• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دیامر بھاشا ڈیم کے بارے میں کچھ غلط فہمیوں کا ازالہ ضروری ہے۔ اس کی تعمیر کے لیے 1980ء کی دہائی سے جائزہ لیا جاتا رہا ہے۔ اس کی ابتدائی امکانی رپورٹ کینیڈا کی MONENCO نے تیار کی۔ اُنھوں نے مٹی کی بھرائی والے ای سی آر ڈی کی تعمیر تجویز کی۔ یہ سی ایف آر ڈی نہیں تھا اور نہ ہی جنرل صفدر بٹ نے اس ڈیم کو ڈیزائن کیا تھا۔

این ای سی اے کے کنسٹلٹنٹ، جن میں چوٹی کے ماہرین شامل تھے، کے لیے گئے مفصل امکانی جائزے میں ڈیموں کی مختلف اقسام پر غور کیا گیا۔ سی ایف آر ڈی اور ای سی آر ڈی کا بھی جائزہ لیا گیا انہیں مندرجہ ذیل وجوہ کی بنیاد پر مسترد کردیا گیا۔

۱) پلاسٹک کلے حاصل کرنے کے ذرائع مناسب مقدار میں دستیاب نہیں تھے، اس لیے ای سی آر ڈی تعمیر نہیں ہو سکتا تھا۔ ۲

) دریا کی لائی گئی مٹی نرم اور بھربھری تھی، اس کا مطلب ہے کہ مٹی پر تعمیر کی گئی کوئی بھی چیز پائیدار نہیں ہوگی۔ چنانچہ اس مٹی پر ڈیم کی بنیاد رکھنا خارج از امکان قرار دے دیا گیا

۳) دریائے سندھ میں شمالی علاقہ جات میں گلاسیکل لیک آئوٹ برسٹ فلڈ (جی ایل او ایف) کے بہت سے واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔ اس سے اچانک بڑے سیلاب آ جا تے ہیں۔ ای سی آر ڈی یا سی ایف آر ڈی بھر سکتے ہیں اور اس قسم کے ڈیم مکمل بھرنا برداشت نہیں کر سکتے ہیں۔ لیکن ایک آر سی سی ڈیم اس کو برداشت کر سکتا ہے۔

مندرجہ بالا اور بہت سی دیگر معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے آر سی سی قسم کا ڈیم تجویز ہوا۔ اس بارے دعویٰ کیا گیا کہ سی ایف آر ڈی کی قیمت آر سی سی کے نصف کے برابر ہوگی۔ یہ غلط ہے کیونکہ لاگت کا تخمینہ مفصل امکانی مرحلے پر لگایا تھا اور سی ایف آر ڈی اور آر سی سی کی لاگت یکساں تھی۔

میڈیا میں پائی جانے والی ایک اور تشویش خیبر پختونخوا سے قراقرم ہائی ویز کے ذریعے وہاں سیمنٹ اور دیگر سامان پہنچانے کے بارے میں ہے۔ یہ یقیناً ایک چیلنج ہے۔ امکانی اور ڈیزائن کی جانچ کے مرحلے پر سامان کی نقل و حمل اور اس میں درپیش مسائل کا جائزہ لیتے ہوئے کچھ حل تجویز کیے گئے تھے۔ ایک اور بہت اہم نکتہ یہ ہے کہ مختلف ماہرین نے اسی علاقے میں دریائے سندھ پر ڈیموں کی تعمیر کے لیے جائزے پیش کیے ہیں۔ ان میں دیگر کے علاوہ بنجی ڈیم اور داسو ڈیم بھی شامل ہیں۔

ان تمام ماہرین نے آر سی سی قسم کے ڈیم ہی تجویز کیے۔ تمام تیکنکی اور فنی عرق ریزی سے ایک ہی نتیجہ نکلا کہ آر سی سی ڈیم ہی اس علاقے کے لیے بہترین آپشن ہے۔ بھاشا ڈیم کا ابتدائی امکانی مطالعہ کینیڈا کی مونٹریال انجینئرنگ کمپنی (ایم او این ای این سی او) نے 1984ء میں کیا۔ اس جائزے کا ہدف 3360میگا واٹ بجلی اور 5.7ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش کا ڈیم تعمیر کرنا تھا۔ اس پر بیشمار افراد و اداروں نے نظر ثانی کی۔

امکانی جائزہ رپورٹ پر نظر ثانی، انجینئرنگ ڈیزائن اینڈ ٹینڈر ڈاکومنٹیشن دیامر بھاشا کنسلٹینٹس نے کی جسے لیمر انٹرنیشنل جرمنی اور برقاب اینڈ پی ای ایس جسے اے ایم ای سی کینیڈا کا تعاون حاصل تھا۔

