• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نیا ورلڈ آرڈر، ٹرمپ کی حکمت عملی سے امریکا کے نقصانات میں تیزی

کراچی (نیوز ڈیسک) کورونا وائرس کے بعد کے دنیا کے منظر نامے کے حوالے سے یورپی ممالک میں واضح انداز میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ویژن کو رواں ہفتے مسترد کر دیا۔ 

جب سے ٹرمپ نے امریکی صدر کا عہدہ سنبھالا ہے اس وقت سے قریبی اتحادی سمجھے جانے والے امریکا اور یورپ کے درمیان کشیدگی پیدا ہونا شروع ہوگئی تھی تاہم اب کورونا وائرس کے بحران کے بعد سے اس میں اُبال آنا شروع ہو گیا ہے۔ 

اب یورپ کی طرف سے امریکا کو پیغام دیا جا رہا ہے کہ اگر آئندہ الیکشن میں ڈیموکریٹس ہار گئے تو دنیا پر امریکا کا غلبہ کم ہونا شروع ہوجائے گا اور اگر ٹرمپ نے مزید چار سال بطور صدر گزارے تو کورونا کے بعد ان کے امیج میں بہتری آنے کے آثار نہیں۔ 

کورونا نے اپنے پھیلنے کی رفتار سے دنیا کو حیران و پریشان کر دیا ہے، لیکن وائرس کی وجہ سے عالمی سطح پر آنے والی تبدیلی میں بھی تیزی آنے لگی ہے اور یہ تبدیلی امریکا کے حق میں ہوتی نظر نہیں آ رہی۔ 

امریکا اور یورپ کے درمیان تقسیم منگل کو اس وقت واضح نظر آئی جب عالمی ادارہ صحت (ڈبلوی ایچ او) کے جنیوا میں ہونے والے سالانہ اجلاس کے دوران سوئٹزرلینڈ نے کورونا وائرس کے پھیلنے کی تحقیقات کے معاملے میں یورپ کی چین کی جانب مفاہمتی سوچ کی حمایت کی۔ 

امریکا کی اس سوچ کو مسترد کر دیا گیا کہ سخت رویہ اختیار کیا جائے اور اس اقدام کے ساتھ ہی طاقت کا محور امریکا سے ہٹ کر کہیں اور منتقل ہوتا نظر آ رہا ہے۔ یہی وہ بات ہے جس کے باعث امریکا میں خطرے کی گھنٹیاں بجنا شروع ہو گئی ہیں۔ 

2020ء کے پانچ ماہ گزر چکے ہیں اور ابھی سے ہی یہ لگنے لگا ہے کہ نیا دور آنے کو ہے جس کا کورونا سے پہلے اور کورونا کے بعد کی صورتحال کے طور پر موازنہ کیا جا سکتا ہے۔ 

اچانک ہی دنیا میں پھیلے ہر تنازع اور جھگڑے کی حرکیات (ڈائنامکس) وبا کی وجہ سے تبدیل ہوتی نظر آ رہی ہیں، اس میں پیچیدگی بھی آ رہی ہے تو اس کی سنگینی میں بھی تبدیلی ہوتی نظر آ رہی ہے۔ 

ان تمام تنازعات میں سے ایک دنیا پر غلبہ حاصل کرنے کی امریکا، یورپ اور چین کی سہ جہتی لڑائی ہے۔ اگرچہ ٹرمپ نے کورونا وائرس سے لڑنے کے معاملے میں چینی صدر شی جن پنگ کے ابتدائی اقدامات کی تعریف کی لیکن اس کے بعد سے انہوں نے چینی صدر پر معاملات چھپانے سمیت کئی الزامات عائد کیے ہیں۔ 

بیجنگ نے متواتر ان الزامات کی تردید کی ہے اور وبا سے نمٹنے کے معاملے میں امریکی طریقوں پر تنقید کی ہے۔ ٹرمپ نے چین کا ساتھ دینے پر دوسرا محاذ ڈبلیو ایچ او کیخلاف کھول دیا اور اس کی 50؍ کروڑ ڈالرز کی فنڈنگ روک دی۔ یہی نہیں، پیر کو انہوں نے دھمکی دی کہ اگر عالمی ادارے نے معاملات بہتر نہ کیے تو فنڈنگ مستقل بند کر دیا جائے گی۔ 

چین کی جانب سے وبا س نمٹنے کے معاملے میں سنگین تحفظات کے باوجود یورپ نے ڈبلیو ایچ او کے اس موقف کی حمایت کی کہ غیر جانبدار، آزاد اور جامع نظرثانی کی ضرورت ہے تاکہ ان تجربات سے استفادہ کیا جا سکے کہ کورونا وائرس جیسی وبا سے آئندہ کیسے لڑنا ہے۔ 

