترمہ ہیں۔ آپ ﷺ دوران خواب ہی فرماتے ہیں کہ اگر یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے تو ایسا ہوجائے گا۔ اسی خواب کی بنیاد پر رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہاں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کا پیغام بھجوایا ۔اتنا سننا تھا کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خوشی سے پھولے نہ سمائے تھے کہ ان کی صاحب زادی تاجدار مدینہ حضرت محمد ﷺ کے نکاح میں آئیں۔ چناںچہ فوراً راضی ہوگئے اور شوال کے مہینے میںچار سو درہم کے حق مہر پر آپ کا نکاح ہوا۔
خطبۂ نکاح خود حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے پڑھایا۔ اس وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کم سن تھیں۔ (واضح رہے کہ) یہ صرف عقد نکاح تھا ،جس میں رخصتی کی نوبت اس وقت نہیں آئی تھی،یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت تھی اوریہ انتخاب بھی اللہ تعالیٰ ہی کا تھا۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا انتہائی ذہین تھیں۔ نبی ﷺ کا لایا ہوا دین جس طرح انہوں نے محفوظ کرکے عام فرمایا، یہ بات اللہ تعالیٰ کی حکمت اوردین کی حقانیت کا ثبوت ہے۔ آپ کے علاوہ جتنے بھی نکاح ہوئے وہ عمر رسیدہ عورتوں سے ہوئے ۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ ﷺ کی ایک ایک بات انتہائی شوق ورغبت کے ساتھ دیکھی،پرکھی، سمجھی اور امت مسلمہ کی خصوصاً عورتوں تک اور عموماً دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تک کماحقہ مِن و عن پہنچائی۔
عقد نکاح کے کچھ ہی عرصے بعد نبی ﷺ اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کا حکم ہوا اور یہ دونوں حضرات مدینہ منورہ کے لیے روانہ ہوگئے،راستے میں مختلف واقعات پیش آئے، بالآخر آپ دونوں حضرات مدینہ منورہ بخیروعافیت پہنچ گئے۔ وہاں اللہ تعالیٰ نے مکہ مکرمہ کے مقابلے میں انتہائی اطمینان بخش فضا قائم فرمائی جس کے بعد سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے پورے گھرانے کو مدینۂ منورہ بلوالیا،یہاں آپ رضی اللہ عنہا کی رخصتی عمل میں آئی، اس کے بعد بحیثیت زوجہ نوسال نبی ﷺ کی رفاقت میںاس طرح گزارے کہ ایک دوسرے کے ساتھ انتہائی محبت کے ساتھ پیش آتے تھے، نبی ﷺ نے آپ کی بہترین تربیت بھی فرمائی اور یہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا ذوق و شوق تھا کہ انہوں نے علمی میدان میں بھی اس موقع سے فائدہ اٹھایا اور علوم اسلامی کے ایک بہت بڑے ذخیرے کو نہ صرف اپنے پاس محفوظ فرمایا، بلکہ ہرہر موقع پر امت مسلمہ کی رہنمائی بھی فرمائی۔
علامہ سیّد سلیمان ندویؒ رقمطراز ہیں: ’’عموماً ہر زمانے کے بچّوں کا وہی حال ہوتا ہے جو آج کل کے بچّوں کا ہے کہ سات آٹھ برس تک تو انہیں کسی بات کا مطلق ہوش نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ کسی بات کی تہہ تک پہنچ سکتے ہیں، لیکن حضرت عائشہ صدیقہؓ لڑکپن کی ایک ایک بات یاد رکھتی تھیں۔ ان کی روایت کرتی تھیں، ان سے احکام مستنبط کرتی تھی، لڑکپن کے کھیل کود میں کوئی آیت کانوں میں پڑ جاتی،تو اسے بھی یاد رکھتی تھیں، کم سنی اور کمر عمری میں ہوش مندی اور قوت حافظہ کا یہ حال تھا کہ ہجرت نبویؐ کے تمام واقعات بلکہ جزوی باتیں تک ان کو یاد تھیں،ان سے بڑھ کر کسی صحابیؓ نے ہجرت کے واقعات کو ایسی تفصیل کے ساتھ نقل نہیں کیا۔‘‘
حضرت عائشہ صدیقہ ؓکو مندرجہ ذیل ایسی خصوصیات حاصل تھیں، جن میں امت کا کوئی فرد ان کا سہیم و شریک نہیں،چناںچہ وہ فرماتی ہیں:فرشتہ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں ان کی تصویر لے کر حاضر ہوا۔وہ آپ ﷺ کو ازواج مطہرات ؓ میں سب سے زیادہ محبوب تھیں ۔ آپ کی وجہ سے امت کو تیمم کی رخصت ملی۔جبرائیل علیہ السلام کو آپ نے دیکھا ۔آپ کی پاک دامنی اور برأت میں دس قرآنی آیات نازل ہوئیں ۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی فضیلتیں حاصل تھیں ۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ لوگ رسول اللہ ﷺکی خدمت میں ہدیہ پیش کرنے کے لیے اس دن کا انتظار کرتے جس روز آپﷺ کی میرے یہاں باری ہوتی اور اس سے ان کا منشا رسول اللہﷺ کی خوش نودی حاصل کرنا تھا۔