ڈی بی سی کا تجویز کردہ 272 ایم میٹر بلند آر سی سی ڈیم جو 4500 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے اور 6.4 ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش رکھتا ہو، تھا۔ یہاں یہ ذکر برمحل ہوگا کہ ڈی بی سی نے گزشتہ کام کے دوران کیے گئے بہت سے مطالعوں کو استعمال کیا تھا۔

اس کے لیے ماہرین کے جس عالمی پینل کو مدعو کیا گیا اس میں فابیو ویلجز، ہائیڈرو پاور لے آئوٹ پلاننگ ایکسپرٹ، ڈاکٹر والٹر وٹکی، راک مکینکس ایکسپرٹ، برین فوربز، آر سی سی ماہر اور ڈاکٹر عبدالشکور، ارضیاتی ماہر شامل تھے۔ دیا مر بھاشا ڈیم تین مراحل سے گزر چکا ہے قبل از امکانی جائزہ (1984) اور مفصل ڈیزائن (2008)۔

عالمی شہرت پاکستانی فرمز نے اس کے ڈیزائن کو مکمل کیا ہے، جو اب تعمیر کے لیے تیار ہے۔ چنانچہ یہ کہنا ہے کہ ڈیم کے منصوبے پر نظر ثانی نہیں کی گئی، غلط ہے۔

کہا گیا کہ ایک آر سی سی ڈیم زلزلے کا مقابلہ نہیں کر سکے گا۔ اس دعوے کی کوئی تیکنکی دلیل نہیں ہے۔ دنیا کے تما ڈیم پہاڑی علاقوں میں ہی تعمیر ہوتے ہیں۔ تمام ڈیموں کی سائٹس ایک سی ہوتی ہیں۔ یہ بھی تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ ان علاقوں میں زلزلوں کا خطرہ رہتا ہے چنانچہ ڈیموں کو زلزلوں کا مقابلہ کرنے کے ڈیزائن کیا جاتا ہے۔

اس کے لیے بہت سخت جان ڈیزائن، انتہائی کڑی تکنیکی جانچ پڑتال اور بہترین معیار دستیاب ہے۔ دیامر بھاشا ڈیم کے لیے تمام عالمی معیار سامنے رکھے گئے اور اُنہیں اپنایا گیا۔

زلزلے کے خطرے تمام ڈیموں کے لیے یکساں ہوتے ہیں۔ اس کے لیے زلزلے کی انتہائی شدت کو سامنے رکھا جاتا ہے۔ ڈیمز کے اہم خدوخال کو اس قابل بنایا جاتا ہے کہ وہ اس شدت کا مقابلہ کر سکے۔

نیسپاک پاکستان میں سب سے بڑا کنسلٹنٹس کا ادارہ ہے۔ یہ پاکستان اور دیگر ممالک میں ڈیموں کی تعمیر کا وسیع تجربہ اور مہارت رکھتا ہے۔ اُنھوں نے بہت مہارت سے کئی ایک منصوبے مکمل کیے، جیسے غازی بروتھا ہائیڈور پاور پراجیکٹ، نیلم جہم منصوبہ اور منگلا ڈیم کو بلند کرنے کے منصوبے۔ دیا مربھاشا کی تعمیر کا منصوبہ ایک مشترکہ کاوش ہے جس میں نیسپاک، ہرزا، سٹان ٹیک، پورے، ڈولسار، مٹ میکڈونلڈ انٹرنیشنل، چائنہ واٹر ریسورسز بیافنگ شامل ہیں۔

کالا باغ ڈیم کے بارے میں پائی جانے والی کچھ غلط فہمیوں کو موجودہ منصوبے کے ساتھ بھی جوڑا جا رہا ہے۔ کالا باغ ڈیم کے تنازع کے حل کے انتظار میں پاکستانی قوم پانی اور بجلی کے بغیر نہیں رہ سکتی۔ اسے پانی اور بجلی کی شدید قلت کا سامنا ہے۔

دیامر بھاشا ڈیم کے علاوہ دیگر ڈیم بھی بننے چاہئیں۔ اب دیامر بھاشا کی تعمیر کا مرحلہ شروع ہو چکا۔ ہم پہلے ہی کالا باغ تنازع کی وجہ سے بہت تکلیف اٹھا چکے ہیں۔ ہم نے ان تنازعات پر اربوں ڈالر پانی کی طرح بہائے ہیں۔ اب مزید حماقتوں کی گنجائش نہیں۔

تازہ ترین