• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

پختونخواہ کا سب سے بڑا طبی مرکز بھی علاج معالجے کی سہولتوں سے محروم

خیبرپختونخوا میں جہاں بدستور کورونا وائرس کے حملے جاری ہےاور کورونا لاک ڈائون میں مسلسل نرمی کے باوجود عوام معاشی بدحالی اور پریشانی کا شکار ہیں وہاں دسویں قومی مالیاتی کمیشن (این ایف سی ) خیبرپختونخوا سمیت دیگر صوبوں کا حصہ کم کرنے اور کمیشن میں خیبرپختونخوا کی نمائندگی کے لئے پنجا ب سے تعلق رکھنے والے ایک سابق بیوروکریٹ کی نامزدگی نے صوبے کی قوم پرست جماعتوں میں گویا ہلچل مچادی ہے اے این پی سمیت دیگر قوم پرست جماعتوں نے قومی مالیاتی کمیشن پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسے مسترد کیا ہے اور اس بات پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ پنجاب سے تعلق رکھنے والا شخص کمیشن میں کس طرح پختونوںکی نمائندگی اور ان کے مفادات کا تحفظ کرسکتا ہے ۔

خیبرپختونخوا کی قوم پرست جماعتوں نے کمیشن میں غیرمتعلقہ افراد کی موجودگی صوبائی خودمختاری پر سمجھوتے کے مترادف قرار دیا ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفندیارولی خان نے دسویں قومی مالیاتی کمیشن کو مسترد کرتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ کمیشن میں غیرمتعلقہ اور غیرمقامی افراد کی شمولیت صوبائی خودمختاری اور صوبائی حقوق پر سمجھوتے کے برابر ہیں، پنجاب سے تعلق رکھنے والا ایک فرد کبھی بھی پشتون قوم کا نمائندہ نہیں بن سکتا اور نہ ہی وہ ہمارے صوبے کے حقوق کی جنگ لڑسکتا ہے۔اے این پی سربراہ کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت نے ہر چیز کو مذاق بنایا ہوا ہے، انتہائی سنجیدہ نوعیت کے آئینی و قانونی معاملات کو اس طرح ڈیل کرنا پارلیمنٹ اور قانون کی توہین ہے۔ 

غیرمتعلقہ افراد کو قومی مالیاتی کمیشن کا حصہ بنانا نااہلی اور مذاق کی آخری حد ہے۔ منڈی بہائوالدین کے ایک فرد کو پشتونوں کے حقوق کی کیا پرواہ ہوسکتی ہے۔ اسفنددیا ر ولی خان نے کسی شخص کا نام لئے بغیر کہا کہ ہمارے لئے ہر بندہ محترم ہے لیکن اپنے حقوق کیلئے غیرمتعلقہ افراد کا انتخاب دراصل کسی اور کی خوشنودی ہے۔ یہ ایک آئینی مسئلہ ہے اور دسویں قومی مالیاتی کمیشن کو ازسرنو تشکیل دیا جائے۔ اسفندیارولی خان نے این ایف سی کمیشن میں مشیرخزانہ و سیکرٹری خزانہ کی شمولیت کو بھی غیرآئینی و غیرقانونی قرار دیا ہے اور واضع کیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 160میں اسکی کوئی گنجائش ہی نہیں۔ 

اے این پی کے علاوہ پاکستان پیپلز پارٹی،جماعت اسلامی اور قومی وطن پارٹی نے بھی دسوویں قومی مالیاتی کمیشن پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے اور اس پر آئینی اعتراضات اٹھائے ہیں اور موقف اختیار کیا ہے کہ موجود حالات میں دسویں قومی مالیاتی ایوارڈ کے اجرائ سے چھوٹے فیڈریٹنگ یونٹس کو شدید نقصان کا اندیشہ ہے ۔قوم پرست جماعتوں نے آئینی نقطہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ آئین کے مطابق قومی مالیاتی ایوارڈ کے اجلاس کی صدارت وفاقی وزیر خزانہ کرے گا مگر اس وقت ملک میں وزیر خزانہ موجود ہی نہیں ہے ان حالات میں صوبوں کے وسائل کی تقسیم جیسے حساس ایشوز کو چھیڑنا خطرنا ک ہوسکتا ہے ۔