حضرت عُروہ بِن زبیرؓ کا قول ہے کہ میں نے قرآن و حدیث، فقہ و تاریخ اور علم الانساب میں اُمّ المومنین حضرت عائشہؓ سے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا، احنف بِن قیسؒ اور موسیٰ بِن طلحہؒ کا قول ہے کہ حضرت عائشہؓ سے بڑھ کر میں نے کسی کو فصیح الّلسان نہیں پایا۔
رسول اللہ ﷺ کا معمول تھا کہ آپ ﷺجہاں عام حالات میں اپنے ساتھ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو رکھا کرتے تھے ،وہاں کئی مواقع پر سفر میں بھی آپ کو اپنے ساتھ لے گئے۔ جن میں غزوات کے سفر بھی شامل ہیں۔
رسول اللہ ﷺ کے اس دنیا سے پردہ فرمانے کے وقت آپ کی طبیعت کئی روزعلیل رہی، بیماری نے شدت اختیار کی۔آپ ﷺ نے اپنی تمام ازواج مطہراتؓسے اجازت چاہی کہ آپ کی تیمارداری عائشہ صدیقہؓ کے ہاں کی جائے۔ تمام ازواج مطہراتؓ نے بخوشی اس کی اجازت دے دی۔ آپ ﷺ سیدہ عائشہ صدیقہؓ کے ہاں تشریف لے گئے، اور وصال تک ان ہی کے ہاں رہے۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاسورۂ اخلاص، سورۂ فلق اور سورۂ ناس پڑھ کر رسول اللہ ﷺ کے ہاتھوں پر دم کرتی تھیں۔نبی ﷺ کی حیات طیبہ کے آخری لمحات میں یہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے لیے بڑا اعزاز تھا۔
انتقال سے پہلے آپ نے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو وصیت کی تھی کہ مجھے ازواج مطہراتؓ کے پاس ہی دفن کردینا۔ حضور ﷺ کے ساتھ ایک جگہ جو ابھی باقی ہے، وہاں دفن نہ کرنا، کیوںکہ میں یہ بات پسند نہیںکرتی کہ مجھے دوسری ازواج مطہرات ؓکے مقابلے میں کوئی برتر مقام دیا جائے۔رمضان المبارک میں آپ کا انتقال ہوا اور آپ کو آپ کی وصیت’’موت کے بعد فوراً مجھے دفن کردینا‘‘ کے مطابق حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے جنازے کی امامت فرمائی، اس کے بعد جنت البقیع (مدینہ منورہ) میں تدفین کردی گئی۔ قاسم بن عبداللہ، عبداللہ بن عبدالرحمن، عبداللہ بن ابی عتیق، عروہ ابن زبیر، عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم تدفین کے عمل میں شریک ہوئے۔
سیرتِ عائشہؓ پر ایک نظر
٭آپ کا نام عائشہ ،جب کہ صدیقہ، ام المومنین اور حمیرا کے القاب سے شہرت پائی۔٭والد کا نام ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور والدہ کا اسمِ مبارک امِ رومان رضی اللہ عنہا تھا۔٭آٹھویں پشت میں آپ کا نسب حضورِ پرنورﷺ سے جا ملتا ہے۔٭آپ کی ولادت نبوت کے چوتھے سال مکۃ المکرمہ میں ہوئی۔٭قرآنِ کریم کی عالمہ ،فصیح البیان اور عربی اشعار پر کامل دسترس رکھتی تھیں۔٭آپ سے جو احادیثِ مبارکہ مروی ہیں، ان کی تعداد دو ہزار دو سو دس ہے۔٭ آپ کے مناقب میں تیمم کے حکم کا نازل ہونا بھی ہے۔٭رمضان سن ۵۸ھ میں انتقال فرمایا اوروصیت کے مطابق جنت البقیع میں دفن کی گئیں۔
علم ودانائی کی باتیں
امّ المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:٭ کم کھانا تمام بیماریوں کا علاج ہےاور شکم سیری بیماری کی جڑ ہے۔٭مہمان کی خاطر زیادہ خرچ کرو، کہ یہ اسراف نہیں۔٭عبادتوں میں افضل ترین عبادت عاجزی ہے۔٭مصیبتوں کا مقابلہ صبر سے اور نعمتوں کی حفاظت شکر کے ساتھ کرو۔٭آدمی کے برا ہونے کی ایک علامت یہ ہے کہ وہ یہ گمان کرے کہ وہ اچھا ہے۔٭زبا ن کی حفاظت کرو کہ عزت اور ذلت کی یہی سزاوار ہے۔٭تمہارے لیے خیر اسی میں ہے کہ شر سے باز آجائو۔٭حق کا پرستار ذلیل نہیں ہوتا، چاہے سارا زمانہ اس کے خلاف ہوجائے اور باطل کا پرستار عزت نہیں پاتا،چاہے چاند اس کی پیشانی پر نکل آئے۔٭جب معدہ بھر جائے تو فکر کمزور پڑجاتی ہے اور حکمت و دانائی کی صلاحیت گونگی ہوجاتی ہے۔٭عظمت صرف ایک فیصد ودیعت کی جاتی ہے اور ننانوے فیصد محنت و ریاضت سے ملتی ہے۔