اگرچہ سمجھنے کے معاملے میں یہ موقف پیچیدہ نظر آتا ہے لیکن اس میں وہ تمام اجزا شامل ہیں جو یورپ اور امریکا کے درمیان خلیج پیدا کر سکتے ہیں۔ 

یورپ کی جانب سے چین اور ڈبلیو ایچ او کے ساتھ تعلقات خراب کرنے کے امریکی مطالبے کو مسترد کیے جانے کے بعد اب امریکا میں ہونے والے صدارتی الیکشن میں دونوں جماعتوں کیلئے معاملات مشکل نظر آ رہے ہیں۔ 

اس بات سے قطع نظر کہ کون جیتے گا، ٹرمپ اور ان کی جانب سے کورونا سے نمٹنے کا انداز عالمی سطح پر امریکا کے رعب اور دبدبے میں کمی لا رہا ہے۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا کے دیگر جمہوری ملک امریکی انتخابات پر رواں سال کیسے اثرا انداز ہو سکتے ہیں۔ 

ٹرمپ کے اس وبا سے نمٹنے کے انداز سے یورپ والے سمجھ گئے ہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ اُس سمت میں جا رہی ہے جہاں کوئی زی شعور شخص یا جمہوریت نہیں جا سکتی۔ 

تین سال سے بین البراعظمی سطح کے تعلقات میں خلیج اس بڑے خلاء کی صورت میں سامنے آنے لگی جس میں اگر تعلقات بگڑیں گے نہیں تو کم از کم چین کے فائدے کیلئے ضرور تبدیل ہوں گے۔ 

ٹرمپ کے اس بیان کو نہ بھولیں جو انہوں نے امریکیوں کو کورونا وائرس سے لڑنے کیلئے بلیچ یا کلورین پینے کے مشورے کے طور پر دیے تھے۔ اگرچہ بعد میں انہوں نے کہا کہ یہ بیان طنزیہ تھا لیکن عالمی سطح پر بھی ان کے کئی ایسے بیانات ہیں جنہیں اچھا نہیں سمجھا گیا۔ 

ان میں 2018ء کے نیٹو اجلاس کے دوران جرمن چانسلر پر دھونس جمانا، اسی سال کیوبک میں ہونے والے جی سیون کے اجلاس میں کینیڈین وزیراعظم کے ساتھ ہونے والی تلخ کلامی جیسے واقعات شامل ہیں۔ دیکھا جائے تو یوں لگتا ہے کہ وبا سے نمٹنے کے معاملے میں معاملات اور حالات امریکی قیادت کی پکڑ میں نہیں ہیں۔ 

جنیوا میں ڈبلیو ایچ او کے اجلاس کے دوران جرمن چانسلر اور فرانسیسی صدر نے سوئس صدر کے ساتھ مل کر ٹرمپ کے وبا سے لڑنے کے اقدامات اور ڈبلیو ایچ او کی فنڈنگ روکنے پر نکتہ چینی کی۔ 

دوسری جانب چین کو دیکھیں تو دنیا میں تیاری کے مراحل سے گزرنے والی 8؍ کورونا ویکسین میں سے 3؍ چین میں تیار ہو رہی ہیں۔ 

چین نے یہ نہیں کہا کہ وہ ویکسین تک رسائی محدود کریں گے لیکن چینی صدر سمجھتے ہیں کہ ٹرمپ کی چین کے متعلق پالیسی کی وجہ سے چینی مصنوعات دنیا کی مختلف مارکیٹس تک پہنچنے میں مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ یہاں مفادات کا تضاد واضح نظر آتا ہے۔ 

یورپ والے سمجھتے ہیں کہ چین کے ساتھ تنازع پیدا کرنے کی بجائے اس کے ساتھ تعاون کرنا زیادہ بہتر ہے۔ یورپ والوں کا یہی آزادانہ فیصلہ امریکی صدر اور ان کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو کے منہ پر طمانچہ ہے جو دنیا کو دو گروپس میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ 

صورتحال فائیو جی ٹیکنالوجی کے تناظر میں بھی خراب ہوئی جس میں امریکا نے یورپ والوں پر دبائو ڈالا کہ چینی ٹیلی کام مصنوعات سے گریز کریں اور دھمکیاں دیں کہ حکم عدولی کی صورت میں انٹیلی جنس کا تبادلہ روک دیا جائے گا۔

تازہ ترین