• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیر اعظم عمران خان کو عیدالفطر کی تعطیلات کے بعد بڑے چیلنجوں کا سامنا ہو گا جن میں کورونا وائرس سے بگڑتی صورتحال کا سامنا بھی شامل ہے ۔ خود ان کے مشیر صحت خبردار کر چکے ہیں کہ وبا سے متاثریں کی تعداد میں اضافے کی وجہ سے لاک ڈائون دوبارہ سخت کر نا پڑے گا ۔

ان کے لئے دیگر سیاسی چیلنج بھی موجود ہیں ۔ان میں شوگر انکوائری کمیشن رپورٹ کے ما بعد اثرات بھی شامل ہیں جس طرح سے کمیشن کی سفارشات سامنے آئی ہیں اس سے ان کے اتحادی خوش نہیں ہیں ۔رپورٹ میں بلا واسطہ یا بالواسطہ انہیں مورد الزام ٹھہرایا گیا ہے ۔ 

اب جبکہ گجرات کے چوہدری برادران کے ساتھ غیر اعلانیہ جنگ بندی قائم ہے ،جہانگیر ترین نے حکمراں کیمپ کو سخت پیغام دیا ہے کہ وہ شوگر انکوائری کمیشن کی رپورٹ سے خوش نہیں ہیں ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ کم از کم وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کی برطرفی چاہتے ہیں ۔ 

لہٰذا یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہیں ہو گا کہ وزیر اعظم اب درپیش صورتحال سے کیسے نمٹتے ہیں کیونکہ انہوں نے پہلے ہی اپنے مشیر احتساب شہزاد اکبر سے شکر کی صنعت کو ریگولیٹ کر نے اور نام نہاد شوگر مافیا کے کارٹیل کو توڑنے کے لئے سفارشات مانگ لی ہیں ۔

کچھ سیاسی مبصرین کے خیال میں وزیر اعظم نے شوگر مافیا کو چیلنج کر کے جرئات مندانہ قسم اٹھایا ہے ، لیکن کا وہ خود پر پڑنے والے دبائو کو برداشت کر پائیں گے ، اس کا مشاہدہ بڑی دلچسپی کا باعث ہو گا ۔

اب جبکہ جہانگیر ترین اور چوہدری برادران پر اسرار طور پر خاموش ہیں اور وہ کمیشن کی رپورٹ پر تنقید تک ہی محدود ہیں لیکن وہ اپنی خاموشی توڑ دیں گے اگر حکومت نے کمیشن کی سفارشات پر عمل درآمد کا فیصلہ کرلیا ۔آئندہ دو مہینے حکومت کے لئے نازک اور سخت ہیں ۔

اس دوران پارلیمنٹ کا طویل اجلاس ہوگا ،قومی بجٹ کے علاوہ صوبائی اسمبلیوں میں بھی صوبائی بجٹ پیش ہوں گے ، حکومت نمایاں اصلاحات لا نے کی بھی خواہاں ہے جس کے آئندہچند ماہمیں آرڈننس بھی پیش کئے جائیں گے ۔ دستور سازی کے لئے حکومت کو اپوزیشن کا تعاون درکار ہو گا ۔

جس کا حصول موجودہ حالات میں دشوار دکھائی دیتا ہے ۔جیسا کہ وزیر اعظم کے معمولات کا آغاز کل جمعرات سے ہو گا ، وہ اپنی قانونی اور مالیاتی ٹیموں کے ساتھ طویل اجلاس کریں گے جن کا تعلق بجٹ سازی اور دستور سازی سے ہو گا ۔ وزیر اعظم کے مشیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ کو آگے بڑی آزمائش کا سامنا ہو گا ۔

بجٹ میں امسال اولین ترجیح شعبہ صحت کو حاصل ہو گی ۔ حکومت بڑھتی ہوئی متوقع بیروز گاری سے کیونکر عہدہ برا ہو تی ہے، اس کے لئے غریبوں کو تحفظ فراہم کر نے کی حکمت عملی مرتب کر نا ہو گی ۔کچھ مقدمات نیب میں مکمل ہو گئے اورزیر التوا ہین ۔ 

ایسی بھی اطلاعات ہیں کہ مسلم لیگ ( ن ) کے اعلیٰ رہنمائوں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف ، سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور مفتاح اسماعیل مشکل میں دکھائی دیتے ہیں ۔وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد کی اپنی اصطلاح میں اگر نیب َٹارزنَ بنتا ہے تو کن پر حملہ آور ہو گا ؟ لیکن کیا ممکنہ نیب اصلاحات پر حکومت اور اپوزیشن میں اتفاق رائے ہو سکتا ہے.

بظاہر یہ مشکل نظر آتا ہے لیکن پارلیمانی امور کے مشیر بابر اعوان توقع ہے کہ اپوزیشن جماعتوں سے اس بارے میں مذاکرات کریں گے اور انہیں بریک تھرو کی توقع ہے ۔ اپوزیشن کی اس حوالے سے ابھی تک اپنی کوئی جوابی حکمت عملی نہیں ہے ۔ 

اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ ( ن ) نے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی ہے ۔ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ جو لاک ڈائون نفاذ کے بڑے حامی رہے ہیں ،عید سے قبل کورونا وائرس مریضوں کی تعداد میں اضافے سے ان خدشات درست ثابت ہو ئے لیکن عمران نے سخت لاک ڈائون کی ہمیشہ مخالفت کی کیونکہ اس سے بیروزگاری اور بھوک و اٖفلاس بڑھنے کا خدشہ ہو تا ہے ۔ 

در حقیقت اسمارٹ لاک ڈائون کی حکمت عملی بھی توقعات پر پوری نہیں اتری اور نہ نو تشکیل ٹائیگر فورس کہیں دکھائی دی ۔یقیناَ حکومت، اپوزیشن اور پوری قوم کے لئے یہ موسم گرما بڑی آزمائش کا باعث ہے ۔  

تازہ ترین