• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انتظار حسین کی طرح میری نانی اماں بھی مجھے بچپن میں اس جن کی کہانی سنایا کرتی تھیں جس نے ایک شہزادی کو قید کیا ہوا تھا۔ اس شہزادی کو جن کی قید سے چھڑانے کے لئے ایک شہزادہ جان جوکھوں کا سفر طے کر کے وہاں پہنچ جاتا ہے اور پھر وہ دونوں وہاں سے رہائی کی تدبیر یں سوچنے لگتے ہیں۔ جب جن کے آنے کا وقت ہوتا ہے شہزادی، شہزادے کو چھپا دیتی ہے لیکن جن کو احساس ہوتا ہے کہ وہاں کوئی اجنبی موجود ہے چنانچہ وہ آدم بو، آدم بو پکارنے لگتا ہے یعنی اسے یہاں کسی انسان کی بو آ رہی ہے اور پھر وہ غصے سے پاؤں پٹخنے لگتا ہے!

یہ کہانی بہت لمبی ہے، لہٰذا اسے یہیں رہنے دیں کیونکہ ہمارے اپنے اردگرد بےشمار جن منڈلاتے پھرتے ہیں اور انہیں جہاں کہیں کسی ’’انسان‘‘ کی موجودگی کا احساس ہوتا ہے وہ ’’آدم بو، آدم بو‘‘ کہتے ہوئے اسے تلاش کرنے لگتے ہیں تاکہ اس کا قلع قمع کر سکیں۔ شہزادی والا جن تو آخر میں اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوا تھا کیونکہ بالآخر شہزادہ جن کو ہلاک کرکے اسے آزاد کرانے میں کامیاب ہو جاتا ہے لیکن ہمارے جن ہمارے قابو میں نہیں آ رہے۔ کئی علاقے ’’انسانوں‘‘ سے خالی کرا دیے اور وہاں ایسے لوگ بیٹھ گئے جن میں انسانوں کی خو بو نہیں تھی ۔ کیا آپ معین قریشی اور شوکت عزیز ایسے لوگوں کو پاکستانی انسانوں میں شمار کرتے ہیں؟

ہمارے ہاں آدم خور کے علاوہ کچھ قرضہ خور اور قبضہ خور جن بھی موجود ہیں۔ جنوں کا یہ گروہ کھربوں روپے ڈکار چکا ہے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ یہ جن روپ دھارنے میں بھی کمال رکھتے ہیں چنانچہ ہمارے معاشرے میں یہ کچھ اس طرح رچ بس جاتے ہیں کہ انہیں پہچاننا مشکل ہو جاتا ہے۔ کبھی یہ اسلام دوست کے روپ میں سامنے آتے ہیں اور معاشرے میں سے روا داری، برداشت اور امن و سلامتی ایسے انسانی جذبے ہڑپ کرنے لگتے ہیں، کبھی استادوں کا گاؤن پہنے ہوئے نمودار ہوتے ہیں اور نافع علم کی جڑوں میں بیٹھ جاتے ہیں، کبھی تاریخ دان کا روپ دھارتے ہیں اور ہمیں ہماری تاریخ سے بےبہرہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہیں دانشوروں کا روپ دھارنا بھی آتا ہے اور پھر اس روپ میں وہ پاکستان اور ہندوستان میں ثقافتی مماثلتیں تلاش کرتے کرتے ملک کی بنیادوں ہی پر کاری وار کرنے لگتے ہیں یہ بڑے کاریگر جن ہیں۔ ان میں سے کچھ نے تو این جی اوز بھی بنائی ہوئی ہیں اور امریکہ اور یورپ سے لاکھوں ڈالر براہِ راست وصول کرتے ہیں اور بظاہر روشن خیالی والے ایجنڈے پر عمل کرتے ہوئے خود کو پاکستانیوں کا محسن بھی ثابت کرنے میں لگے رہتے ہیں اس گروہ میں جنوں کے علاوہ کچھ چڑیلیں بھی شامل ہیں۔ یہ صنعتکار کے روپ میں بھی سامنے آتے ہیں اور مزدوروں کا خون چوستے دکھائی دیتے ہیں۔ تاجر کا روپ دھارتے ہیں اور مہنگائی کا بازار گرم کر کے لوگوں کو خود کشیوں پر مجبور کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ یہ بہروپیے قوم کو لسانی اور مذہبی منافرتوں کا شکار بھی بناتے ہیں۔

