• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
راستے پہلے بھی بند کئے جاتے تھے، اب بھی ہوئے۔ وہ اُس کے اختیار کا زمانہ تھا، یہ بے اختیاری کا وقت ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں پُلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ گیا ہے۔ ہاتھ باگ پر رہا، نہ رکاب میں پیر۔ کل اُس کی حفاظت کے لئے سڑکیں بند کی جاتی تھیں، آج اُس پر راستے بند ہیں، پابندیاں ہیں، کہاں جا سکتے ہو اور کہاں نہیں۔ اب اُس کی مرضی نہیں چلتی، وہ وقت اور تھا۔ ایک دن کسی تقریب میں شرکت کے لئے گھر سے نکلے، شارع فیصل کے ایک طرف سے دوسری طرف جانا تھا، سڑک بند کی ہوئی تھی۔ کارساز سے مڑ کے ایک دوسری سڑک پر آئے، وہ بھی بند پائی۔ اندر اندر ایک سے دوسری گلی میں نکلتے ہوئے نرسری تک جا پہنچے۔ اب بھی سڑک کے اِسی طرف تھے، یہاں بھی راستہ روکے مسلح اہلکار کسی کو آگے جانے کی اجازت نہیں دے رہے تھے۔ درجنوں لوگ ، مرد وخواتین، بچّے بوڑھے،یہاں کھڑے تھے، سارے راستوں پہ سیکڑوں ہوں گے، ان میں مریض بھی تھے۔ذر ا آگے ایک خاندان اسپتال جانا چاہتا تھا،کسی مریض کو لے کر، مگر اجازت نہیں تھی۔ آمرِ مطلق گزر جائے گا تب سڑک کھلے گی۔ یہ روز کا معمول تھا، آئے دن کا دستور بنا دیا گیا تھا، جب بھی، جہاں سے بھی اس کی سواری بادِبہاری گزرتی سڑک بند کردی جاتی، راستے اِسی طرح روک لئے جاتے۔ اس نے سوچا بھی نہیں ہوگاکہ اس پر بھی یہ راستے کبھی بند ہو جائیں گے۔ وہ اقتدار میں تھا، اِس کا نشہ ہی اور ہوتا ہے، سوچ سمجھ سے ، دور اندیشی سے محروم کر دینے والا۔ اقتدار اور دور اندیشی میں دانت کاٹے کا بیر ہے۔ اِدھر آدمی اقتدار میں آیا یا قابض ہوا، اُدھر دور اندیشی رخصت ہوئی۔
اب ایک عام آدمی کی حیثیت سے جب وہ واپس آئے تو جنرل پرویز مشرف کو اندازہ ہوا ہوگا کہ دنیا وہ نہیں جو انہیں آرمی ہاؤس میں قیام کے دوران نظر آتی تھی۔ دنیا اُس سے بہت مختلف ہے، لوگوں کے رویّے بھی بدل جاتے ہیں ، ان کے بھی جو آس پاس جان نثاری کے دعویدار ہوتے ہیں۔ رہے عام لوگ تو ان کے رویّے نہیں بدلتے، صرف ان کے اصل جذبات کا اظہار ممکن ہو جاتا ہے۔ کل جب اِن کے حکم پر چیف جسٹس کی گاڑی چھینی جا رہی تھی، انہیں اپنی مرضی سے جانے کی اجازت نہیں دی جا رہی تھی، اُن کے بال نوچے جا رہے تھے، لوگوں میں غصّہ بھی تھا، غم بھی اور دکھ کا یہ احساس کہ وہ کچھ کر نہیں پا رہے۔ پھر قوم اٹھ کھڑی ہوئی، ایک تحریک چلی، عدلیہ کی بحا لی کی، آمر سے جان چھڑانے کی۔ عدلیہ بھی بحال ہوئی اور آمر سے جان بھی چھوٹی۔ وہ ملک چھوڑکر فرار ہو گئے، مگر ان کے خلاف غم و غصّہ برقرار رہا۔ خود انہیں اس سارے وقت میں یہاں کے اصل حالات کا علم نہیں ہو سکا، وہ حقائق کبھی نہ جان سکے۔ کوشش بھی انہوں نے شاید ہی کی ہو۔ وہ عقل کُل تھے، انہیں کوئی کیا سکھاتا، وہ کیسے سیکھتے۔ عقل کُل کہیں کسی کی سنتے ہیں؟حقائق کا اندازہ تو انہیں ملک واپس آکر ہوا، اگر ہوا ہوگاتو، کہ عوام کی طاقت اُن کے ساتھ نہیں ہے۔ کبھی تھی بھی نہیں، یہ ان کا گمان تھا۔ جب وہ کراچی میں چیف جسٹس کو ہوائی اڈے سے باہر نکلنے سے روکنے کے انتظامات کر رہے تھے تب بھی عوام کی طاقت ان کے ساتھ نہیں تھی۔ انہیں خود تو معلوم ہے یہ سارا بندوبست ، سڑکوں پہ کنٹینر کھڑے کرنے، سڑکیں بند کرنے، راستے روکنے کا سارا انتظام کس نے کیا؟ کہاں اس کی منصوبہ بندی ہوئی ؟اور کس طرح اس پر عمل کیا گیا؟ کیسے پچاس ساٹھ لوگ خون میں نہلا دیئے گئے؟ انہوں نے مکّے لہرا کر دعویٰ تو کردیا کہ عوام کی طاقت نے چیف جسٹس کو روک دیا مگر وقت نے تھوڑے عرصہ ہی میں ثابت کر دیا کہ ایسا تھا نہیں۔ تحقیقات ہو تو اصل بات سامنے آسکتی ہے۔ بہت سے لوگ اصل بات جانتے ہیں، بات ذاتی اعتماد کی ہے ورنہ بیان بھی کی جا سکتی تھی۔ یوں عوام اس دن بھی چیف جسٹس کے ساتھ اور آمر کے خلاف تھے، اب بھی ہیں۔ عدالت میں آتے ہوئے مشرف نے توہین محسوس کی۔ بھلا کیوں؟ وہ خود اس سے پہلے نواز شریف کو عدالت میں پیش کرواچکے ہیں، انہیں اس وقت اندازہ نہیں ہوا کہ ایسا کوئی وقت ان پر بھی آسکتا ہے؟ بار بار قوم کی توہین کرتے وقت انہیں کبھی یہ اندازہ نہیں ہوا کہ وہ کیا کر رہے ہیں؟انہوں نے اقتدار پہ قبضہ کرکے قوم کی توہین کی، کیا دو تہائی اکثریت رکھنے والی حکومت کو برطرف کرنا قوم کی رائے کا مذاق اڑانا نہیں تھا؟ کیا ذاتی مفاد کی خاطر فوج کو استعمال کرنا قوم کی توہین نہیں تھی؟ اور یہ قبضہ بھی بندوق کے زور پر کیا گیا۔ جنرل مشرف، ہم نے شاید ہی کبھی سوچا ہو، وہ پہلے (اور خدا کرے آخری) فوجی تھے جو مارشل لاء لگائے بغیر حکومت پر قابض ہو گئے۔ مارشل لاء بھی قطعی غیر آئینی اقدام ہوتا ہے مگر فوجی حکمراں کسی قانون کا سہارا تو لیتے تھے، موصوف نے تو ایسا کچھ بھی نہیں کیا، بس قبضہ کر لیا، بندوق کے زور پر، جس طرح سڑک پر پستول دکھا کر کوئی لفنگا کسی کو لوٹ لے۔
بس انہوں نے بھی یہی کیا، اقتدار لوٹ لیا۔ بعد میں بھی بار بار انہوں نے قوم کا مذاق اُڑایا۔ تضادات سے پُر اقدامات کئے۔ انہوں نے ہنگامی حالات کا نفاذ اپنی فوجی حیثیت میں کیا۔ یہ بھی قطعی غیر آئینی اقدام تھا۔ فوج کے سربراہ کو پاکستان کے آئین کے تحت ہنگامی حالات نافذ کرنے کا اختیار نہیں ہے مگر انہیں آئین سے کیا مطلب تھا اگر انہوں نے آئین کے تحت حلف اٹھایا تھا تو یہ ان کی نوکری کی مجبوری تھی۔ اس آئین کی خلاف ورزی وہ بار بار کرتے رہے۔ عوام نے اسے کبھی پسند نہیں کیا اور جب بھی انہیں موقع ملتا ہے وہ اپنے جذبات کا اظہار کر دیتے ہیں۔ ابھی جب عدالت میں ایک جوتا ان کی طرف اچھالا گیا تو وہ انہی جذبات کا اظہار تھا۔ وہ ذرا عام آدمی کی طرح سڑک پر نکل کر دیکھیں، انہیں اندازہ ہو جائے گا کہ عوام ان کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ مانا کے کسی پر جوتا پھینکنا معقول بات نہیں مگر کسی آدمی کے بال پکڑ کر کھینچنا بھی تو انتہائی نامعقول بات ہے جب کہ وہ آدمی اس ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کا سربراہ بھی ہو۔ کیا مشرف کو کبھی پچھتاوا ہوا؟ کیا کبھی انہوں نے اپنے ماضی کے اقدامات کا جائزہ لیا ؟ ان کے رویہ سے لگتا ہے انہیں اپنے کئے پر کوئی شرمندگی نہیں ہے ۔ ڈھٹائی اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ وہ بہرحال کر رہے ہیں ۔لال مسجد میں فوجی کارروائی ،اب وہ کہتے ہیں ان کے حکم پر نہیں ہوئی ۔ وہ نہیں، وزیراعظم ذمہ دار ہیں ،اکبر بگٹی کے قتل کے ذمہ دار بھی وہ نہیں۔ وہ کسی بھی غلط کام کے ذمہ دار نہیں ہیں ، مجھے وزیر اعظم نے ریفرنس بھیجا اس پر میں نے عمل کر دیا ۔ چیف جسٹس کے خلاف کارروائی پر اب ان کا فر مانا یہ ہے ۔کون وزیراعظم ؟شوکت عزیز؟ کون تھا ؟کہاں ہے؟آرمی ہاؤس میں چیف جسٹس کو کس نے بلایا تھا ؟شوکت عزیز نے؟ عوامی طاقت کا دعویٰ کس نے کیا تھا؟ شوکت عزیز نے؟ حقائق کو اتنی جلدی توڑا مروڑا نہیں جا سکتا۔ یہ ماضی بعید کی تاریخ نہیں ہے ،ابھی کل کا واقعہ ہے ۔ یہ سب کچھ عوام کی آنکھوں کے سامنے ہوا ہے۔انہوں نے یہ سب دیکھاہے ۔غصّہ انہیں اُس وقت بھی تھا ،اَب بھی بہت ہے ۔غصّے کا اظہار بھی ہوگا اوراظہار کا طریقہ لوگ خود طے کریں گے ۔ ایک جھلک تو آپ نے دیکھی۔ وہ وقت بھی دور نہیں جب سرِ پُرغُرور استخواں سے چور ہوگا۔ جو آپ نے کیا، اُس کاخمیازہ آپ بھگتیں ۔ آنکھ والوں کے لئے اس میں عبرت کا سامان ہے۔
تازہ ترین