سیاسی حلقوں کے مطابق دسویں قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ کے زرئیے صوبوں کے وسائل میں کمی لانے کی کوشش کی جارہی ہے۔اس مقصد کے لئے قومی مالیاتی کمیشن میں مند پسند افراد کو بحیثیت ممبر نامزدکیا گیا ہے تاکہ ان کے رزئیے کمیشن میں من پسند فیصلے کئے جاسکے اور کسی ممبر کی جانب سے مخالفت کا سامنا نہ کر نا پڑے ۔افسونا ک بات یہ کمیشن میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک سابق بیورو کریٹ کو شامل کیا گیا ہے جو خیبرپختونخوا کی نمائندہ کریں گےحالانکہ ماضی میں کبھی بھی ایسا نہیں ہوا اور ہمیشہ اس صوبے سے تعلق رکھنے والے شخص کو کمیشن ممبر نامزد کیا گیا ہے تاکہ وہ اس صوبے اور خصوصا ًپختونوں کے حقوق کی حقیقی معنوں میں صوبے کے حقوق کا دفاع اور تحفظ کرسکے ۔

سرکاری حلقوں کے مطابق اس وقت صوبوں کے وسائل ایک سے دو فیصد تک کمی کرنے کی تجویز زیر غورہے اور اگر اس پر عمل کیا گیا تو صرف خیبرپختونخوا کے حصے میں دس سے پندرہ ارب روپے کی کمی کا امکان ہے جس سے صوبے پر مالی دبائو میں اضافہ ہوگا جس سے صوبے کی معیشت مزید متاثر ہوگی۔ ادھر ملک کے دوسرے صوبوں کی طرح خیبر پختونخو میں بھی کورونا کے حملے جاری ہیں ۔اور تادم تحریر صوبے میں کورونا سے جان بحق افراد کی تعداد تین سو سے تجاوز کرگئی ہے جبکہ متاثرین کی تعد اد ساڑھے چھ ہزار سے تجاوز کر چکی ہے ۔ تاہم اس کے باوجود صوبائی حکومت نے عوامی مشکلات کے پیش نظر جزوی لاک ڈاون میں ضروری ایس او پیز کے ساتھ نرمی کا اعلان کیامگر ۔ 

اس اعلان کے ساتھ ہی شہر وں میں عید شاپنگ کےلئے عوام کا ایک جم غفیر اُمڈ آیا۔ بڑی تعداد بازاروںکا رخ کرنے والے شہریوں نے ایس او پیز کی دھجیاں اڑا دیں۔ایسا نظر آرہاتھا کہ حکومت نے ایس او پیز کا نہیں کورونا کے خاتمے کا اعلان کیا ہے۔ ان حالات میں ضلعی انتظامیہ ایس او پیز لاگو کرنے میں بری طرح ناکام رہی۔ اگرچے پولیس اہلکار چار بجے کے بعد اکا دکا دکانداروںکو دکانیں بند کرانے میں مصروف نظر آئے لیکن بڑے سٹور اور دکانیں بدستور کھلی رہیں باالخصوص شہر اور کینٹ کے بازاروں میں ایک ہجوم اُمڈ آیا جسے روکنا شائد ضلعی انتظامیہ کے بس کی بات نہیں رہی ۔ 

حکومتی اعلان کے مطابق جمعہ ،ہفتہ اور اتوار کو کاروبار بند رہے گا اس دوران جمعے کو ٹاسک فورس کے ہونے والے اجلاس میں عوام کا اسقدر بڑی تعداد میں بغیر کسی ضرورت کے نکلنے پر تشویش کا اظہار کیا گیا 50دن کے لاک ڈاون کے دوران حکومت کی جانب سے متاثرہ افراد کے علاج معالجے اور انہیں سہولیات کی فراہمی کا بھی فقدان رہا پختونخوا کے سب سے بڑے طبی مرکز جاننے والے لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے واحد آئی سی یو(انتہائی نگہداشت) سپیشلسٹ ڈاکٹر عائشہ نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا ہے انکا کہنا تھا کہ کورونا وائرس کے مریضوں کو ڈیل کرنے کیلئے کوئی مناسب انتظام نہیں کیا گیا ہے ڈاکٹر عائشہ اس ہسپتال کی واحد آئی سی یو(انتہائی نگہداشت) سپشلسٹ تھیں جہاں اب تک60سے زیادہ متاثرہ افراد کی موت واقع ہوئی ہے۔

تازہ ترین
تازہ ترین