ان جنوں میں سے ایک جن کے ساتھ میری دوستی ہے۔ آپ حیران ہو رہے ہوں گے کہ یہ کیسا شخص ہے جو ان کی انسان دشمنی کا رونا بھی رو رہا ہے اور ان کے ساتھ دوستی بھی رکھتا ہے حالانکہ اس میں حیران ہونے والی کوئی بات نہیں کیونکہ میرا میڈیا سے تعلق ہے۔ اور آپ ہم میڈیا والوں کو اتنا معصوم کیوں سمجھتے ہیں۔ ہم میں بھی ان جنوں کے اشاروں پر ناچنے والے موجود ہیں تاہم میں ایسا نہیں ہوں، خدا کرے آپ میرے اس جھوٹ پر بھی اسی طرح یقین کر لیں جس طرح اور بےشمار جھوٹوں پر یقین کرتے ہیں۔ میری تو اس جن کے ساتھ دوستی اس کے مسخرے پن کی وجہ سے ہے۔ ایک دن میں نے اس سے پوچھا ’’تم جنگلوں سے نکل کر شہروں میں کیوں آ گئے ہو؟‘‘ اس پر اس نے ایک بھرپور قہقہہ لگایا اور کہا ’’اس لئے کہ اب شہر جنگل بن گئے ہیں اور ہمیں کام کرنے کا وہیں مزا آتا ہے جہاں جنگل کا قانون نافذ ہو!‘‘ اور پھر اس نے شہروں میں موجود پولیس، ضلع کچہری، واپڈا، ایف آئی اے، ایل ڈی اے، کے ڈی اے اور سی ڈی اے وغیرہ کی مثالیں دیتے ہوئے قواعد و ضوابط کو مسخ کرنے کے حوالے سے ایسی ایسی باتیں بتائیں کہ میں بھی یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہو گیا کہ شہر اب جنگل بن چکے ہیں۔

سو صورتحال یہ ہے کہ دہشت گردی کا جن، مہنگائی کا جن، بےروزگاری کا جن اور لاقانونیت کا جن ہمیں چاروں طرف سے اپنے نرغے میں لئے آدم بو آدم بو کہتا ہوا ہماری طرف بڑھ رہا ہے اس کے ساتھ ساتھ ایک بین الاقوامی آدم خور امریکہ بھی ہمیں بلیک میل کرتا رہتا ہے۔ اب ہم کسی شہزادے کے انتظار میں ہیں جو ہمیں ان عفریتوں سے نجات دلائے لیکن فی الحال ہمیں کوئی شہزادہ ان راستوں پر نظر نہیں آتا جس کے پاؤں کے چھالے ثابت کریں کہ وہ منزل کی طرف رواں دواں ہے۔ جن کی قید میں رہنے والی شہزادی تو اس شہزادے کو جن سے بچانے کے لئے اسےچھپانے میں کامیاب ہو جاتی تھی جبکہ ہماری صورتحال یہ ہے کہ ہم سب کو جن نے انسان سے مکھی بنا کر رکھ دیا ہے اور یوں اب ہم غلاظتوں کے اتنے زیادہ عادی ہو گئے ہیں کہ مجھے خدشہ ہے اب ہم شاید دوبارہ انسان کے روپ میں آنا پسند بھی نہ کریں! آخر میں میری دعا ہے کہ ﷲ کرے اس نظام کو کورونا ہو جائے!

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین